سچ کیا ہے؟
انسان کے اندر کی دنیا ہمیشہ ابدی اور لازوال ہوتی ہے۔اس دلکش اورخوبصورت کائنات میں سمندر بنتے ہیں اور پھر ختم بھی ہوجاتے ہیں ، ایسا بھی ہوتا ہے کہ صحرا سمندر بن جاتے ہیں اور سمندر صحرا میں بدل جاتا ہے۔سمندر کی لہریں آتی ہیں پھر چلی جاتی ہیں،لیکن انسان کے اندر کی دنیا ہمیشہ ابدی ،زندہ اور لازوال رہتی ہے ۔انسان کے اندر سچ ہی سچ ہے اور یہ ایسا سچ جو زمان و مکان کی قید سے ماورا ہے ۔انسان گہرے سمندر سے بھی زیادہ گہرا اور وسیع ہے ۔اس کے اندر بہت گہرائی ہے ،یہ انسان عجیب و غریب اور تخلیقی رازوں سے بھرپور ہے ۔انسان کی روحانی دنیا گہرے سمندر کے پانی کی مانند ہے ۔انسان اور انسانیت نے زندگی کو انجوائے کرنا ہے تو اسے روحانی انقلابی آئیڈیاز کو بھی اہمیت دینی ہوگی ۔صرف مادہ پرستی کے گھوڑے پر سوار ہو کر انسان زندگی کو انجوائے نہیں کرسکتا اور نہ ہی وہ حقیقی تخلیقی سچ سے متعارف ہوسکتا ہے ۔جن نظریات ،خیالات اور ایجادات کے سہارے انسان زندگی کو آگے بڑھا رہا ہے،اس کی وجہ سے مسائل اور مصائب ہیں اور خوشیاں ناپید ہوتی جارہی ہیں ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جدید و قدیم نظریات انسان کے اندر نفرت ،تعصب پھیلا رہے ہیں،اس لئے یہ حقیقی نظریات یا خیالات نہیں ہیں ۔بنیادی طور پر روحانی نظریہ وہ آرٹ ہے جو انسان کویہ سکھاتا ہے کہ زندگی کو کیسے انجوائے کیا جائے ،زندگی کو کیسے تخلیقی خوبصورتی دی جائے ۔زندگی صرف یہ نہیں کہ اسے عابدانہ اور زاہدانہ انداز سے گزار دیا جائے ۔زندگی صرف عبادت گزاری کا نام نہیں ہے اور نہ ہی عبادت کسی سچائی اور سچ کا نام ہے ۔جس طرح سورج کی روشنی پھول کو یہ حوصلہ دیتی ہے کہ وہ بھرپوراور تخلیقی انداز میں کھلے اور اپنی خوبصورتی کو انجوائے کرے ،بلکل ایسے ہی تخلیقی روحانی آرٹ انسان کو یہی سکھاتا ہے کہ وہ زندگی کو انجوائے کرے ، خوشی اور مسکراہٹ پھیلائے اور محبت کے رنگ میں رنگ جائے ۔ہر انسان کو اپنا اپنا سچ کرنے کا بنیادی انسانی حق حاصل ہے ، سچ وہی ہے جوانسان کے اندر کی کائنات سے ابھر کر سامنے آئے ۔ہر انسان بصیرت ،آگہی اور شعور سے مزین ہے،دنیاوی و الہامی نظریات نے انسان کو بصیرت اور آگہی سے محروم کردیا ہے ۔وہ نظریہ کیوں اس قدر اہمیت کا حامل ہوسکتا ہے جو انسان کے حقیقی جذبات کا دشمن ہے ،جو جذبات کو دبانے کا کام کرتا ہے ۔ایسے نظریئے کا کیا کرنا جس کا کام صرف یہ ہے کہ انسان اپنے اوپر خوشی کو حرام کردیتا ہے ۔جو انسان کو خوشی کے تجربات سے روکتا ہے ،اس کا نتیجہ پھر یہ ہوگا کہ پورا کلچر ہی نظریئے کے ہاتھوں زہنی مریض بن جائے گا ۔زندگی صرف حلال و حرام اور جائز و ناجائز جیسے نظریات کا کھیل نہیں ہے ۔زندگی مسکرانے کا بھی نام ہے ،چیخنے چلانے اور رقص کرنے کا بھی نام ہے ۔زندگی خوشیوں کو اور غموں کو انجوائے کرنے کا بھی نام ہے ۔زندگی احساس کا بھی نام ہے ۔