"مہاتما بدھ نے کہا تھا کہ لوگ بچوں کی طرح ہوتے ہیں، یہ قصے کہانیوں، واقعوں اور داستانوں میں بڑی دلچسپی رکھتے ہیں اور ان کو سننے اور دیکھنے کی تمنا بھی رکھتے ہیں، جن کا سلسلہ آج تک جاری و ساری ہے۔ لفظ ڈرامہ یونان سے نکل کر جہاں بھی گیا اسکا ایک ہی مطلب لیا گیا کہ افعال و اعمال کی نقالی سے کئی کہانیاں، کئی قصے، کئی واقعات اور کئی داستانوں کو تمثیل کی شکل میں پیش کرنا یا کرکے دکھانا۔ یہ ساٹھ اور ستر کی دھائی کی بات ہےابھی پاکستان میں ٹی وی کا دور دور پتہ نہیں تھا، لہذا خبروں سے لیکر ڈراموں تک کو سننے کا ریڈیو واحد زریعہ تھا، ا ُس زمانے میں ریڈیو پاکستان کے ڈرامے بہت مقبول ہوا کرتے تھے۔سید ذوالفقار علی بخاری پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کے سربراہ کی حیثیت سے کراچی ریڈیو پاکستان پر اس کے افتتاح کے فوراً بعد ہی ڈرامہ کلچر پیدا کرنے کے لئے اپنے تھیٹر کے تجربہ کو مصرف میں لائے، خوش قسمتی سے کراچی میں عبدالرحمن کابلی، مغل بشیر، امیر خان، عرش منیر، فاطمہ خانم اور عبدالماجد جیسے صداکاروں کی ٹیم موجود تھی جس کی وجہ سے سید ذوالفقار علی بخاری کے خواب کو تعبیر ملی"{"عرش منیر: دھابے جی آئے تو بتانا"۔۔از۔ سید انورمحمود}
مجھے ریڈیو کی صدا کارہ عرش منیر پہلی بار اس وقت ملا تھا جب میں ریڈیو پاکستان، کراچی کے " بچوں کے پراگرام" میں شرکت کیا کرتا تھا۔ یہ پراگرام ماجد علی کے انتقال کےبعد ظفر صدیقی کیا کرتے تھے ۔ اس سے ملاقاتوں کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب میں قمر جمیل کا مزاحیہ پروگرام " ہسنا منع لکھا کرتا تھا‘" اور عرش منیر کو زہن میں رکھ کر کوئی نہ کوئی کردار تخلق کرلیا کرتا تھا ۔ کیونکہ مجھے ان کی صداکاری کچھ زیادہ ھی پسند تھی۔ اس زمانے میں عرش منیر ٹی ۔ وی پر بہت مصروف رہتی تھی۔ میں قمر جمیل کو مجبور کرتا تھا کہ وہ "خالہ" کو بلائیں۔ (ریڈیو میں سب عرش منیر کو خالہ کہتے تھے)۔ وہ آتی اور غصے میں کہتی ۔۔ تو مجھ کو اتنے جلدی بلوالیتا ھے" اور مجھ پر خوب غصہ کرتی تھی۔اور قمر جمیل معاملہ ٹھنڈا کرتے۔ بھر منٹوں مین غصہ ختم ھوجانے پر چائے منگواتی تھیں۔
عرش منیر کا تعلق لکھنؤ سے تھا۔ انھوں نے قبل تقسیم ہند دہلی ریڈیو پر صداکاری کی۔ ستمبر 1947 میں ہجرت کرکے پاکستان آگی تھیں۔ انھوں نے نیوز کاسٹر شکیل احمد کے ساتھ ڈراموں میں اداکاری بھی کی تھی ۔ ان کا لہجہ لکھنوی بیگمات کا لہجہ تھا۔ تلخ، ترش اور لہجے والی اداکاری میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ طبعیت کی بہت سادہ تھیں۔ پان بھی ایک ادا سے کھاتی تھیں۔ ان کی ڈانٹ کھانے میں بھی لطف آتا تھا۔ بہت محبت کرنے والی خاتوں تھیں۔ ان کے شوہر شوکت تھانوی اردو کے معروف ادیب، ناول نگار، افسانہ نگار اور شاعر تھے اور آل انڈیا ریڈیو سے وہ بھی وابستہ تھے۔ عرش مینر کے صاھب زادے رشید عمر تھانوی پاکستاں ٹیلی وژن کر پروڈوسر تھے۔ انہی کی تحریک پر عرش منیر نے آل انڈیا ریڈیو سے صداکاری کا آغاز کیا۔ قیام پاکستان کے بعد اور ریڈیو پاکستان سے بطور اسٹاف آرٹسٹ وابستہ ہوگئیں۔ ٹیلی وژن کے آغاز کے بعد انہوں نے متعدد ٹی وی ڈراموں میں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ ان کے ٹیلی وژن کے ڈرامے " شہ زوری"،"شمع"، "خدا کی بستی" (1974) وغیرہ کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ آپ کو ان کا " شٹیل کاک" برقعہ تو یاد ھوگا !!، 1983ء میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ 8 ستمبر 1998ء کو ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کی مشہور صداکارہ اور اداکارہ عرش منیر کراچی میں وفات پاگئیں اور سخی حسن ( شمالی ناظم آباد) کے قبرستان میں رزق خاک ہوئیں۔ اب بھی " خالہ" کی ڈانٹ، پیار اور پان کھانے کا انداز، میری یادوں میں بسا ھوا ھے۔ کیا لوگ تھے وہ بھی ۔۔۔ جو اکثر یاد آتے ہیں ۔۔۔ " خالہ" جہاں رھو خوش رھو!! آپ بہت یاد آتی ہو۔
مجھے عرش منیر کے ڈارمے کی یہ مکالمے یاد آرہے ہیں یاد رہے جب کراچی سے حیدرآباد تک صرف نیشنل ہائی وئے کے زریعے ہی سفر ہوتا تھا، اُس وقت سپر ہائی وئے کا وجود نہیں تھا۔
"دھاے جی آئے تو بتانا"{ ڈرامہ} کے کچھ مکالمے ملاخطہ کریں۔
==============
کنڈکٹر۔۔۔۔۔ حیدرآباد، حیدرآباد، جلدی کریں ، اماں جلدی چڑھو۔
ڈرائیور ۔۔۔۔۔۔ چلو بھائی اوپر آجایں اور سیٹوں پر بیٹھ جایں۔
بس اسٹارٹ ہوکر چلنے لگی ، لانڈھی آنے سے پہلے پہلے کنڈکٹرنے سب سے ٹکٹ کےپیسے وصول کرلیے، جس مسافر نے جہاں تک جانا تھا اُس نے اُس کے مطابق کرایہ ادا کردیا۔ اس بس میں عرش منیر بھی سوار ہیں جو ایک بوڑھی خاتون ہیں۔ لانڈھی گذرنے کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔
عرش منیر۔۔۔۔۔ بھیا کنڈکٹر "دھابے جی آئے تو بتانا"۔
کنڈکٹر۔۔۔۔ جی اماں ضرور
اب کنڈکٹر لانڈھی سے سوار ہونے والے مسافروں سے ٹکٹ کے پیسے لے رہا تھا کہ
عرش منیر۔۔۔۔۔ بھیا کنڈکٹر "دھابے جی آئے تو بتانا"۔
کنڈکٹر۔۔۔۔۔ جی اماں ضروربتادونگا۔
عرش منیر۔۔۔۔۔ بھیا کنڈکٹر بھول مت جانا "دھابے جی آئے تو بتانا"۔
کنڈکٹر۔۔۔۔۔ اچھا اماں ضروربتادونگا اب آپ خاموش بیٹھو۔
عرش منیر۔۔۔۔۔ ائے لو میں نے کیا برا کہہ دیا بس یہ ہی تو کہا تھا کہ بھیا کنڈکٹر بھول مت جانا "دھابے جی آئے تو بتانا"، اس پر اتنا ناراض ہونے کی کیا ضرورت ہے کہ کہہ رہے ہو کہ میں خاموش بیٹھوں، کیا دھابے جی کا پوچھنا کوئی جرم ہے۔
