صدر اردوآن کی کامیابی اور ترکی کو درپیش چیلنجز
رجب طیب اردوآن ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ فتح اللہ گلین کو اپنا استاد اور نجم الدین اربکان کو اپنا رہبر قرار دینے والے اس نوجوان نے اپنی سیاست میں مقبولیت نجم الدین اربکان کی رفاہ پارٹی میں رہتے ہوئے حاصل کی۔ 2002ء میں انہوں نے اپنے رہبر نجم الدین اربکان کی جماعت کو یکایک خیرباد کہا اور نئی پارٹی AKPکی بنیاد رکھی، جس نے دنوں میں مقبولیت حاصل کرلی۔ اور یوں اُن کی جماعت AKP نجم الدین اربکان کی پارٹی، رفاہ پارٹی کی جگہ لینے میں بھی کامیاب ہوئی اور طیب اردوآن نے نجم الدین اربکان سے لاتعلق ہونے کا بھرپور اظہار کیا۔ اُن کا اقتدار میں آنا، اس جمہوریت کے مرہون منت تھا جس میں کسی بھی طبقے کا شخص اپنا سیاسی مستقبل بنا سکتا ہے۔ 2002ء تک ترکی 1923ء سے جمہوری سفر کرتا ہوا ایک سوشل ڈیموکریٹک ریاست اور سماج بننے میں کامیاب ہوچکا تھا۔ انہوں نے پہلی مدت وزارتِ عظمیٰ میں اس عمل کو جاری رکھا جو ترکی کی سیاست میں بنیاد بنا چکا تھا، عوامی ترقی اور فلاح وبہبود کے منصوبے۔ ایک پروان شدہ معیشت کی قیادت نے اُن کی شہرت کو چار چاند لگا دئیے۔ دوسری مدت وزارتِ عظمیٰ میں انہوں نے اپنے روحانی استاد فتح اللہ گلین سے لاتعلقی کا اظہار شروع کردیا۔ اب انہوں نے اپنی صدارت کے لیے راہ ہموار کرنی شروع کردی۔ اپنے سیاسی امیج کے لے انہوں نے مذہبی بیانات کا بھرپور سہارا لیا۔ اور پھر 2014ء میں براہ راست انتخابات کے تحت صدر منتخب ہوئے۔ آئین کے مطابق پارلیمانی نظام میں وہ رسمی صدر تھے۔ لیکن انہوں نے اپنی سابقہ جماعت AKP پر پوری گرفت رکھی اور اپنے دست راست احمت دعوت اولو جوکہ وزیرخارجہ تھے، انہیں وزارتِ عظمیٰ کی مسند پر بٹھایا۔ 2015ء کے خاتمے تک انہوں نے اپنے معتمد خاص وزیراعظم جناب احمت دعوت اولو کو بھی فارغ کردیا اور اپنے روحانی مرشد جناب فتح اللہ گلین کو دہشت گرد قرار دینا شروع کردیا۔
غریب گھرانے میں جنم لینے والا یہ نوجوان ترکی کی تاریخ میں ایک مقبول رہبر تو بنا، اس کے ساتھ ساتھ اقتدار میں سخت گیری اور غربت سے دولت کا سفر بھی تیزرفتاری سے طے کیا۔ اس دوران، پروان چڑھتی معیشت لڑکھڑانے لگی، جنگیں ترک سرحدوں تک پہنچیں، مذہبی دہشت گردی ترکی کے اندر پنپنے لگی۔ صدر طیب اردوآن نے ترک صدارتی محل جو انقرہ کے ایک محلے چنکایا میں ایک معمولی گھر تھا، میں رہنے سے انکار کردیا اور ایک ہزار سے زائد کمروں پر مشتمل شہنشاہی طرز پر تعمیر کیے گئے محل میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ صدر طیب اردوآن ایک خوش نصیب سیاسی رہنما ہیں، انہیں مضبوط معیشت اور سوشل ڈیموکریسی ورثے میں ملی۔ لیکن 2002ء سے 2016ء تک ترکی کس قدر بدلا، اس کا اندازہ اب ایک عام قاری بھی لگا سکتا ہے۔ جولائی 2016ء میں اُن کے خلاف ایک ناکام فوجی بغاوت نے ترکی ہی نہیں اُن کی سیاست میں بھی ایک بڑا موڑ لیا۔ وہ اب اسلام اور تنگ نظر قوم پرستی کی ملی جلی سیاست کا پرچم بلند کرتے نظر آرہے ہیں۔ فتح اللہ گلین اور اُن کے حامیوں کا قلع قمع کرنا اُن کا نصب العین ہے کہ ان کے مطابق وہ غدار اور دہشت گرد ہیں۔ وہ گلین کے حامیوں کو FETO (Fatehullah Terrorist Organization) قرار دیتے ہیں اور وہ کُرد رہبر جو پابندسلاسل تھے اور اُن کو اپنا دوست قرار دیتے تھے، اب وہ اُن کُردوں کا صفایا کرنے کے لیے کسی بھی سطح پر مفاہمت کرنا نہیں چاہتے۔ جس روس کو وہ ترکی کا دشمن اوـل قرار دیتے تھے، اب اُسی کو دوست اوّل اور روسی صدر پوتن کو بھائی قرار دیتے ہیں۔ 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ایمرجینسی نے انہیں اُن اختیارات کا مالک بنا دیا جس کا وہ کبھی خواب دیکھتے تھے۔ ترک جمہوریت میں یہ ایمرجینسی کسی فوجی مارشل لاء سے کم نہیں۔ اس ایمرجینسی میں انہوں نے ترکی میں نئے آئین کی منظوری کا اعلان کیا جوکہ ممکن نہ ہوسکا تو انہوں نے تنگ نظر قوم پرست پارٹی ملی حرکت پارٹی سے مفاہمت کرکے آئین میں اٹھارھویں ترمیم پاس کروائی۔ اس ترمیم کے تحت ترکی میں صدارتی نظام تو نافذ ہوجائے گا مگر اسی کے ساتھ ترکی میں De-centralized Democracy اپنے انجام کو پہنچے گی۔ اس ترمیم کو مکمل آئینی حیثیت دینے کے لیے انہوں نے 16اپریل 2017ء کو ریفرنڈم کا اعلان کیا جس میں وہ 64فیصد ووٹ حاصل کرنے کی توقع لگائے بیٹھے تھے مگر انہیں صرف 1.5فیصد سے کامیابی حاصل ہوئی جس میں انہیں تنگ نظر ملی حرکت پارٹی کی حمایت میسر ہے جو اقتدار میں شرکت کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اسلامی دنیا میں معروف اسلام پسند اردوآن ترک سیاست میں درحقیقت تنگ نظر قوم پرستی کے علمبردار کے طور پر اب اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں اور یوں 2029ء تک اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں۔ میں نے ریفرنڈم سے ایک روز قبل جو تجزیہ پیش کیا، اس میں باقاعدہ لکھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ 2فیصد ووٹوں سے کامیاب ہوں گے۔’’یہ منقسم قوم کا فیصلہ ہوگا، جمہوریت کا فیصلہ نہیں۔ میرے نزدیک خنجر کی دھار جیسا باریک فیصلہ، 51فیصد یا 52فیصد ووٹ YES کو بھی مل سکتے ہیں اور NO کو بھی۔‘‘ (ترکی، صدارتی یا نئے طرزِحکمرانی کی طرف؟، روزنامہ نئی بات، 15اپریل 2017ء)
طیب اردوآن اس ریفرنڈم کے بعد یقینا ترکی کی تاریخ میں سب سے زیادہ طاقتور حکمران بن جائیں گے لیکن مستقبل کے اس سارے منظرنامے میں چند سوال بڑے اہم ہیں:
(1) ترک اپوزیشن جو کہ سوشل ڈیموکریسی اور وسیع جمہوریت پر یقین رکھتی ہے، وہ صدارتی نظام کی چادر میں لپٹی فردِواحد کی حکمرانی کے سامنے سرِتسلیم خم کر دیں گے؟ اور عوام اس پر اطمینان کا سانس لیں گیَ جوکہ نو دہائیوں کے جمہوری سفر کے بعد روز بروز مزید جمہوریت کا خواب رکھتے ہیں۔
(2) کیا مضبوط صدر ترکی کو مزید مضبوط معیشت میں بدل دے گا؟
(3) کیا ترکی سرحدوں سے جنگوں کو صاف اور ملک کے اندر بڑھتی مذہبی انتہا پسندی کو شکست دینے میں کامیاب ہوجائے گا؟
(4)ترکی، جس نے نوے سالوں میں خطے میں Engagement کے تحت اپنا وجود اور ترقی کی راہیں قائم کیں، کیا ترکی صدر طیب اردوآن کی حکمت عملی کے تحت Isolation میں معجزے برپا کرسکے گا؟
(5) کیا مضبوط صدر، منقسم قوم کی خلیج کو ختم یا کم کرسکے گا؟
(6) کیا مضبوط صدر عوامی تحریکوں کے برپا ہونے کے امکانات کو 2029ء تک ملیامیٹ کرنے میں کامیاب رہے گا؟
(7) کیا مضبوط صدارتی نظام کُرد مسئلے کا حل تلاش کرنے میں کامیاب ہوگا؟
(8) کیا ترکی طویل عرصے تک الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی آزادی سے محروم رہنے کو برداشت کرتا رہے گا؟
(9) استنبول، انقرہ، ازمیر، ادانہ اور دیاربکر اور دیگر بڑے شہروں میں صدر اردوآن کے خلاف ووٹ ایک Significant تبدیلی ہے؟ کیا ترکی کے یہ بڑے شہر مضبوط مرکز کے سامنے سرنگوں رہیں گے؟
(10) اور اہم ترین سوال کہ کیا ترکی میں کامیاب فوجی بغاوت کے تمام امکانات مکمل طور پر ختم ہوگئے ہیں؟
(11) ترکی میں ریفرنڈم، مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ ایک اختیار میں چلے گئے ہیں۔ کیا آج کی جدید دنیا میں ایسی جمہوریت زیادہ عرصے تک قائم رہ سکتی ہے؟
(12) اور ایک نازک سوال، کیا ترکی جیسی حساس ریاست اس تنائو کو برداشت کرسکتی ہے جو پچھلے دس سالوں میں ملک کے اندر اورخطے میں برپا ہوچکا ہے اور جس کا سبب اقتدار پر مکمل گرفت اور فیصلوں کا اختیار ایک شخص کے پاس ہونا ہے۔ ترکی کہیں 1974ء کے بعد بنگلہ دیش جیسی صورتِ حال سے دوچار تو نہیں کہ جہاں ایک مقبول لیڈر شیخ مجیب الرحمن نے اقتدار کے تمام اختیارات اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ تمام اختیارات اپنے ہاتھوں میں لینے والے مقبول لیڈر شیخ مجیب کی سیاسی کہانی، تیسری دنیا کے لیے سبق ہے۔
میرے مشاہدے اور مطالعے کے مطابق، ترک عوام اپنی جمہوریہ اور جمہوریت کے لیے کبھی خاموش اور سرنگوں نہیں ہوسکتے۔ ترک سماج کا جمہوری شعور ہی اس کی طاقت ہے اور 2017ء ترک سیاست کا فیصلہ کن سال ہے۔
“