اس وقت سول سروس کی مشترکہ (کامن) تربیت کا آغاز نہیں ہوا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی سول سروس اصلاحات نے ابھی پٹرول پمپوں پر کام کرنے والے جیالوں کو سول سرونٹ نہیں بنایا تھا۔ والٹن جو آج مشترکہ تربیت (کامن ٹریننگ) کی اکیڈمی ہے، اس وقت صرف مالیات کے شعبوں کی تربیت کے لیے مختص تھی۔ یہاں پاکستان ملٹری اکائونٹس سروس‘ پاکستان آڈٹ اینڈ اکائونٹ سروس‘ پاکستان کسٹمز اینڈ ٹیکسائز سروس اور پاکستان ٹیکس سروس کے افسروں کو تربیت دی جاتی تھی۔ الطاف گوہر معتوب ہوئے تو انہیں اس فنانس سروسز اکیڈمی کا سربراہ بنا کر بھیجا گیا۔ الطاف گوہر آئیڈیاز کے بادشاہ تھے انہوں نے اکیڈمی کو چار چاند لگا دیئے۔ بہت سی مثبت تبدیلیاں لے کر آئے۔ ان کا منصوبہ یہ بھی تھا کہ پاکستانی مالیات کے ان سول سرونٹس کو ورلڈ بینک بھیج کر بھی ٹریننگ دلوائی جائے گی لیکن ایسا نہ ہوا کیونکہ جلد ہی الطاف گوہر کو یہاں سے بھی فارغ کردیا گیا۔
سول سروس کے عروج کا زمانہ تھا۔ ابھی کسی رائو سکندر نے کسی ایس پی اوکاڑہ کو تھپڑ مارنے کی جرأت نہیں کی تھی ۔غلط تھا یا صحیح‘ فنانس سروسز اکیڈمی والٹن کے افسروں کو برطانوی زمانے کے خطوط پر تیار کیا جاتا تھا۔ خادم علی الصبح جرابوں کو اس طرح تیار کر رکھتے تھے کہ صرف پنجہ اندر ڈالنا ہوتا تھا اور ذرا سا اوپر کرنے سے جراب پہن لی جاتی تھی۔ کوٹ اس طرح پہنایا جاتا تھا جیسے برطانوی ہائی سوسائٹی میں لارڈز اپنی بیگمات کو پہناتے تھے۔ ٹینس اور تیراکی شام کے مشاغل کا جزو لاینفک تھی۔
یہ سب تمہید تھی ۔جو واقعہ بتانا مقصود ہے وہ اور ہے۔ ایک صبح یہ نوخیز افسر ناشتہ کر رہے تھے۔ خدام دست بستہ کرسیوں کے پیچھے ایستادہ تھے۔ اچانک ایک صاحب بگڑے اور باورچی پر بری طرح گرجے‘ فرائی انڈے کی زردی پھٹ گئی تھی جو صاحب کے نازک مزاج پر گراں گزری۔ خدام پر برسنا شروع ہوئے تو چپ کرنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ اگر اس لکھنے والے کی یادداشت غلطی نہیں کر رہی تو غالباً یہ چکوال سے تعلق رکھنے والے طویل قامت اور نڈر احسان الٰہی طارق تھے (بعد میں کمشنر اور ریجنل کمشنر انکم ٹیکس ہوئے) جو بولے۔ انہوں نے گرجتے برستے صاحب کو مخاطب کیا۔
’’اگر تمہارے گھر میں کبھی انڈا فرائی ہوتا تو تمہیں پتہ ہوتا کہ یہ بدبخت زردی ٹوٹ بھی جاتی ہے اور ٹوٹی ہوئی زردی کو بھی کھا لیا جاتا ہے‘‘۔
بھارتی شیوسینا کے جن ارکان نے دلی میں روزہ دار مسلمان سپروائزر ’’ارشد زبیر‘‘ کے منہ میں زبردستی روٹی ٹھونس کر اس کا روزہ ناپاک کرنے کی غلیظ حرکت کی، اگر ان کے گھروں میں روٹیاں پکتیں تو انہیں معلوم ہوتا کہ روٹی خراب بھی ہو جاتی ہے۔ جل بھی جاتی ہے اور جنہوں نے گھروں میں بچپن سے ملازم دیکھے ہوں انہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایسی ذرا ذرا سی باتوں پر انسان شیطان کا روپ نہیں دھار لیتے۔