زندگی میں جو ہوتا ہے وہ ہونے دو ،مزاحمت مت کرو اور نہ ہی اپنے اوپر پابندیاں عائد کرو ۔زندگی صرف شرائط اور اخلاقیات نہیں ہے ۔زندگی محبت ہے ۔زندگی صرف فرمابرداری نہیں ،یہ بغاوت اور انقلاب بھی ہے ۔ہر انسان کا سچ اس کی اندر کی کائنات میں پوشیدہ ہے ،ہر کسی کا حق ہے کہ وہ اس سچ کا متلاشی ہو ۔زندگی ماضی اور مستقبل نہیں ،زندگی تو حال ہے،زندگی یہاں ہے ،زندگی تو یہ لمحہ ہے ۔زندگی کے ہر لمحے کو اس کے فطری انداز میں مرنے دو کیونکہ نیا لمحہ اسی طرح میسر ہوگا ۔زندگی صرف شادی کے تعلق اور بچے پیدا کرنے کا نام نہیں ،زندگی کی اصلی کیفیت یا حالت محبت ہے ۔سچ کو تلاش کرنے سے پہلے اوپر لکھی گئی باتیں کرنا ضروری تھی ۔آیئے اب سچ کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں،انسان ہمیشہ اس بارے میں سوچتا آرہا ہے کہ سچ کیا ہے؟یہ وہ سب سے اہم سوال ہے جو دنیا کے ہر انسان کے دماغ میں ابھرتا ہے ۔لیکن آج تک کوئی بھی اس کا حتمی جواب نہیں دے سکا ۔سچ وہ سوال ہے جس کا کوئی جواب نہیں ہے ۔کسی بھی آخری ،یا حتمی سوال کا کوئی جواب نہیں ہوتا ۔ایسا سوال اسی وجہ سے حتمی یا آخری سوال کہلاتا ہے ۔سچ کیا ہے؟یہ سوال بنیادی طور پر بہت اہمیت رکھتا ہے ۔اس سے بڑا اور کوئی سوال نہیں ۔کیونکہ سچ سے بڑھ کر کچھ نہیں ۔سچ خیالات اور نطریات سے بڑا ہوتا ہے ۔سچ کیا ہے؟جب انسان اس سوال کی گہرائی میں جائے گا تو پھر ایسا لمحہ آئے گا جب انسان کے دماغ سے یہ سوال غائب ہو جائے گا اور پھر انسان کو جواب مل جائے گا ۔سچ کیا ہے ؟اس کا جواب انسان کے دل کی گہرائی سے نکلتا ہے ۔جب اس کے اندر کی دنیا سے جواب آتا ہے ،میاں سچ تم ہو ۔لیکن انسان جب اپنے اندر کی وسیع و عریض کائنات کو ہی بھول جائے تو پھر کیسے وہ سچ اور سچائی تک پہنچ سکتا ہے ۔ہم انسان راستہ کھو چکے ہیں ،جب راستہ کھو جائے تو پھر سب کچھ ختم ہوجاتا ہے ،پھر انسان صرف اپنے اپنے نظریئے پر چلتا ہے ،دوسرے سے نفرت کرتا ہے ،اپنے آپ کو اعلی اور دوسرے کو کمی کمین سمجھتا ہے ۔سچ انسان کے اندر کی دنیا میں بھٹک رہا ہے ،لیکن انسان مرتے دم تک اسے باہر نہیں آنے دیتا ۔ایک بات یاد رکھیں کہ سچ یا سچائی کوئی مفروضہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی حقیقت ہے ۔سچ سنی ،وہابی،بریلوی بھی نہیں ہے ۔سچ یا مسلمان ،ہندو یا عیسائی بھی نہیں ہے ۔سچ پر کسی ایک نظریئے کی ملکیت نہیں ہو سکتی ۔لیکن ہر نظریئے نے سچ کو ملکیت کا روپ دے رکھا ہے ۔اور اہم بات یہ کہ سچ یا سچائی کی تشریح ہوتی ہے ،اس کے بعد حقیقت سامنے آتی ہے،لیکن بدقسمتی سے سچ ظاہر نہیں ہوتا اور نہ ہی سامنے آتا ہے ۔سچ صرف جنت ،دوزخ ،قبر کا عذاب اور حوریں نہیں ۔۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سچ کوئی اصول نہیں ہو سکتا ۔جس لمحے انسان کو سچ کیا ہے؟ کا جواب ملتا ہے ،یہ حقیقت ہے ،لیکن یہ حقیقت بھی سچ نہیں ۔کیونکہ اس حقیقت میں تشریح ہی تشریح ہے ۔