سچ کی تلاش،مگر کیسے؟ ۔۔۔۔۔
سائیں بابا نے ارشد علی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کو پیدا ہوتے ہی یقین کا قیدی بنادیا جاتا ہے ۔والدین،معاشرہ اور معاشرے کے مذہبی و غیر مذہبی عقائد ونظریات انسان کا ایک خاص قسم کا یقین تعمیر کردیتے ہیں اور وہ عمر بھر اس یقین کو سچ سمجھتا رہتا ہے ۔وہ یقین سچ ہو یا نہ ہو ،لیکن وہ سچ بن جاتا ہے اور یہی آج کے انسان کا سب سے بڑا المیہ ہے ۔صدیوں سے یہی چلا آرہا ہے کہ انسان کی زہن سازی جارہی ہے ، ہر معاشرہ ایک خاص قسم کے زہن پیدا کرتا چلاجارہا ہے ۔یقین کر لینے سے کوئی مذہبی یا غیر مذیبی عقیدہ سچ نہیں بن جاتا ۔انسان ساری زندگی یہی کہتا رہتا ہے کہ یہ عقیدہ جس پر اسے اعتماد و یقین ہے ،یہی سچ ہے اور باقی سب فراڈ ۔صرف یقین سچ کو پیدا نہیں کرتا ۔سچ تو وہ ہوتا ہے جس پر کوئی انسان یقین کرے یا نہ کرے ،سچ کو کسی قسم کے دلاسے یا سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی ،یقین کرنے یا نہ کرنے سے سچ کو کوئی فرق بھی نہیں پڑتا ۔سچ سچ ہے ،انسان یقین کرے یا نہ کرے ۔سائیں بابا نے کہا ارشد بھائی ،سچ کو تلاش کرنا یا تو بہت تکلیف دہ عمل ہے یا بہت ہی آسان سرگرمی ہے ۔سچ تلاش کرنا ہے تو سب سے پہلے ضروری یہ ہے کہ جس طرح کی زہن سازی کی گئی ہے ،پہلے اس سے نجات حاصل کی جائے ۔سچ کے لئے شفاف دل چاہیئے ،سچ کے لئے اصلی اور حقیقی معصومیت چاہیئے ۔اس کے لئے انسان کو دوبارہ پیدا ہونا ہوگا ۔دنیا میں آج تک صرف چند انسان ہی سچ تک رسائی حاصل کر پائے ہیں ۔سچ کو تلاش کرنا ایک خطرناک اور رسکی عمل ہے ۔یہ انسان کے لئے بہت مشکل کام ہے کہ جس یقین پر وہ صدیوں سے عمل پیرا رہا ہے ،پہلے تو اسے نکال کر پھیکنا ہوگا ۔زندگی کو دوبارہ نئے انداز میں مرتب کرنا ہوگا ۔اور یہ خطرناک ہے کیونکہ اس طرح سے دوسرے انسان اس کے دشمن بھی بن سکتے ہیں ۔سچ کی تلاش یا انکوائری کی سرگرمی آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے ۔سچ کی انکوائری شروع ہوتے ہی تمام افسانوی خیالات و نظریات بھسم ہو جائیں گے ۔تمام وہ خواب جو یقین کی صورت میں انسان نے دیکھ رکھے تھے یا اسے دیکھائے گئے تھے وہ تمام ایک جھٹکے سے مر جائیں گے ۔یقین سچ نہیں ہے ،اور نہ ہی سچ ہو سکتا ہے ۔یقین صرف سراب ہے ،یقین صرف سچ کا دکھاوا کرتا ہے ۔یقین سچ کو مصنوعی پھول کی طرح انسان کے سامنے پیش کرتا ہے ۔سچ کی تلاش یا انکوائری کی ابتدا صرف اس وقت ممکن ہے جب تمام عقائد ،خیالات و نظریات گرا دیئے جائیں ۔انسان کو خود ہی سچ کا پیچھا کرنا ہوگا ۔اس کے لئے کسی نظریئے کے یقین کی کسی صورت ضرورت نہیں ۔جب انسان یہ کہے گا کہ وہ ہندو ،یہودی ،عیسائی نہیں ہے ،جب انسان کہے گا کہ وہ لیفٹسٹ یا رائیٹسٹ نہیں ہے ،ملحد یا غیر ملحد نہیں ہے ،جب وہ یہ کہے گا کہ وہ خود ہی سچ کی انکوائری کرے گا ،سچ کی تلاش کرکے اپنے آپ کو روشن کرے گا ۔