“جو بھی گاڑی آپ سے تیز چلا رہا ہے، وہ پاگل ہے اور جو آپ سے آہستہ چلا رہا ہے، وہ بے وقوف”۔
ہم اپنے سے مختلف زیادہ تر لوگوں کو پاگل یا بے وقوف کیوں سمجھتے ہیں؟ اس کے لئے جو سائنسی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، وہ سادہ لوح حقیقت پسندی ہے۔ ماہرِ نفسیات لی روس نے اس اصطلاح کو استعمال کیا۔ یہ وہ بڑی غلطی ہے جو لوگوں کے درمیان ناقابلِ حل تنازعوں کی وجہ ہے۔
تین ڈرائیوروں کا تصور کریں۔ فیقا گاڑی کو تیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلا رہا ہے، طیفا پچاس میل فی گھنٹہ سے اور ماجھا ستر میل فی گھنٹہ کی رفتار سے۔ ماجھا اور فیقا اس بات پر متفق ہیں کہ طیفے کو ڈرائیونگ نہیں آتی۔ لیکن اگر آپس وہ اس بات پر بحث کریں کہ طیفا پاگل ہے یا بے وقوف تو اس پر ان کی لڑائی ہو سکتے ہیں۔ دوسرے طرف طیفا ان دونوں سے اختلاف رکھتا ہے کیونکہ اس کے لئے یہ واضح ہے کہ فیقا بے وقوف ہے (ماجھا اس سے متفق ہے) اور ماجھا پاگل (فیقا اس سے متفق ہے)۔ جس طرح عام زندگی میں ہوتا ہے، فیقا، طیفا اور ماجھا اس چیز کو سمجھ ہی نہیں سکتے کہ ان کی رائے دراصل ان کے اپنے بارے میں عکاسی کر رہی ہے نا کہ دوسرے شخص کے بارے میں۔
سادہ لوح حقیقت پسندی بدقسمتی سے ہمارے دماغ کے کام کرنے کی ایک اڈاپٹیشن کا سائیڈ ایفیکٹ ہے۔ ہمارا دنیا کو سمجھنے کا یہ زبردست سسٹم ان گنت کیلکولیشنز ہر وقت کر رہا ہوتا ہے۔ اس قدر تیزی سے کہ ہم زندگی کو جاننے کے تجربے کے پس منظر میں چلتی ان سپیشل ایفیکٹ کی ٹیموں کو نہیں جانتے جو ہمارے لئے “حقیقت” تشکیل دیتی ہیں۔جو ہمارے سامنے ہے، ہم اس سے بہت زیادہ “دیکھ” لیتے ہیں۔ اس کے لئے ہم دماغ کا شکریہ ادا کر سکتے ہیں کیونکہ وہ موصول ہونے والے سگنلز میں ہماری توقعات اور خواہشات کی ملاوٹ کر کے صاف تصویر بنا کر پیش کرتا ہے۔
اگر ہم ایک سائکل دیکھیں جس کا آدھا حصہ ایک دیوار کے پیچھے چھپا ہے تو ہم فوری طور پر نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ سائیکل پوری ہے۔ ہم یہ شک نہیں کرتے کہ کہیں صرف یہ آدھی سائیکل ہی نہ ہو جو کہ نظر آ رہی ہے۔ دماغ کے اس تصویر بنانے کا تعلق خود ہم سے خفیہ ہوتا ہے۔ ہم اس ادراک کو حقیقت سمجھتے ہیں، ایسی غلطی جس کو کرنا ہمارے لئے بہت مفید ہےَ۔
جب ہم فزیکل دنیا کو دیکھیں تو ہمارا یہی طریقہ ہے۔ درخت، جوتے یا چاکلیٹ کو دیکھ کر ہم اس پر اتفاق کر سکتے ہیں کہ چڑھنا کس پر ہے، پہننا کس کو ہے اور کھانا کس کو ہے۔ لیکن جب ہم لوگوں کو اور ان سے ہونے والی انٹر ایکشن کو سمجھنے کے لئے سوشل ڈومین میں آتے ہیں تو ہمارا “دیکھنا” باہر سے زیادہ ہماری اپنی توقعات اور خواہشات سے تشکیل پاتا ہے۔ جس طرح ہم بے خبر ہیں کہ ہمارا دماغ سامنے نظر آنے والی چیز سے کہیں زیادہ دکھا رہا ہے، ویسے ہی ہم اس سے بے خبر ہیں کہ سوشل معاملات میں بھی ایسا ہی ہے۔ دوسرے کے بارے یا اس کی کہی بات کے بارے میں رائے قائم کرنے میں بہت سی معلومات ہم وہ شامل کرتے ہیں جو اس میں موجود ہی نہیں ہوتی۔ کسی کی نیت، کسی کے کردار اور کسی کی سچائی کے بارے میں قائم کردہ رائے میں بہت سے ملاوٹ ہماری اپنی ہوتی ہے اور خود ہماری عکاس ہوتی ہے۔ ہم ان چیزوں کو بھی اتنے اعتماد سے ہی دیکھتے ہیں جس قدر اعتماد سے ہم درختوں، جوتوں اور چاکلیٹ کو۔ ہمیں یقین ہوتا ہے کہ حقیقت وہ ہے جو کہ ہم سمجھ رہے ہیں۔
یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ ایسا تعصب نہیں جو کہ صرف نشاندہی سے ٹھیک ہو سکے۔ مجھے جب ایک چیز “دکھائی” دے رہی ہے اور آپ اسی چیز کو کسی اور طرح سے دیکھ رہے ہیں تو پھر ہم میں سے ایک کا حقیقت کو پہچاننے کا آلہ ٹوٹا ہوا ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ میرا نہیں۔ اگر آپ وہ نہیں دیکھ پا رہے جو مجھے نظر آ رہا ہے، یا پھر آپ دیکھ رہے ہیں لیکن مان نہیں رہے تو پھر آپ بے وقوف، پاگل، متعصب، جاہل یا دھوکا باز ہوئے۔
اپنے دماغ کو کام کرنے کے اس طریقے کو پہچانے بغیر ہم صرف سادہ لوح حقیقت پسند بن سکتے ہیں۔ ہم پیچیدہ معاشرتی معلومات کو ایک دوسرے سے مختلف طریقے سے دیکھتے ہیں اور ایک دوسرے کو الزام دیتے ہیں کہ وہ واضح سچ کو نہیں پہچان سکتا۔ لوگوں کے مختلف گروہوں کے درمیان اختلافات ہوتے ہیں جو ان کو الگ کرتے ہیں۔ لیکن سادہ لوح حقیقت پسندی ان میں سے تنازعات کی سب سے بڑی اور دیرپا وجہ ہے۔ دائیں اور بائیں بازو کے سیاستدان ہوں، دشمن ممالک، اقتصادی معاملات پر ایک دوسرے سے الجھنے والے ۔۔۔ ہر کیس میں حقیقت کی اس معجزاتی تعمیر سے بے خبری ہمیں حقیقت کی اس معجزاتی تعمیر کو پہنچاننے سے روک رہی ہے۔ یہ ہماری دنیا کی ایک بڑی حقیقت ہے۔
یہ اس کتاب سے
Social: Why Our Brains are Wired to Connect by Matthew D. Lieberman