اس سچ میں دماغ نے جو کہا وہ حقیقت بن گئی ،دنیا میں جتنے انسان ہیں ،اتنی ہی حقیقتیں ہیں اور اتنے ہی ان کے سچ ہیں ۔لیکن یہ بھی تو کہا جاتا ہے کہ سچ صرف ایک ہے ،سچ نامعلوم سے ،معلوم صورت میں اس وقت ظاہر ہوتا ہے جب دماغ کا عمل دخل ختم ہوجاتا ہے ۔اگر صرف انسان اپنے دماغ کے زریعے کسی نظریئے کے ساتھ ملکر سچ تلاش کرے گا تو پھر دماغ سچ کی ایک تصویر یا ایک فوٹو گراف دے گا ۔لیکن کیا وہ فوٹو گراف سچ ہو سکتا ہے؟اس فوٹو گراف کا انحصار تو اس دماغ اور نظریئے پر ہے ۔لفظ سچ کی حقیقت خوبصورت ہوتی ہے ،لیکن سچ یا سچائی کوئی مادی چیز نہیں ہے ۔سچ تشریح اور تعریف و توضیح سے ماورا ہوتا ہے ۔میری ناقص رائے میں سچ کی کسی بھی صورت میں تعریف نہیں کی جاسکتی ۔ایک اور طرح سے سچ کی ایک جھلک یا کیفیت کو محسوس کرتے ہیں اور اس سچ کو انجوائے کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں ۔میں کہتا ہوں ،سچ محبت ہے ۔جب انسان کو کسی خاتون سے محبت ہوگئی تو پھر یہ سچ ہے ۔انسان ناواقف ہوتا ہے ،ایک دم کسی خاتون کو دیکھتا ہے ،اس کی آنکھوں میں محو ہوجاتا ہے ،اس کی خوبصورتی اور دلکشی میں فنا ہوجاتا ہے ۔وہ اپنا اختیار کھو بیٹھتا ہے ۔اس کی انا بھی غائب ہوجاتی ہے ،اسے محبت ہوجاتی ہے ،لیکن وہ اس کیفیت سے ناواقف ہوتا ہے ۔اس کیفیت کی تشریح سے بھی ناواقف ہوتا ہے ۔دماغ کا بھی اس محبت میں کوئی رول نہیں ہوتا ۔اسی لمحے کو سچ کہتے ہیں اور یہی سچ ہے ۔میری نگاہ میں ہر انسان کے ساتھ اس طرح کا عمل زندگی میں کبھی نہ کبھی ضرور ہوتا ہے۔یہ وہ لمحہ ہے جو زمان و مکان اور تشریح و دماغ سے ماورا ہے اور یہی لمحہ سچ ہے جس کا تعلق انسان کے اندر کی کائنات سے ہے ۔اس لمحے کے بعد دماغ کا کام شروع ہوجاتا ہے ۔وہ انسان پھر اس خاتون کو اپنی ملکیت بنانے کا سوچتا ہے ۔وہ سوچتا ہے اس خوبصورت خاتون سے وہ شادی کرے گا ۔اسے اپنی گرل فرینڈ بنائے گا ۔ ۔اب اس میں مادیت آجاتی ہے ،روحانی تخلیقی لمحہ چلاجاتا ہے۔اب وہ محبت تعلق ،رشتہ یا کچھ اور بن جاتی ہے ۔اب سچ نہیں رہتا ۔اب خوبصورتی گئی ،خوشی گئی ،انجان کیفیت گئی ،روحانیت گئی ۔ہنی مون کا لمحہ گیا ۔جب سچ حقیقت بن جائے اور محبت تعلق تو پھر سچ سچ نہیں رہتا ۔سچ ہمیشہ لمحاتی ہوتا ہے ۔الہامی ہوتا ہے اور ابدی ہوتا ہے ۔انسان سچ کے قریب ترین صرف اس وقت ہوتا ہے جب وہ محبت کرتا ہے ۔سچ بطور ایک سوال بہت اہم ہے لیکن اس کا جواب ممکن نہیں ۔جب بھی انسان کے اندر سے یہ سوال نمودار ہو کہ سچ کیا ہے؟ اس سچ کی خواہش کے سوال کو انسان کو ایک طرف پھینک نہیں دینا چاہیئے ۔پھر انسان اس سوال کے اندر گھس جائے ،پھر اپنی آنکھیں بند کرے۔سوال میں ڈوب جائے ۔اپنے آپ کو اس سوال پر مکمل طور پر فوکس کر لے ۔آنکھیں بند ہوں گی اور انسان جب خود سے یعنی دماغ سے جواب نہیں دے گا تو پھر سچ کی تلاش کا عمل شروع ہو جائے گا ۔اس عمل کے دوران دماغ جواب دیتا رہے گا ۔