(Last Updated On: )
خطہ کشمیر جو دنیا بھر میں قدرتی حسن ، وسیع و عریض وادیوں ، جھیلوں ، دریاؤں کی وجہ سے مشہور ہے ۔ اللہ پاک نے اس لازوال خطہ کو باکمال شعرا سے بھی نوازا ہے ۔ آزادکشمیر میں ابھرتے ہوئے نوجوان شعرا میں ایک تابندہ نام جس کی شاعری اس کی شخصیت کی پہچان بنی جس کے کلام نے ہم سب کے دل موہ لیا سیدھا سادہ اک کشمیری ” راز احتثام ” جو 30 جنوری 1996ء کو پلندری آزادکشمیر میں پیدا ہوئے ۔
ابھرتے ہوئے اس نوجوان شاعر نے 2008ء میں شاعری کی ابتدا کی اور کم وقت میں ادبی دنیا میں اپنی پہچان بنانے میں کامیاب ہوا ۔ بہت سے ادبی مشاعروں میں شرکت کی اور لمز لٹریری سوسائٹی کے زیر اہتمام شائع ہونے والے جریدہ ” ریوری ” میں بہ حیثیت ایڈیٹر فرائض سر انجام دے رہے اور ساتھ اس سوسائٹی کے نائب صدر بھی ہیں ۔ 2020ء میں ایمبسٹی آف پاکستان ان قطر کی طرف سے منعقدہ غزل مقابلے میں اول پوزیشن بھی حاصل کی ۔ آپ کی پہاڑی نظم ” جنت دوزخ ” کو بہت پذیرائی ملی چند اشعار ملاحظہ کریں :
اللہ میاں گل تے بجھا
تسیں نی جنت اتنی سونی
اِتھے قبضہ کوئی نئیں کرنا؟
اتھے فوجاں کوئی نی چاڑھنا؟
اے نا وے میں اتھے وی اک کوٹھا چاڑاں
تے دوزخے چا اک شوں شوں کرنا گولا اچھے
ماڑا سب کی اڈری اچھے
چند غزل کے اشعار بھی ملاحظہ کریں :
بجھی تھی آگ جو آتش کدہ ایراں میں
سلگ رہی یے مرے بام و در میں آج تلک
میری وسعت مرے اظہار کے آڑے آئی
مجھ سمندر سے زیادہ تو ندی بولتی ہے
سفید ہاتھ نظر آ رہا ہے کھڑکی میں
مرے خیال سے یہ صلح کی نشانی ہے
جب اک غزل سے نہ ٹوٹا سومنات بدن
میں نے سترہ نئے زاویوں سے شعر کہے
ہم اپنی خاک اڑاتے ہیں اور ہنستے ہیں
بس اتنا رنج ہی کافی ہے آسماں کے لیے
آپ کی شاعری کا یہ منفرد انداز آپ کو عہد حاضر کے دیگر شعرا سے منفرد بناتا ہے ۔ قاری کے ذہن و قلب پر اپنے کلام سے ایسا اثر ڈالتے ہیں جس سے باہر آنا ممکن نہیں۔ حسن و نغمگی ان کے کلام کی نمایاں خصوصیت ہے ۔ قنوطیت کی بجائے رجائیت کا اثر قبول کیا اور شاعری میں فکر و فن دونوں لحاظ سے دسترس رکھتے ہیں ۔ آپ کی شاعری میں جوش و بیان کے ساتھ اثرآفرینی بھی پائی جاتی ہے امید ہے یہ نوجوان شاعری اس کامیاب شعری تسلسل کو جاری رکھ کر مزید کامیابیاں اپنے نام کرے گا ۔