صبح کے دس بج رہے تھے۔ لینڈ لائن سے گھنٹی بجنے لگی۔ مہر نیند کے خوب مزے لے رہی تھی۔ بار بار کال آ نے پر غصے سے اُٹھی، بال کھلے، آ نکھیں ملتے ہوۓ لاؤنچ میں آ کر فون اُٹھاتی ہے۔
" احد غصے سے کہاں تھے تم لوگ کال کیوں نی آ ٹھا رہے تھے ۔"
مہر کیا مطلب تم کون ہو؟
تو آ پ کون بات کر رہی ہیں ؟
میں جو بھی ہوں اس گھر والوں کی خالہ فوت ہوگی ہے وہ سب اُدھر گئے ہیں دوبارہ کال نہ کرنا ۔
اوہ ہیلو آ پ کون ہیں اور کون فوت ہوگیا ہے۔
مہر جواب دیے بغیر کال ڈراپ کر دیتی ہے۔
احد 4 سال بعد آ سٹریلیا سے گھر واپس آ رہا تھا۔
وہ پہلے اپنے آ نے کی خبر گھر نہیں دیتا کہ ایئر پورٹ پہنچ کر سرپرائز دے گا کہ مجھے اب پک کر لیں۔
لیکن مہر نے تو الٹا سرپرائز اور پریشانی دے دی۔
احد جلدی سے ٹیکسی کروا کہ گھر پہنچنے کی کوشش کرتا ہے اور راستے میں پریشان ہوتا رہتا ہے کہ خدا جانے کون اور کب فوت ہوگیا اور گھر والے نمبر پر بھی کال نہیں اُٹھا رہے۔
آ خر کار گھر پہنچ ہی جاتا ہے۔ کیا دیکھتا ہے کہ گیٹ پر لاک نہیں شکر ادا کرتا ہے کہ اب ڈور بیل دیتا ہے تو وہی حال کوئی گیٹ نہیں کھولتا۔
مہر کو خوبصورت بننے کا بے حد شوق ہوتا ہے اور مالکوں کی غیر موجودگی میں وہ یہ کام خوب سر انجام دے رہی ہوتی ہے۔ بلیک فیس ماسک لگاۓ جوس بنا رہی ہوتی ہے اور ادھر "احد" بیل دے دے کر تھک جاتا ہے۔
کڑک گرمی پسینہ سے شرابور سڑک کنارے کھڑے درخت جیسے کوئی ساکن ہوگئے ہوں۔ ہوا کا کوئی نام نشان نہیں۔ دوپہر کے دو بج گئے تھے۔ پیاس سے گلہ بالکل خشک ہو چکا تھا۔ غصے سے ایک خالہ نہیں مری مجھے لگتا ہے سب ہی مر گۓ ہیں۔ ان لوگوں کو احساس نہیں کہ باہر کوئی کس حال میں کھڑا ہے۔
اب بیل دیتا ہے تو مہر سن لیتی ہے اس وقت کیسی آ فت آئی ہے۔
رکو ایک منٹ میں آئی۔ مہر مٹک کر آ تی ہے۔ "پرپل" دوپٹہ گلے میں لئے پرنٹڈ شرٹ اور وائٹ ٹراؤزر میں بہت کمال لگ رہی تھی۔ گیٹ کے قریب آکر جی کون؟
"میں جن ہوں دروازہ کھولو کیا بدتمیزی ہے؟ میں اس گھر کا لڑکا "احد" ہوں خدا کے لیے دروازہ کھولو"۔
سر پر ہاتھ رکھتے ہوۓ ارے یہ تو احد صاحب ہیں۔ اب کیا ہوگا میں نے تو کپڑے بھی "ثنا بی بی" کے پہنے ہیں۔
