فرض کیجئے کہ آپ کے دماغ میں ایک چپ لگا دی جائے جس سے آپ انٹرنیٹ سے کنکٹ ہو جائیں۔ جس قدر رفتار سے آپ کی سوچ ہے، اس رفتار سے اس معلومات تک آپ کی رسائی ہو۔ وکی پیڈیا یا کسی بھی اور جگہ کی معلومات براہِ راست آپ کے دماغ تک ہے۔ تو پھر کیا آپ کے لئے سچ جاننا آسان ہوتا؟ نہیں۔ شاید زیادہ مشکل ہوتا۔ زیادہ ڈیٹا کا مطلب یہ کہ اس کا تجزیہ کرنے کا وقت مزید کم ہو جاتا۔
یہ تبدیلی اِس وقت ہو رہی ہے۔ دماغ میں چپ تو نہیں لیکن آپ اپنی جیب میں معلومات کی دنیا اٹھا کر پھر رہے ہیں۔ کسی بھی وقت کسی بھی ٹاپک کے بارے میں کچھ دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ جس قدر معلومات شئیر کرنا آسان ہو رہا ہے اتنا ہی سچ اور جھوٹ کے درمیان تمیز کرنا مشکل ہو رہا ہے۔
یہ زندگی کی ایک خاصیت ہے کہ ہم اس حوالے سے اپنے اپنے جزیروں پر رہتے ہیں۔ اور فرق سوچ رکھتے ہیں۔ نہ صرف اقدار کے حوالے سے بلکہ حقائق کے حوالے سے بھی۔ بنیادی وجہ کیا ہے؟ ہم تک زیادہ معلومات نہیں پہنچ رہی بلکہ یہ کہ وہ معلومات زیادہ پہنچ رہی ہے جو ہم پسند کرتے ہیں۔ اور یہ نئی ملنے والی معلومات حقیقت سے زیادہ ہمارا اپنا عکس ہوتی ہے۔ اس وجہ سے یہ تضاد ہے کہ جس طرح معلومات تک رسائی بہتر ہو رہی ہے، ویسے ہی اختلافات بڑھ رہے ہیں۔
علم کے ان دور جاتے جزیروں کو کیسے روکا جائے؟ اس کا ایک حصہ تو ٹیکنالوجی کے ذریعے ہے جس پر فیس بک اور گوگل کے بہترین دماغ کام کر رہے ہیں اور یہ اہم ہے لیکن یہ صرف ٹیکنالوجی سے حل ہونے والا مسئلہ نہیں۔ کیونکہ یہ مسئلہ ٹیکنالوجی کا نہیں، انسانوں کا ہے۔
اسے حل کرنے کے لئے ہمیں نہ صرف نفسیات اور پولیٹیکل سائنس کی بلکہ فلسفے کی بھی ضرورت ہے۔ کیونکہ ہمیں یہاں پر ایک بہت بنیادی خیال کی طرف رجوع کرنا ہو گا کہ اور وہ خیال یہ ہے کہ ہم مشترک حقیقت میں رہتے ہیں۔
مشترک حقیقت میں رہنے کا تصور فلسفے کے دوسرے خیالات کی طرح کہنا آسان ہے لیکن جب عمل کرنے کی باری آئے تو مشکل ہو جاتا ہے۔ اس پر عمل کیلئے تین چیزیں کرنا ہوں گی جن میں سے ہر چیز کرنے کا اپنا چیلنج ہے۔
پہلی چیز، سچ پر یقن۔ یہ تصور کچھ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت سیاست دیکھیں یا دوسرے معاشرتی مسائل۔ یوں لگتا ہے کہ حقائق موجود ہی نہیں۔ ہم سب اپنے نقطہ نظر کے قیدی ہیں اور اپنے تعصبات سے باہر قدم نہیں رکھ سکتے۔ جب بھی کوشش کرتے ہیں، کہیں سے اپنی پسند کی کوئی نہ کوئی انفارمیشن مل ہی جاتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سچ سراب ہے یا پھر اس کی اہمیت ہی نہیں۔
سچ موجود نہیں۔ یہ فلسفے میں پرانی سوچ ہے۔ پچھلی صدی میں کچھ حلقوں میں مقبول بھی رہی تھی۔ لیکن یہ ایک شکست خوردہ سوچ ہے۔ سچ کو دیکھنا مشکل تو ہو گا، ناممکن نہیں۔ کسی بھی چیز کے بارے میں مکمل یقین ہونا تو مشکل ہے (ممکن ہے کہ ہمارا دماغ مسلسل ہمیں گمراہ کرنے میں لگا ہو) لیکن پھر بھی ہم کئی چیزوں پر اتفاق رکھتے ہیں۔ ہم متفق ہیں کہ گولیاں لوگوں کو قتل کر سکتی ہیں۔ ہم متفق ہیں کہ اپنے بازو پھڑپھڑائیں تو اڑ نہیں سکتے اور ہم متفق ہیں کہ حقیقت ہمارے اردگرد موجود ہے اور اس کو نظرانداز کرنا ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔
یہاں پر مشکل کیا ہے؟ اپنے خیالات کے ٹھیک ہونے پر یقین رکھنا ہمیں اچھا محسوس ہوتا ہے۔ اس لئے ہم اپنے خیالات کو ڈھک لیتے ہیں، اس معلومات کی چادر سے جو ان کو تقویت پہنچائے اور پھر اپنے اپنے جزیروں میں خوش رہتے ہیں۔ اس کے لئے ایک تجربہ خود اپنے پر کر کے دیکھ لیں۔ آپ نے فیس بُک پر دو متضاد خبریں پڑھیں ہیں۔ ایک آپ کے پسند کی سیاسی پارٹی کے حق میں ہے، دوسری خلاف۔ کس پر آپ بغیر زیادہ سوچے یقین کر لیں گے اور کس کی سچائی پر پڑھتے ہی غلط ہونے کا شک گزرے گا؟ اس بارے میں اپنے پہلے ری ایکشن کا تجزیہ کر کے دیکھیں۔ عام طور پر جھوٹی خبر کا مطلب “وہ خبر جو مجھے پسند نہیں” لیا جاتا ہے۔