لیکن معاشرہ ،تہذیب و کلچر انسان کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ خودبخود سچ کی تلاش میں نکل جائے ۔سچ کی تلاش کے لئے پہلے معاشرہ انسان کو ہندو مسلم یا عیسائی بناتا ہے ،ایسا اگر نہ ہو سکے تو اسے لبرل یا ملحد بناکر سچ کے پیچھے دوڑا دیتا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرہ چاہتا ہے کہ انسان کسی نہ کسی یقین کے ساتھ سچ کے پیچھے جائے ،اس طرح وہ انسان فرمابردار رہتا ہے ،قانون پر عمل کرتے ہوئے سچ کے پیچھے جاتا ہے ۔ہجوم کی پیروی کرتے ہوئے سچ کے پیچھے جاتا ہے ۔بھیڑ بکری بن کر سچ کی تلاش کرتا ہے ۔۔اس لئے انسان ابھی تک سچ تک نہیں پہنچ پایا اور نہ ہی اس اسٹریٹیجی کے زریعے وہ کبھی بھی سچ تک پہنچ پائےگا ۔انسان اور انسانیت ابھی تک اس کائنات میں نہیں ہیں ۔انسانیت ابھی بھی ایک اعلی و ارفع آئیڈیا ہے اور یہ آئیڈیا ہی رہے گا ۔انسان اور انسانیت نے ابھی کائنات میں آنا ہے ۔انسان کی پیدائش ابھی ہونی باقی ہے ۔آج کے نام نہاد انسان حیوان اور انسان کے درمیان کوئی اور ہی مخلوق ہیں ۔لیکن یہ ضرور ہے کہ اصلی انسان کے آنے کے لئے ہزاروں سالوں سے گراؤنڈ تیار کیا جارہا ہے ۔اس تیاری میں جنگ و جدل بھی ہورہی ہے ،خود کش حملے بھی ہورہے ہیں ،کہیں نہ کہیں نئے انسان کے لئے ماحول بھی سازگار دیکھائی دے رہا ہے ۔جس دن یقین کا تمام انفراسٹکچر غائب ہونا شروع ہوجائے گا ،نئے انسان کی آمد کا بگل بج جائے گا ۔ابھی تو اس دنیا میں مسلمان ہیں ،عیسائی ہیں ،ہندو ہیں ،یہودی ہیں ،لبرل ہیں ،ملحد ہیں ،سیکولر ہیں ،کمیونسٹ ہیں ۔یقین کے تمام نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی انسان کا سچ کی طرف سفر شروع ہوگا ۔یقین سے نکلتے ہی انسان کے اندر کی دنیا میں ایک نیا اسمارٹ ٹرن آئے گا ۔سچ کی انکوائری کا عمل شروع ہوگا ۔بغیر کسی یقین کے سچ کی تلاش ایک بہت ہی خوبصورت الہامی سرگرمی ہے ۔جب وہ سچ کی تلاش کا سفر شروع کرے گا تو تب ہی انسان کی نشوونما ہونا شروع ہوگی ۔انسان کی ترقی ،ارتقاء اور نشوونما کا آغاز ہی اس وقت ہوتا ہے، جب وہ سچ کی تلاش کے سفر کا آغاز بغیر کسی یقین کے ساتھ کرتا ہے ۔جب وہ ہندو ،مسلم اور عیسائی بنے بغیر سچ کی انکوائری کرنا شروع کرتا ہے ۔یقین کے ساتھ سچ کے متلاشی سچ تلاش نہیں کرسکتے ۔کیونکہ اس طرح ان کی نشوونما ہی ممکن نہیں ۔یقین میں غرق انسان میں شعور ،بصیرت اور دانائی نہیں ہوتی ۔ابھی شعور ،بصیرت اور دانائی نے برپا ہونا ہے ۔جنگیں ہورہی ہیں ،تشدد بڑھ رہاہے ،نظریات کا بول بالا ہے ،ایٹم بم تیار ہیں ،تیسری جنگ عظیم سامنے ہے ،یورپ سے امریکہ اور پاکستان تک کسی نہ کسی طرح تشدد ہی تشدد ہے ۔اس کا مطلب ہے انسان ابھی تک نہیں آیا ۔یہ انسان آنے والے انسان کی ایک ڈمی ہے ۔بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ دس سے بارہ سال تک کی عمر میں ایک خاص یقین کا پیروکار بن چکا ہوتا ہے ۔