لیکن دماغ کو انسان یہی جواب دے کہ وہ سچ نہیں جانتا ۔دماغ کو شٹ اپ کال دیتے رہو ۔اگر انسان جواب جانتا تو پھر سوال کیوں کیا؟دماغ بہت بہکائے گا ،لیکن دماغ کو کہو خاموش رہو ۔دماغ دنیا کے تمام خیالات و نظریات کے سچ سامنے لائے گا ۔وہ پرانی یاداشتوں کو سامنے لائے گا ۔ ۔وہ انسان کو ہر قسم کا کھلونا دے گا ۔لیکن دماغ کی ایک نہیں ماننی ۔دماغ کہے گا دہریت سچ ہے ،سیکولرزم سچ ہے ،کمیونزم سچ ہے ۔لیکن دماغ کی نہیں سننی ۔دماغ کو سچ کے سوال کو کبھی قتل مت کرنے دو ۔کیونکہ دماغ دھوکہ دیتا ہے جب انسان سچ تلاش کرتا ہے ۔آنکھیں بند ہیں ،جلدی کرنے کی ضرورت نہیں کبھی بھی اس عمل کے دوران یہ تیزی مت دیکھاؤ کہ بس اب جواب مل جائے ۔ایک لمحہ ایسا آئے گا جب دماغ تھک ہار جائے گا اور اس کا کام بند ہوجائے گا ۔وہ اپنے ہتھیار پھینک دے گا ۔جب دماغ سچ کی تلاش کے دوران غائب ہو جائے اور انسان کو پتہ بھی نہ چلے تو پھر انسان کی اندر کی کائنات سے سچ نکل کر اس کے سامنے کھڑا ہو جائے گا اور کہہ گا سچ حاضر ہے۔ہم انسان خاموشی سے سچ کو جان سکتے ہین ۔سچ بے خیالی اور بے فکری کی کیفیت کا نام ہے ۔سچ کے حوالے سے کچھ اور چیزیں بھی بہت اہم ہیں ۔سچ نہ قدیمی ہوتا ہے اور نہ ہی نیا ہوتا ہے ۔یہ ابدی ہوتا ہے ۔ابدی کا مطلب ہمیشگی نہیں ۔مطلب سچ ہمیشہ نہیں رہتا ۔کیونکہ جو ہمیشہ رہے اسے ریفرنس کی ضرورت ہوتی ہے۔سچ کا کوئی حوالہ نہیں ہوتا ۔ابدی کا مطلب مستقل نہیں ہوتا ۔ابدی یا لازوال کا مطلب ہوتا ہے جس پر وقت کا یا زمانے کا کوئی اثر و رسوخ نہ ہو ۔جو وقت کی قید سے ماورا ہو ۔اور سچ کبھی ماضی یا مستقبل بھی نہیں ہے ،سچ صرف حال اور اب کی کیفیت میں ہوتا ہے ۔سچ کا ایک ہی وقت ہے اور وہ ہے اب ۔کسی بھی سچ یا سچائی کی تاریخ نہیں ہوتی ۔یاد رکھیں تاریخ ہمیشہ خیالات و نظریات کی ہوتی ہے ۔سیاست کی ہوتی ہے۔نظریات کی ہوتی ہے۔اگر سچ نیا ہے تو پھر ایک دن وہ پرانا ہوگا ۔جو نیا ہے وہ پرانا بھی ہوگا ۔اس لئے سچ کبھی پرانا یا نیا نہیں ہوتا ۔سچ کو ماضی یا مستقبل میں تلاش نہیں کیا جانا چاہیئے ۔پرانے اور نئے سچ کے گورکھ دھندے میں بھی نہیں پڑنا چاہیئے ۔یاد رکھیں مستقبل اور ماضی دونوں سچ کو نہیں جانتے ۔ان دونوں کا کوئی وجود ہی نہیں ،تو پھر سچ کا زریعہ کیوں ان کو بنایا جائے ۔مستقبل اور ماضی مصائب اور مسائل کا نام ہیں ۔یہ سچ نہیں ہیں ۔اس لئے میرا مشورہ ہے کہ ماضی کی یادوں اور مستقبل کی پروجیکشن سے بھاگ جاؤ۔یہ سب نظریات ماضی ہیں ۔اور یہ تصورات اور لاجک مستقبل ہیں ۔کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔نہ ماضی میں اور نہ مستقبل میں ۔اسی حال کے لمحات کو انجوائے کرو ۔انہی کے ساتھ سچ ہے جو مسکراتا بھی ہے، جو روتا بھی ہے اور جو یہ بھی بتاتا ہے کہ زندگی کیسے انجوائے کی جائے ۔انہی لمحوں کی خوبصورتی کا نام سچ ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