یہ 1963 کی بات ہے، پاکستان کی تاریخ کا وہ دور جب کوئی حکومتِ وقت کے خلاف بات نہیں کر سکتا تھا اور متحدہ پاکستان کے سیاسی و سماجی حقائق سے ناواقف سادہ لوح عوام پر "ایوب خان" کی سرکردگی میں "جعلی انقلاب" کا خمار چڑھا ہوا تھا، لیکن اس کے ساتھ ہی مُلک کے دونوں بازوؤں میں کچھ گِنی چُنی شخصیات ایسی بھی تھیں جو جمہوری حقوق کی بازیابی کے لیے سرتوڑ کوششوں ميں مصروفِ عمل تھیں اور ایسی ہی شخصیات میں سے ایک تھے مولوی فرید احمد۔
آپ "مشرقی پاکستان" کی "نظام اسلام پارٹی" کے سربراہ تھے۔ "متحدہ پاکستان" کے "دارالحکومت کراچی" کے اپنے آخری دورے کے موقع پر "مولوی فرید احمد" تہمند، کُرتے میں ملبوس تھے اور سر پر کپڑے کی ٹوپی تھی۔ مولوی صاحب بڑی عوامی کشش رکھتے تھے، آپ بہت اچھے مقرر اور بہترین پارلیمنٹیرین بھی تھے۔ آپ کی تقریروں میں جہاں ٹھوس حقائق ہوتے تھے تو وہیں طنز و مزاح کی چاشنی بھی بھرپور ہوتی تھی۔
یہ آپ ہی تو تھے جنہوں نے عوامی مفاد میں جرنیلی ایوب خان کے آمرانہ دور کے نام نہاد "عشرۂ ترقی" کو چیلنج کرتے ہوئے"عشرہ تنزلی" کا نام دیا تھا۔ برسرِ اقتدار حضرات میں سے چند کے اُن "کھاتوں" کا راز بھی مولوی صاحب ہی نے پارلیمنٹ میں افشا کیا تھا جو اُن لوگوں نے "سوئٹزرلینڈ" کے بینکوں میں کھولے ہوئے تھے۔
"قائد حزب اختلاف" جو صدر محمد ایوب خان کے ہی بھائی تھے، ان کے تعلقات کو بھی موضوعِ گفتگو آپ ہی نے بنایا تھا، جس کے نتیجے میں "سردار بہادر خان" کو "حزب اختلاف" کی قیادت سے بھی محروم ہونا پڑا تھا۔
آپ ایک سچّے اور کھرے پاکستانی تھے جنھوں نے پاکستان کی خاطر اپنی جان تک قربان کر دی۔
"فرید احمد" تین جنوری 1923 کو رشید نگر، کوکس بازار ڈسٹرکٹ، مشرقی بنگال، برطانوی راج میں پیدا ہوئے۔ آپ نے 1945 میں گریجویشن کے فوراً بعد ڈھاکہ یونیورسٹی سے انگریزی زبان میں "ایم اے" کیا اور پھر 1947 میں "ایل ایل بی" کی ڈگری حاصل کی۔ آپ "متحدہ پاکستان" کے ایک منجھے ہوئے محبِ وطن سیاستدان تھے اور جمہوریت کی بالادستی پر کامل یقین رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے "بنگلہ دیش" کی آزادی کے دوران "پاکستان" کی مکمل حمایت کی تھی. دس اپریل 1971 کو آپ نے ڈھاکہ میں مرکزی امن کمیٹی تشکیل دی اور اس کمیٹی کے بانی رکن کے طور پر "متحدہ پاکستان" کے لیے کام کیا، اس کے ساتھ ہی انہوں نے مشرقی پاکستان امن و فلاحی کونسل کے صدر کے طور پر بھی خدمات سرانجام دیں.
جب "پاک فوج" کے "90 ہزار وردی پوش" اپنے ہی "ہم وطنوں" کو دشمن سمجھتے ہوئے بےدردی سے قتل کر کر کے ہتھیار ڈال چکے اور اپنی شکست کو بےشرمی سے تسلیم کر لیا تو "متحدہ پاکستان" کا یہ بہادر سپوت جوانمردی سے "مکتی باہنیوں" کے دہشت پسندوں کا مقابلہ کرتا رہا، بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہو گا کہ جب "متحدہ پاکستان" کے "90ہزار محافظ" بےگناہوں کے خون کی ندیاں بہا کر دشمن کے آگے اپنے وطن کا سودا کر چکے تو ان کے مقابلے میں ہمارا ایک "بلڈی سیاسی و جمہوری سویلین" سینا تان کر ثابت قدمی سے کھڑا رہا۔۔۔ آخرکار 23 دسمبر 1971 کو "بنگلہ دیش" کی آزادی کے کچھ دن بعد ہی "مکتی باہنی" کے دہشت پسند ارکان نے "مولوی فرید احمد" کو انتہائی بےدردی سے قتل کر کے، ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے۔
پاکستان کے محب وطن افراد کے لئے "مشرقی پاکستان" کا سانحہ تاریخ کے بدترین سانحوں میں سے ایک تھا۔ دسمبر کا مہینہ آتے ہی مجھے وہ مرغزار یاد آ جاتے ہیں جو پاکستان سے لازوال محبت کرنے والے محب وطن بنگالیوں کے لہو سے رنگین کر دیے گئے تھے، جنہوں نے اپنی جانیں نچھاور کردیں، لیکن بنگالی قوم پرستی کے جارحانہ اندازِ فکر کو قبول نہ کیا۔۔۔ مجھے وہ "پاکستانی بنگالی" شدّت سے یاد آتے ہیں جو اِس پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ لُٹا گئے، افسوس کہ اب انہیں یہاں کوئی یاد نہیں کرتا۔۔۔
"تقسیمِ ہند" کے وقت اُن "بنگالیوں" کی بےپناہ قربانیوں کو جن کے ووٹوں سے یہ ملک وجود میں آیا تھا اور پھر "متحدہ پاکستان" کی تقسیم کے دوران اور اس کے فوراً بعد ان کی شہادتوں کو یاد کرنے والا یہاں کوئی نہیں کہ جو ان کے لیے نوحہ لکھے۔۔۔ صد افسوس کہ ہم نے اپنے محسنوں کو کتنی آسانی سے بُھلا دیا۔۔۔ اور اُن مشترکہ خوابوں کو بھی بُھلا دیا جو ہمارے آباؤاجداد نے 1947 کے وقت دیکھے تھے!
“