دوسری چیز: جاننے کی جرات۔ انٹرنیٹ کا جب آغاز ہوا تو لگتا تھا کہ اس سے ہمارے لئے خود جاننا آسان ہو جائے گا لیکن معلومات اب ہم ڈھونڈتے نہیں، ہم تک پہنچ جاتی ہے۔ اس آسانی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم اس کے لئے چھان پھٹک بھی نہیں کرتے۔ سوشل میڈیا کی اسمبلی لائن سے ہمارے پسند کی معلومات ہمیں مل جاتی ہے۔ اس نیٹ ورک اور اس کے ایلگورتھم پر انحصار کا نتیجہ یہ کہ ہمیں اپنے ذہن پر زور نہیں دینا پڑتا۔ یہاں پر فیکٹس کا ایک سیٹ ڈاوٗن لوڈ کر لینے اور اس کو سمجھنے میں فرق ہے۔ یہ سمجھنا کہ کوئی بیماری کیوں پھیلتی ہے؟ ریاضی کا ثبوت کیسے کام کرتا ہے؟ آپ کا دوست آج اداس کیوں ہے؟ ان چیزوں کے جواب ڈاوٗن لوڈ نہیں ہوتے۔ ان کو سجھنے کیلئے متحرک ذہن کی ضرورت ہے۔ تھوڑی سے تخلیقی صلاحیت کی۔ فیلڈ میں جانے کی، ایک ایک قدم لے کر تھیورم ثابت کرے کی اور کسی سے بات کرنے کی۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ گوگل نہ کیا جائے یا خبر نہ دیکھی جائے بلکہ یہ کہ معلومات کے اپنے بلبلے سے باہر نکل کر بھی دیکھا جائے۔ اپنے بلبلے کی معلومات میں ہم ہمیشہ درست ہوتے ہیں لیکن اگر ہم جاننے کی جرات کریں، سمجھنے کی جرات کریں تو اس کا ایک اور نتیجہ نکل سکتا ہے جس سے ہم ڈرتے ہیں۔ وہ یہ کہ ہم غلط بھی ہو سکتے ہیں۔ ہم جو چاہتے ہیں اور جو سچ ہے یہ فرق بھی ہو سکتا ہے۔
تیسری چیز: علمی انکساری۔ یہ تسلیم کرنے کی بہادری کہ آپ سب کچھ نہیں جانتے اور پھر اس سے کچھ بڑھ کر۔ اس کا مطلب یہ کہ یہ تسلیم کر لینا کہ آپ دوسروں کے شواہدات سے اور دوسروں کے تجربے سے سیکھ سکتے ہیں۔ آپ بہتر ہو سکتے ہیں۔ اپنا علم بڑھا سکتے ہیں۔ سیکھ سکتے ہیں۔ دوسروں سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اپنا نقطہ نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ مشترک حقیقت پر اتفاق کر سکتے ہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس قسم کی انکساری کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ غرور اور اعتماد کو کنفیوز کیا جاتا ہے۔ غرور آسان ہے۔ خاص طور پر اپنے صحیح ہونے کا۔
مشرک حقیقت کا تصور کہنے میں تو بالکل آسان اور سیدھا سادھا تصور لگتا ہے لیکن ہم اس کو نظرانداز کر دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ یہ ضروری ہے۔ معاشرے ایسے نہیں چل سکتے اگر ان کے شہری یہ تصور ماننے کو تیار نہ ہوں۔ آپس میں خیالات کا تبادلہ اور مکالمہ کرنے کو تیار نہ ہوں۔ خاص طور پر اس معاملات میں جن پر وہ متفق نہ ہوں۔
معلومات کا سیلاب تنگ نظری میں اضافہ کر رہا ہے۔ اس سے بچنے کیلئے ہمیں خود محنت کرنا ہے۔ جھوٹ پھیلانے کا آلہ کار نہ بننا ہماری اپنی ذمہ داری ہے۔
اس کیلئے ہمیں سچ پر یقین رکھنا ہو گا، جاننے کی جرات پیدا کرنا ہو گی اور یہ انکساری دکھانا ہو گی کہ جاننے کا معیار اور پیمانہ ہم خود نہیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کسی روز ہم اپنے دماغوں میں انٹرنیٹ لگوا لیں لیکن اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ خوفناک تصادم پر متنج نہ ہو تو اپنی سمجھ میں وسعت پیدا کرنا ہو گی اور یاد رکھنا ہو گا کہ ہمارے نقطہ نظر، جتنے بھی زبردست اور خوبصورت ہوں، وہ ایک ہی حقیقت کے مختلف پرتو ہیں۔