کنڈکٹر۔۔۔۔۔ کتنی مرتبہ پوچھو گی، جب دھابے جی آئے گا تو بتادونگا، اب نہیں پوچھنا
پہلا بزرگ مسافر کنڈکٹر سے۔۔۔۔۔ اگر پوچھ لیا تو تمارا کیا نقصان ہوگیا ۔
دوسرا نوجوان مسافر بزرگ مسافر سے۔۔۔۔۔۔چاچا ایک مرتبہ، دو مرتبہ کتنی مرتبہ پوچھیں گیں یہ بڑی بی، اور آپ کہہ رہے کہ نقصان کیا ہوا۔
تیسرا مسافر دوسرئےمسافر سے۔۔۔۔ تو آپکو کیا تکلیف ہوگی آپ سے تو نہیں پوچھا اور تھوڑی بات کرنے کی تمیز سیکھو اماں یا خالا کی جگہ بڑی بی کہہ رہے ہو۔
کنڈکٹر تیسرئے مسافر سے۔۔۔۔۔ تو پھر اماں کو جب کہہ دیا کہ بتادونگا تو بار بار پوچھنا ضروری ہے۔
عرش منیر۔۔۔۔۔ ارئے بھیا کنڈکٹر تم بھول مت جاو اسلیے بار بارتم کو یاد دلایا ہے کہ "دھابے جی آئے تو بتانا"۔
پہلی خاتون مسافر۔۔۔۔۔۔۔ اماں خدا کےلیے اب خاموش ہوجاوُ جب دھابے جی آئے گا تو کنڈکٹر بتادیگا۔
دوسری خاتون پہلی مسافر خاتون سے۔۔۔۔ ارئے بہن تم کو کیا مصیبت آگی اماں جی کے دھابے جی کے پوچھنے سے۔
ڈرائیور ۔۔۔۔۔۔ اُو بہنوں خدا کے واسطے خاموش ہوجاو، کیوں آپس میں لڑرہی ہو۔
اب پوری بس کی صورتحال یہ تھی کہ مردوں کے حصے میں تمام مردآپس میں لڑرہے تھے جن میں کنڈکٹر بھی شامل تھاجبکہ عورتوں کے حصے میں تمام عورتیں آپس میں لڑرہی تھیں ان میں بس کا ڈرائیور بھی شامل تھا، غرضیکہ پوری بس لڑرہی تھی عرش منیر کی حمایت اور مخالفت میں، سب چیخ وپکار کررہے تھے مگر اب عرش منیر خاموش تھیں۔ اس چیخ و پکار میں ڈرائیور نے دھیان ہی نہیں دیا اور بس دھابے جی سے کوئی ایک میل آگے چلی گی تو ڈرائیورکو ہوش آیا ، اُس نے کنڈکٹر کو اپنے پاس بلایا اور بتایا کہ دھابے جی تو پیچھے رہ گیا، یہ سنتے ہی کنڈکٹر نے ڈرائیورکوکہا کہ بس کو واپس لے ، ڈرائیورنے جلدی سے بس کو واپس لیا اور دھابے جی پر جاکر بس کو روک لیا۔ اب کنڈکٹر نے عرش منیر کو مخاطب کیا اور کہا کہ اماں اتروُ "دھابے جی آگیا"۔
عرش منیر۔۔۔۔۔ بھیا کنڈکٹر میں نے تم کو حیدرآباد کا کرایہ دیا ہے تو دھابے جی پر کیوں اتروں؟۔
کنڈکٹر بہت غصے میں۔۔۔۔۔ تو پھر بار بار کیوں پوچھ رہی تھیں کہ "دھابے جی آئے تو بتانا"۔
عرش منیر۔۔۔۔۔ بھیا کنڈکٹر آج صبح سے میری طبیت خراب تھی تو میں ڈاکٹر صاحب کے پاس گی تھی، اُنکو اپنی بیماری کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتادیا کہ میں حیدرآباد جارہی ہوں۔ ڈاکٹر صاحب نے دوا والی گولیاں دیں اور کہا کہ ایک ابھی کھالیں اور حیدرآباد جاتے ہوئے جب دھابے جی آئے تو دوسری گولی دھابے جی پر کھالیں، اسلیے ہی میں تم سے باربار پوچھ رہی تھی کہ"دھابے جی آئے تو بتانا"۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...