آج – ٣ ؍اکتوبر ١٩٩٥
صنعتی شہر مالیگاؤں کے نوجوان شاعر
صدیق اکبرؔ صاحب کا یومِ ولادت…
آپ کا نام صدیق احمد انصاری اور تخلص اکبرؔ ہے ۔ ٣؍اکتوبر ١٩٩٥ء کو صنعتی شہر مالیگاؤں ضلع ناسک (مہاراشٹر ۔ انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ مقامی اسکول سے آٹھویں جماعت تک کی تعلیم حاصل کیں اور گھریلو حالات کے پیش نظر صنعتِ پارچہ بافی سے منسلک روزگار میں جٹ گئے۔ شعر و شاعری کا شوق بچپن سے رہا۔ آپ اپنے کلام پر بزرگ شاعر جناب صالح ابن تابشؔ سے اصلاح لیتے ہیں ۔
اب تک کوئی مجموعۂ کلام شائع نہیں ہوا ۔ مستقبل قریب میں ان شاء اللہ اس ضمن میں پیش قدمی کا ارادہ ھے ۔ شہر کی مختلف ادبی انجمنوں کی شعری و نثری نشستوں میں شرکت کرتے ہیں جن میں انجمن ارتقائے ادب ۔ فروغِ ادب ۔ نثری ادب ۔ محبّان ادب قابلِ ذکر ہیں
آپ کے پسندیدہ شاعروں میں جلیؔل مانک پوری ۔ اختؔر شیرانی ۔ بشیر بدؔر وغیرہ کا شامل ہیں۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✧◉➻══════════════➻◉✧
نوجوان شاعر صدیق اکبرؔ کے یومِ پیدائش پر منتخب اشعار بطور اظہار عقیدت…
ایک دروازہ منتظر ہے مرا
ایک کھڑکی بلا رہی ہے مجھے
یار یہ تو بہت بُرا ہے نا
ہجر میں نیند آرہی ہے مجھے
…
تری طلب ہے ترے آس پاس ہوتے ہوئے
بھٹک رہا ہوں ستارہ شناس ہوتے ہوئے
…
میں خود ہی کھُل کے اسے پڑھ نہیں سکا اکبر
وہ ایک شخص مرا اقتباس ہوتے ہوئے
…
پسِ منظر کا دکھ سمجھتے ہو
میرے اندر کا دکھ سمجھتے ہو
…
جو انگوٹھی میں قید ہوجائے
ایسے پتھر کا دکھ سمجھتے ہو
…
تم مت بتاؤ مجھکو مرے گھر کا راستہ
دریا ہوں جانتا ہوں سمندر کا راستہ
…
دن کو رہتا ہے مرے دل میں گلابی موسم
شب کو کھلتی ہے کوئی رات کی رانی مجھ میں
…
خود ہی کردار ہوئے جاتے ہیں پڑھنے والے
جانے کیسے ہے یہ بے انت کہانی مجھ میں
…
میرا چہرہ بدل نہیں سکتا
آئنے کیوں بدل رہا ہوں میں
…
تیرے اک لمس نے حرارت دی
ورنہ مدت سے شل رہا ہوں میں
…
اسی لیے ہی تو روزی کشادہ تھی ان کی
پرندے جاگ گئے تھے اذان سے پہلے
…
فکر و فن سے اجال کاغذ پر
رنگ 'خوشبو ' خیال کاغذ پر
…
نقش کھینچا تھا چال کا تیری
آگئے تھے غزال کاغذ پر
…
شام ہوتے ہی نکل آئی در و بام سے پھر
اک اداسی مرے کمرے میں ترے نام سے پھر
…
اُن ستاروں کو بھی اب نیند میں حصہ دوں گا
جو مرے ساتھ شبِ ہجر میں اکثر جاگے
….
یوں ترے غم کے تقاضے کیے پورے ہم نے
نیند کو آنکھ کی دہلیز پہ رکھ کر جاگے
…
یہ مرے جسم سے کس جسم کی تشہیر ہوئی
کس کا سایہ مرے سائے سے نمودار ہوا
…
ایک تعبیر نے اکبر مرا رستہ روکا
اور اک خواب مری راہ کی دیوار ہوا
…
جوانیوں کے دن کسی کا قرب یاد اور کسک
ہوا کتابِ زندگی کے سب ورق الٹ گئی
…
نشانِ نقشِ پا کہیں نہ دھول ہے ہواؤں میں
وہ قافلہ گزر گیا وہ گرد کب کے چھٹ گئی
…
وہاں پہ رکھا ہے میں نے تمہارے ہونٹوں کو
جہاں پہ رکھتے ہیں پھولوں کے استعارے لوگ
…
تُو مرے دل کی لغت دیکھ ' اٹھا ' پڑھ تو سہی
تیرے مطلب کے ہیں الفاظ و معانی مجھ میں
…
جہانِ رنگ میں وہ رنگ معتبر ہوگا
جو اُس حسین بدن کے لباس پر ہوگا
…
اس میں کمال کیا جو تو صحرا نورد ہے
میری طرح وجود میں صحرا اٹھا کے لا
…
سماعتوں کی یہ حسّاسیت اذیت ہے
سنائی دیتی ہیں تاروں کی سسکیاں شب بھر
…
ہم سے آشفتہ نواؤں کا بھرم رکھتی ہے
شام جب رات کے زینے پہ قدم رکھتی ہے
…
یہ کیسی آگ ہمارے بدن میں رکھ دی گئی
کہ جلتے رہنا بھی اور راکھ بھی نہیں ہونا
…
کیسا جنونِ رزق مجھ آشفتہ سر میں تھا
میں تھک چکا تھا پھر بھی مسلسل سفر میں تھا
…
نئے پرندے جب اونچی اُڑان بھرتے ہیں
تو کچھ پرانے ہواؤں کے کان بھرتے ہیں
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
صدّیق اکبرؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