دروازہ کھولنا ہے یا میں توڑ دوں۔
جی جی چہرے پر ماسک تو لگا ہوتا ہے۔ جسامت اور قد کاٹھ بالکل ثنا کی طرح لگ رہا ہوتا ہے۔
گیٹ کھولتی ہے احد بیگ گیٹ سے اندر گھسیٹتے ہوۓ۔
مانا کہ بہت بدتمیز ہوگئی ہو، کہاں تھی صبح سے؟ اور کیوں تنگ کر رہی تھی۔ مہر سے سر پر پیار سے تھپڑ مارتے ہوۓ۔
اب مہر سمجھی یہ احد نہیں کوئی اور ہے ڈر سے چیخیں مارنا شروع کر دیتی ہے احد کو سمجھ آ جاتی ہے کہ یہ ثنا نہیں کوئی اور ہے۔
میں واقعی میں احد ہوں۔ تم خدا کے لیے چپ کرو اور اندر چلو امی وغیرہ کہاں ہیں تم کون ہو؟ادھر اکیلی کیا کر رہی ہو؟
اب مہر صورتحال سمجھ جاتی ہے اور چپ ہو جاتی ہے فورًا کالر منہ دھوتی ہے۔
تم نے بتایا نہیں امی وغیرہ کہاں ہیں؟
مہر ٹاول سےمنہ صاف کرتے ہوۓ آپکے گھر والے گجرات گئے ہیں۔
اور فوت کون ہوا؟
پچھلی جمعرات کو آپکی خالہ سکینہ انتقال کر گئیں۔
آج شام تک سب واپس آ جائیں گے۔
اوہ بہت افسوس ہوا۔ میں امی سے بات کرتا ہوں اور ہاں تم ادھر کیا کر رہی ہو؟
میں جانی کاکا کی بیٹی ہوں۔ بیگم صاحبہ نے کہا جتنے دن وہ اُُدھر رہیں گے میں یہاں ابا کے ساتھ رہوں گی۔ گھر کے کام اور نوکروں کا کھانا بناؤں گی ۔
احد مہر کی باتوں اور معصومیت سے اتنا لطف اندوز ہوتا ہے کہ ساری تھکاوٹ اور خالہ کی موت کا غم بھی ہلکا لگ رہا ہوتا ہے۔
احد کمرے میں جاتے ہوۓ فریش ہو جاؤں پھر اس پاگل لڑکی کا دماغ بھی ٹھکانے لگاتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے اس نے ثنا کا سوٹ پہنا ہوا ہے۔ کیونکہ ایک بار ویڈیو کال پر ثنا نے ایسا سوٹ پہنا ہوا تھا ۔احد تھوڑا تھوڑا غصہ اور ہلکی ہرنی بھی مہر کے لیے محسوس کر رہا تھا۔
مہر بھی شرمندہ ہو جاتی ہے کیونکہ ثنا سارہ کی چیزیں استعمال کرتے ہوۓ رنگے ہاتھوں جو پکڑی جاتی ہے۔
دوپٹّے کا پلو پکڑ کر انگلیوں کے گرد پریشانی دے لپیٹتے ہوۓ کہ کہیں احد صاحب بیگم صاحبہ کو نہ بتا دیں ۔اس لنگور نے بھی اب ٹپکنا تھا ہاۓ اللہٌ جی اب کیا ہوگا۔ پریشانی سے رنگ بالکل زرد پڑ رہا ہوتا ہے۔وہ سوچ ہی رہی ہوتی ہے کہ
احد کمرے سے نکل کر سنو مہر
مہر ڈر کر جی صاحب جی!