اس کے اندر عقائد اور یقین کی بھرمار ہوتی ہے ۔وہ کسی نہ کسی عقیدے کا پیروکار بن چکا ہوتا ہے ۔وہ پہلے ہی سچ کو جان چکا ہوتا ہے ۔کوئی کمیونسٹ ہے ،کوئی خدا پر یقین رکھنے والا ہے ،کوئی داس کیپیٹل کا ماننے والا ہے ،کوئی گیتا کا ماننے والا ہے ،کوئی ماؤزے تنگ کی ریڈ بک سے مزین ہے ۔تمام انسانوں میں خاص قسم کے نظریات و تصورات بھرے ہوئے ہیں ۔سب جاننے والے ہیں ،سب کا دعوی ہے کہ وہ سچ کو دریافت کرچکے ہیں ۔حقیقی انسان تو وہ ہوتا ہے جو اختتام پر ہی نشوونما پانا شروع کرتا ہے ۔جب وہ مررہا ہوتا ہے تو اسی وقت اس کی نشوونما شروع ہورہی ہوتی ہے۔زندگی کے آخری لمحوں میں انکوائری شروع ہورہی ہوتی ہے ۔حقیقی انسان یقین نہیں کرتا ،بلکہ وہ صرف سیکھتا ہے ،اس کے پاس علم یا معلومات بھی ہوسکتی ہیں ،وہ کھلے زہن کے ساتھ سفر کررہا ہوتا ہے ۔سچ کے لئے ہمیشہ اوپن رہتا ہے ۔یقین کرنے والا ہمیشہ سچ کو ایڈجسٹ کرتا ہے ۔وہ کہتا ہے یہ میرا یقین ہے اور یہی سچ ہے ۔یقین رکھنے والے اپنے تجربات پر بھی اعتماد نہیں کرتے ،ان تجربات کے دوران اگر ان کے سامنے سچ آشکار بھی ہوجائے تو وہ رد کردیتے ہیں ۔کیونکہ یقین کی وجہ سے ان کے اندر کی دنیا محدود رویوں پر مبنی ہوتی ہے ۔ایک خاص قسم کا زہریلا پن ہوتا ہے ۔وہ انسان جو سچ کو جاننا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ سچ کے پچھلے تمام نظریات و خیالات نکال پھینکے ۔پھر ہی وہ سچ جان سکتا ہے ۔پہلے انسان کسی عقیدے کے یقین کا قائل ہوتا ہے ،اس پر اس عقیدے یا یقین کی شرائط نافذ ہوتی ہیں ،اگر ایسا نہیں بھی ہے تو بہت انسان سچ کے لئے ابھی بھی بہت سے مزید عقائد کا انتظار کررہے ہیں ۔آج کے انسان کو یقین چاہیئے ،حالانکہ زندگی میں یقین کا سوال ہی نہیں ،انسان صرف زندگی کی خالی جگہیں یقین کے ساتھ بھرتا ہے ۔اس کی وجہ ہے کہ یقین و عقائد آسانی سے دستیاب ہیں ۔اس زمین پر تین سو مذاہب ہیں ،سچ صرف ایک ہے ۔پھر ان مذاہب کے سینکڑوں فرقے اور عقائد ہیں ،پھر ان فرقوں کے اندر مزید فرقے ہیں ،لیکن سچ صرف ایک ہے ۔سچ کہاں ہے؟سچ کی راہ میں لاکھوں رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں ،سچ سے بچنے کا واحد راستہ ہی یہی ہے کہ کسی عقیدے ،فرقے یا یقین کے ساتھ جڑ جاؤ۔اس سے انسان سچ کی تلاش کی سرگرمی سے رک جاتا ہے ۔سچ بڑی کمال کی چیز ہے ،سچ کی وجہ سے انسان آزاد ہوتا ہے ،اس میں اعتماد پیدا ہوتا ہے ،محبت کی نشوونما ہوتی ہے ،سچ سے خوف ،تعصب اور نفرت سے آزادی نصیب ہوتی ہے ۔انسان قید سے آزاد ہوتا ہے ۔جب انسان کے باہر اور اندر گرد و غبار ہوگا ۔میل کچیل ہوگی پھر سچ کیسے ممکن ہے؟سچ کا سفر شروع کرنا ہے تو نظریات سے زہن خالی کرو ۔سائیں بابا نے کہا ،سقراط مررہا تھا ،اس کے شاگرد رو رہے تھے تھے ۔یہ فطری عمل ہے ،شاگردوں نے استاد کی موت پر رونا ہی تھا ۔