بنیادی سائنس کے علاوہ معاشی اور معاشرتی سائنس بھی قوموں کی ترقی کے لیے اہم ہوتی ہے۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک، آبادی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے اعداد و شمار، ماضی کے معاشرتی تجربوں، انسانی رویوں پر ہونے والے سائنسی تجربات اور گزشتہ برسوں کی پالیسیوں اور قانون سازی کے نتائج کو ریاضی اور شماریات کے ماڈلز پر پرکھتے ہیں۔ اس تمام تحقیق کا مقصد بہتر سے بہتر اور دور رس نتائج دینے والی پالیساں مرتب کرنا ہوتا ہے۔ یہ پالیسی سازی میں اہم طریقہ کار ہے۔ اس حوالے سے ماضی کے کیے گئے فیصلوں کے معاشرے پر بالعموم اور کسی ادارے پر بالخصوص مثبت یا منفی اثرات کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے تاکہ آئندہ ایسے فیصلوں کو عملی پالیسی کا حصہ بنایا جا سکے جس سے معاشرے اور اسکے اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے۔
معاشرے کے اہم اداروں کی بات کی جائے تو ان میں سرِ فہرست عدالتیں آتی ہیں۔ عدالت کا کام عدل و انصاف کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ اس تناظر میں سائنسی نقطہء نظر سے یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ ماضی میں پاکستان کے آئین میں ہونے والے ترامیم سے عدالتوں کی کارکردگی پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ 2010 میں آئینِ پاکستان میں اٹھارویں ترمیم منظور ہوئی جس میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں کی تقرری کا اختیار صدر سے لیکر ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو سونپ دیا گیا۔ گویا ججز ہی ججز کی تقرری کرنے لگے۔ آئین سازی میں یہ قدم نہایت اہمیت کا حامل تھا۔ اگر دنیا بھر میں ججز کی تقرری کے حوالے سے دیکھا جائے تو امریکہ میں جج صاحبان کی تقرری کا اختیار ملک کے صدر کے پاس ہوتا ہے جبکہ برطانیہ یا سویڈن میں یہ فیصلہ ججوں پر مشتمل کمیٹی کی سفارشات پر کیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے اہم سوال یہ ہے کہ آیا پاکستان میں ججوں کی تقرری کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو سونپنے سے انصاف کا معیار بہتر ہوا اور کیا اس سے پاکستان کی معیشت کو کوئی فائدہ ہوا۔ کیونکہ ملک کے تمام معاشی معاہدوں کی ضامن عدالتیں ہوتی ہیں۔ جن میں زمینوں کے مقدمات، پراپرٹی کے فیصلے یا کاروباری معاہدے شامل ہوتے ہیں۔
اس ضمن میں ججوں کی صدارتی تقرری اور غیر صدارتی تقرری کے اٹرات پر میرے دوست ڈاکٹر سلطان محمود جو ماہرِ معاشیات ہیں اور ورلڈ بینک کے علاوہ۔دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے وابستہ ہیں، نے دلچسپ تحقیق کی اور ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا جسکا موضوع اس ترمیم کا ججوں کے فیصلوں میں انصاف کے حوالے سے تھا۔ مقالے کا لنک پوسٹ کے نیچے موجود ہے۔ اس تحقیق میں اُنہوں نے پاکستان کی مختلف ڈسٹرکٹ ہائی کورٹس کے 1986 سے 2019 تک کے 8500 مقدمات کا تفصیلی جائزہ لیا جنکے فیصلے ریاست یا ریاستی اداروں کے حق میں یا مخالفت میں ہوئے۔
یہ مقدمات زیادہ تر عام شہری کے ریاست پر ٹیکس کے معمالات میں، بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے یا اراضی کی ملکیت پر تھے۔ اس تحقیق میں اُنہوں نے کمپیوٹر ماڈلز اور ریاضی کی مدد سے یہ ثابت کیا کہ وہ جج جو صدارتی چناؤ سے عدلاتوں میں آئے اُنکے فیصلے زیادہ تر ریاست کے حق میں رہے۔ جبکہ وہ جج جو جوڈیشل کمیشن کے تحت مقرر ہوئے اُنکے زیادہ تر فیصلے عوام دوست تھے۔ اسکے علاوہ معیشت کے حوالے سے یہ دیکھا گیا کہ وہ اضلاع جہاں جوڈیشل کمیشن کی تقرریوں سے بنائے گئے جج تھے وہاں عمومی طور پر گھروں اور پراپرٹی کی قیمتیں باقی اضلاع کی نسبت زیادہ تھیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انصاف میں خلل نہ ہونے کے باعث معاشی معاملات میں بھی خلل پیدا نہیں ہوتا اور کاروبار پھلتے پھولتے ہیں۔
دراصل ماضی میں صدارتی چناؤ سے تقرر کیے گئے جج اس معیار پر لگائے جاتے رہے کہ وہ کس قدر سیاسی وفادار ہیں۔ مگر کیسے؟ سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے لیے ججز کے انتخابات میں ہونے والی تقاریر یا ارادوں سے صدور یہ جان جاتے کہ کون سے اُمیدوار اُنکی پارٹی لائن سے سیاسی طور پر وابستہ ہیں۔لہذا ایسے جج لامحالہ تقرری کے بعد ریاستی اداروں یا حکومت کے حق میں فیصلے دیتے۔ آٹھارویں ترمیم نے یہ راستہ روک دیا۔
اس تحقیق سے اُنہوں نے یہ ثابت کیا کہ آزاد عدلیہ اور عدالت کا سیاست سے تعلق ختم کر کے انصاف کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ یہ تحقیق نہایت زود افزا ہے کہ اس سے ہمیں پہلی بار بڑے پیمانے پر ڈیٹا اور سائنسی طریقے سے یہ علم ہوا کہ پاکستان میں معیشت میں ترقی اور انصاف کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اور ان دونوں میں بہتری کے لیے عدالتوں کا کسی بھی طور پر سیاسی اثر و رسوخ سے پاک ہونا شرط ہے۔ گویا اٹھارویں ترمیم اس معاملے میں ایک اہم اور مثبت پیش رفت تھی۔
Reference: https://papers.ssrn.com/sol3/papers.cfm?abstract_id=3832734