کھانا پلیز جلدی سے بناؤ۔
مہر کھانے میں چاۓ ،آ ملیٹ پراٹھا بنا کر ٹیبل پر رکھ دیتی ہے۔ پراٹھے کا لقمہ توڑ کر آ ملیٹ لگاتے ہوۓ احد بولا کتنا مزے کا کھانا بناتی ہو۔
مہر شرمندگی اور ڈر کے مارے دوپٹّے کے پلو سے ماتھے سے پسینہ صاف کرتے ہوۓ جی ماں بھی یہی کہتی ہیں۔
سفید رنگت ،موٹی آنکھیں ،چہرے سے پریشانی میں ٹپکتا ہوا پسینے سے اور بھی حسین لگ رہی تھی
اور اور مجھے صاحب نہیں احد کہنا ہے اور ہاں تم نے اپنا کیا نام بتایا تھا؟
مہر مہر صاحب جی بوکھلاتے ہوۓ شام ہونے کو ہوتی ہے۔
سب گھر والے آجاتے ہیں۔ ثنا مہر سے، احد کا روم کیوں کھلا ہے۔
وہ آ گئے ہیں بی بی جی۔
کیا واقعی؟ ماں سارہ بابا احد آ گیا۔ خوشی سے سب احد کے روم میں جا کر ملتے ہیں ۔
اگلی صبح شوکت صاحب جانی کاکا یہ پیسے اور سامان لیں اور مہر بچے کو گھر چھوڑ آئیں۔
اب مہر کو گھر میں احد کے ہی خیال آتے ہیں۔ پھر سوچتی ہے کیا پتہ بیگم صاحبہ کو میری حرکتیں نہ بتا دی ہوں۔ پریشانی کے ساتھ ساتھ تھوڑا خوش بھی ہوتی ہے ۔
ناشتے کی ٹیبل پہ سارہ تو ماما اس بار احد بھائی کی شادی کروا کر ہی بھیجنا ہے آ پ نے۔
ماں احد کی طرف دیکھتے ہوۓ تو پھر کیا خیال ہے؟
اس بار احد کے شادی کے نام پر کوئی غصے والے اثرات نہ تھے مسکراتے ہوۓ جیسے بہتر لگے۔
سب خوش ہوجاتے ہیں کہ چلو آ خر کار شادی کے لیے مان تو گیا ۔
کچھ دنوں بعد جانی کاکا بھائی کے کہنے پر مہر کا رشتہ اپنے بھتیجے سے طۓ کر دیتا ہے۔
حامد ایک سکول میں گیٹ کیپر ہوتا ہے گھرانہ بہت غریب ہوتا ہے۔ مہر رشتے کا سنتے ہی ماں میرا گزارہ نہیں ہو سکتا۔ ایک بار زندگی ملی ہے۔ میں اسے اچھے سے گزارنا چاہتی ہوں۔
تو گزار لینا نا شادی کے بعد۔
ماں آپ کو میری باتیں سمجھ بھی نہیں آ نی۔ میں حامد سے نہیں بلکہ کسی امیر بندے سے شادی کروں گی ۔
میرے بچے امیر ہم سے رشتہ کیوں کریں گے۔ ہم ان کے نوکر ہیں امیروں کا کام کرکے دو وقت کی روٹی کھاتے ہیں ۔
ماں میں آ پ کے طرح ساری زندگی دوسروں کے گھروں میں جھاڑو پوچے نہیں مار سکتی۔
اب میرا انٹر کا رزلٹ آ نے والا ہے آپ کو یقین سے کہتی ہوں۔ اچھی پوزیشن لوں گی۔ ماں ابھی رشتہ طے نہ کریں۔
تو سمجھتی کیوں نہیں ہے میری بات۔
میں تمہاری باتیں سنتی ہوں کافی ہیں۔
ادھر شوکت صاحب بیوی سے باتیں کرتے ہوۓ آ ج جانی کاکا چھٹی پر ہے کیوں وہ ان کی بیٹی کی منگنی ہے۔
احد چونکتے ہوۓ بابا کس بیٹی کی؟
اتنے میں ماں بولی مہر کی بیٹا اور مہر ان کی اکلوتی بیٹی ہے۔
سنتے ہی احد کے چہرے کا رنگ اڑ گیا پیشانی میں آٹھ کر باہر نکل جاتا ہے ۔
ثنا جی بابا بھائی کو کال ملاؤ۔ جانی کاکا نے بہت پیار سے رسم پر بلایا ہے تو احد چلا جاۓ اور ہاں راستے سے مٹھائی وغیرہ بھی لیتا جاۓ وہ لوگ خوش ہو جائیں گے۔
جی بابا کہتی ہوں ثنا کال کرتی رہتی ہے پر وہ نہیں اُٹھاتا۔
اصل میں وہ خود بھی جانی کاکا کے گھر ہی جا رہا ہوتا ہے ۔