مرنے کے عمل کے دوران سقراط نے کہا ،رونا دھونا بند کرو ،خاموش ہو جاؤ،ڈسٹرب مت کرو ۔سچ کی تلاش میں موت کی انکوائری کرنے دو ۔تم بعد میں بھی رو سکتے ہو ۔موت کیا ہے ،اس موت کا زندگی بھر انتظار کرتا رہا ہوں ۔موت کی حقیقت کے تجربے کو انجوائے کرنے دو ۔سقراط کو زہر دیا گیا تھا ،وہ بستر مرگ پر تھا ،وہ موت کو دیکھ رہا تھا ۔وہ موت کے تجربے کی سچائی تلاش کررہا تھا ۔کہنے لگا ،میرے پاؤں ٹھنڈے ہو گئے ہیں ،لیکن اب بھی پہلے جیسا مکمل ہوں ،پھر کہا ٹانگیں سرد ہو گئیں ہیں ،لیکن اب بھی پہلے جیسا ہوں ،پھر کہا بازو سرد ہو گئے ہیں ،اب بھی پہلے جیسا انسان ہوں ۔پھر مسکرانا شروع کردیا ۔یہ مسکراہٹ اس بات کی عکاس تھی کہ کہ جلد موت اس کا دل بھی چھین لے گی ۔آخری الفاظ تھے ،میرا دل ڈوب رہا ہے ،زبان سرد ہورہی ہے ۔لیکن اب بھی مکمل ہوں ،پہلے جیسا ہوں ،کہیں نہیں گیا ،ادھر ہوں ۔یہ ہے سچ کی تلاش کا حقیقی عمل ۔اس طرح تصور سے اختتام تک انسان کو سچ کی تلاش کرنا چاہیئے ۔اگر انسان سچ کی تلاش نہیں کررہا تو وہ انسان نہیں ہے ۔انسانوں اور جانوروں میں فرق ہی یہی سچ کی انکوائری کا عمل ہے ۔جانور زندہ رہتے ہیں ،سچ کی تلاش نہیں کرتے ،کیا کبھی کسی جانور نے کہا سچ کیا ہے؟زندگی کیا ہے ؟زندگی کے معانی کیا ہیں؟ہم یہاں کیوں ہیں؟کہاں سے آئے ہیں ؟موت کیا ہے؟درخت ،پرندے اور زمین و آسمان بھی اس طرح نہیں کرتے ،یہ صرف انسان کی شان ہے کہ وہ سچ کا متلاشی رہتا ہے ۔انسان لگتا چھوٹا سا ہے ،لیکن وہ آسمان سے بلند وارفع ہے ۔کوئی نہ کوئی منفرد بات تو ہے انسان میں ۔آسمان کا بھی اختتام ہے ،لیکن انسان کے سچ کی انکوائری کی کوئی حد نہیں ۔بابا نے کہا بیٹا عقیدے اور شک کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے ،دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں ۔جیسے سانس لینا اور سانس باہر نکالنا ۔اس طرح مذہبی انسان اور ملحد بھی ایک سکے کے دو رخ ہیں ،ہر جگہ شرائط ہیں ،غلامی ہے ۔ایک خدا پر یقین رکھتا ہے اور دوسرا نہیں رکھتا ۔دونوں کا یقین شرائط پر ہے ۔جو یقین کی شرائط سے سفر شروع کرتے ہیں ،وہ کبھی سچ کو جان نہیں پاتے ۔یہ سب ایک دائرے کے گرد گھومتے رہتے ہیں ،کبھی بھی سچ کے اندر گھسنے کی کوشش نہیں کرتے ۔اور ایمان کا مطلب اپنے آپ پر اعتماد ہونا ہے ۔اپنے انسان ہونے پر اعتماد ،اپنے لئے عزت ہونے پر ایمان ،یقین دوسرے پر ہوتا ہے ،دوسرے کے دیئے گئے نظریئے یا خیال پر ہوتا ہے اور ایمان اپنے آپ پر ہوتا ہے ۔ایمان انسان کی اپنی دنیا ہے ،یہ ایمان کے وہ خود سچ کی انکوائری کرے گا ۔ایمان انسان کی ایک خوبصورت اور دلکش دنیا ہے جہاں کوئی یقین و عقیدہ ملوث نہیں ۔جہاں کوئی خلفشار نہیں ،تقسیم نہیں ،ایمان والے انسان کا کوئی مذہب نہیں ،اس کا مذہب سچ کی تلاش ہوتا ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