جانی کاکا دیکھتے ہی صاحب آ پ اتنا جلدی آ گئے شرکت کے لیے۔ آپکو دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ دونوں میاں بیوی کو خوشی سے بیٹھانے کی جگہ نہیں مل رہی ہوتی۔
مہر مہر ماں آواز لگاتی ہے چاۓ لاؤ احد صاحب آ ۓ ہیں۔
وہ بھاگ کر آ تی ہے اور احد کی نظریں بھی اس طرف ٹک جاتیں ہیں جس طرف ماں دیکھ کر آواز لگا رہی ہوتی ہے۔
سامنے آکے ہی دونوں کی نظریں ملتی ہیں ۔
مہر حیرانی اور احد بے بسی کی نگاہ سے تکتا ہے۔ اتنے میں جانی کاکا بولے بیٹا بیٹھو رسم کو تھوڑی دیر ہے۔ میں کچھ کام دیکھ لوں۔ صغراں مائی مہر چاۓ لاؤ صاحب کے لیے۔ میں تار سے کپڑے اتار کر لپیٹ لوں ۔
ان دونوں کے جانے کے بعد احد مہر مجھے چاۓ نہیں پینی۔
تم میری بات سُنو۔
وہ گھبراۓ ہوۓ دو قدم آ گے سرکاتے ہوۓ آ ہستہ سے بولی جی صاحب جی بولیں۔
تم اس رشتے سے خوش ہو؟
وہ چپ مہر میری طرف دیکھ کر میری بات کا جواب دو کیا تمُ خوش ہو؟
اب جھکیُ ہوئیں نظریں تھوڑا اوپر کو اٹھیں کیوں صاحب جی؟
تمہیں کتنی بار کہا ہے میرا نام بلایا کرو جی آ پ بولیں اگر تم خوش نہیں ہو تو کیا مجھ سے شادی کرو گی؟
یہ سنتے ہی مہر کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا لیکن روح میں خوشی کی لہر دوڑ گئ جلدی بتاؤ ہاں یا نہ مہر بغیر سوچے بے ساختہ بولی ہاں ہاں ہے۔
احد بس پھر اب سے تم میری امانت ہو اپنے اور تمھارے گھر والوں سے میں خود بات کروں گا ۔یہ کہتے ہوۓ گھر نکل جاتا ہے۔
گھر جاکر ساری صورتحال بیان کرتا ہے پہلے تو کوئی نہیں مانتا کیونکہ احد ساری جائیداد کا اکلوتا وارث ہوتا ہے اور دوسرا وہ پسند بھی کام والی کو کر لیتا ہے۔
سارا فیصلہ افرا تفری میں لگ رہا ہوتا ہے پر احد تو پہلے دن سی مہر کو ہی اپنی شریک حیات بنانے کی سوچ لیتا ہے ۔
بڑی مشکل سے ماں باپ گھر والوں کو مناتا ہے ادھر جانی کاکا سے بھی پوری ذمہ داری سے رشتہ کرنے کی بات کرتا جاتا ہے۔ جانی کاکا اپنے بھائی سے سوچنے کا وقت مانگ لیتا ہے۔ پوری بیادری بھی ناراض ہو جاتی ہے۔
مہر پر طرح طرح کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔
کچھ دنوں کی کوششوں کے بعد احد کے گھر والے مان جاتے ہیں اور بہت دھوم دھام سے دونوں کی شادی کروا دیتے ہیں ۔
مہر کا ایف ایس سی کا رزلٹ بہت اچھا آ تا ہے میرٹ بننے پر میڈیکل میں داخلہ مل جاتا ہے۔
احد واپس آسٹریلیا جاتا ہے۔ ڈگری مکمل کر کے واپس آ تا ہے ۔
کچھ سال میں مہر ڈاکٹر بن جاتی ہے۔ اب دونوں ساتھ لندن چلے جاتے ہیں اتنا بڑا سٹیٹس گیپ کے باوجود دونوں بہت پرسکون اور خوشگوار زندگی گزارتے ہیں ۔
مہر کو زندگی کے ہر موڑ ہر خوشی میں اپنے دوستوں خاندان والوں کی باتیں یاد آتیں کہ جب سب کہتے تھے کہ انسان کو اوقات دیکھ کر خواب دیکھنا چاہیے اور مجھے یقین ہوتا تھا کہ خواب دیکھنا بھی ہے اور سچا بھی ہوگا یقین اور ایمان کی قوت نے ساتھ دیا جس سے خواب سچ ہو گیا۔