نہرو اور گاندھی ساری اسلام دشمنی کے باوجود ایسی گری ہوئی حرکت نہ کرتے۔ پاکستان کا سب سے بڑا دشمن پٹیل بھی شاید ایسا نہ کرتا۔ یہ وہ لوگ تھے جو کھاتے پیتے گھروں سے تھے۔ سیاسی اختلافات سے قطع نظر یہ ہندوئوں کی رکھ رکھائو والی نسل تھی۔ انہوں نے نوکر بھی دیکھے تھے‘ سائیس اور کوچوان بھی دیکھے تھے اور انہیں معلوم تھا کہ باورچی سے روٹی جل بھی جاتی ہے۔ بھارت پر جو گروہ اب حکمران ہے، یہ وہ گنجے ہیں جنہیں قسّامِ ازل کی بے نیازی نے ناخن دے دیئے ہیں۔ ان لوگوں کے خاندان نیچ‘ فیملی بیک گرائونڈ گھٹیا اور قوتِ برداشت نہ ہونے کے برابر ہے۔ مہاراشٹر کے یہ گیارہ مرہٹے ارکانِ پارلیمنٹ نسلوں سے بھوکے تھے‘ اس قدر کہ خراب روٹی دیکھ کر خارش زدہ جانوروں کی طرح کچن میں گھُس گئے۔ برتن توڑ ڈالے‘ قابیں اور ڈونگے ہوا میں اچھالنے شروع کردیئے۔ کچن کا سپروائزر مسلمان تھا۔ اس کے سینے پر اس کے نام کی پلیٹ آویزاں تھی۔ جس پر ارشد زبیر لکھا ہوا صاف نظر آ رہا تھا۔ پھر جب ان رذیلوں نے اس کے منہ میں جلی ہوئی روٹی ٹھونسنا شروع کی تو اس نے بار بار بتایا کہ میں روزے سے ہوں لیکن سعدی نے صحیح کہا تھا کہ گرگ زادہ گرگ ہی رہتا ہے‘ مرہٹے کو حکومت بھی مل جائے تو وہ ڈاکو ہی رہتا ہے اور اس کی سرشست وہی رہتی ہے جسے اورنگ زیب نے سمجھ لیا تھا اور درست سمجھا تھا۔ مکار‘ دھوکے باز اور جھوٹے شیوا جی کو اورنگ زیب نے موشِ کوہستانی (پہاڑی چوہے) کا خطاب دیا تھا۔ یہ وہی شیوا جی تھا جس نے اورنگ زیب کے طویل قامت جرنیل افضل خان کو دعوت دے کر اپنا مہمان بنایا اور جب وہ اس پستہ قد پہاڑی چوہے سے گلے مل رہا تھا تو قتل کردیا۔ ضمیر جعفری نے لکھا تھا:
سچ کہتا تھا افضل خان
تری پورہ تا راجستھان
مر گیا ہندو میں انسان
مغلوں کو زوال آیا تو یہ ڈاکو دلی تک پہنچ گئے اور ’’چوتھ‘‘ کے نام سے بھتہ گیری شروع کردی۔ شاہ ولی اللہ نے احمد شاہ ابدالی کو بلایا۔ اس نے ان میں سے بہت سوں کے گلے کاٹے۔پانی پت کا میدان مرہٹوں کی لاشوں سے سنڈاس میں تبدیل ہو گیا لیکن سیماب پا احمد شاہ ابدالی مغرب کی طرف واپس لوٹ گیا۔
عید کے چاند پر جھگڑا کرنے والوں اور پگڑیوں کے رنگوں سے اپنے اپنے گروہوں کی شناخت کرنے والے پاکستانیوں کو اس حقیقت کا احساس ہی نہیں کہ ریلوے سٹیشن پر چائے بیچنے والا بھارت میں وزیراعظم بن چکا ہے۔ اس کا فیملی بیک گرائونڈ گاندھی اور نہرو کے فیملی بیک گرائونڈ سے مختلف ہے۔ بچھو‘ بچھو ہی رہتا ہے اور اس کچھوے کو بھی ڈنگ مار کر رہتاہے جس کی پیٹھ پر سوار ہو کر دریا پار کر رہا ہوتا ہے۔ مہاراشٹر کے ڈاکو لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں براجمان ہو چکے ہیں۔ آج نہیں تو کل یہ پاکستان سے ضرور نبردآزما ہوں گے۔ ارشد زبیر کے روزے کی توہین وہ پہلی اینٹ ہے جو جنوب کے ہندو ڈاکوئوں نے رکھ دی ہے۔ اس بنیاد پر جو عمارت وہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں اس کا نقشہ ہر پاکستانی کو سمجھ میں آ جانا چاہیے۔ بھارتی ڈاکوئوں کے عزائم سے آگاہ کرنا صرف حافظ سعید کا فرض نہیں ہے، یہ ان سیاسی اور مذہبی راہنمائوں کا بھی فرض ہے‘ جو تجوریاں بھرنے کے بعد اب جیبیں بھر رہے ہیں اور اپنا مستقبل پاکستان کے بجائے دبئی‘ لندن اور نیویارک سے وابستہ کر چکے ہیں۔
بے شرمی کی انتہا یہ ہے کہ ابھی تک شیوسینا اور اس کے حکومتی اتحادی بی جے پی نے اپنی غلطی تسلیم کی ہے نہ ارشد زبیر سے اور دوسرے مسلمانوں سے معافی مانگی ہے۔
لوک سبھا میں جب اپوزیشن اس واقعے پر احتجاج کر رہی تھی تو دہلی سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نے چیخ کر ایک مسلمان رکن پارلیمنٹ کو کہا کہ تم پاکستان کیوں نہیں چلے جاتے۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمان اس واقعے کو فرقہ وارانہ رنگ دے رہے ہیں۔ دوسری طرف تلنگانہ صوبے نے ثانیہ مرزا کو اعزاز دیا ہے تو اعتراض کیا جا رہا ہے کہ ثانیہ تو پاکستان کی بہو ہے۔ ثانیہ مرزا کو یہ تک کہنا پڑا کہ وہ کب تک بھارتی ہونے کا یقین دلاتی رہے گی!
پس نوشت۔ گجرات میں جس بچے کے بازو کاٹ دیئے گئے، اس کی عیادت کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب نے جو ریمارک دیئے اور جس صورتحال کا انہیں سامنا کرنا پڑا‘ اس کا ایک اور صرف ایک ہی مطلب نکلتا ہے کہ کئی عشرے اقتدار میں رہنے کے باوجود موجودہ حکمران سسٹم نہیں بنا سکے اور اب بھی سارا نظام ’’مَیں‘‘ کے اردگرد گھوم رہا ہے۔ پرچہ درج کرنے میں تاخیر اور بچے کے علاج میں کوتاہی پر وزیراعلیٰ نے ایم ایس کو عہدے سے ہٹا دیا جبکہ ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو معطل کردیا۔ ایک فقرہ وزیراعلیٰ نے ایسا کہا کہ موجودہ بدانتظامی کا اعتراف اس سے بہتر طور پر نہیں کیا جا سکتا۔ وزیراعلیٰ نے کہا ’’غریب کے ساتھ ہونے والے اس ظلم پر بروقت قانون حرکت میں کیوں نہیں آیا؟‘‘ جناب عالی! حکمران اعلیٰ آپ ہیں۔ یہ سوال تو آپ کو اپنے آپ سے کرنا چاہیے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ زمیندار کو پکڑ لیا تو مقدمہ درج کرنے کی توفیق کیوں نہ ہوئی۔ وزیراعلیٰ نے ایک اور بات کی جو کل کا مورخ ان کی حکومت پر اور ان کے اسلوب حکومت پر رائے دیتے ہوئے لکھے گا ’’مقدمہ اس وقت درج ہوتا ہے جب پتہ چلتا ہے کہ وزیراعلیٰ نے نوٹس لے لیا ہے‘‘!
وزیراعلیٰ غمزدہ ہوئے۔ ان کا اندر کا کرب ان کے خلوص کو ظاہر کرتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ایک شہباز شریف کس کس ضلع کے کس کس تھانے میں پہنچے گا؟ کس کس ہسپتال کے ایم ایس کو معطل کرے گا؟ اور کس کس ایس ایچ او کی سطح پر نیچے اترے گا؟ حضور! اپنے کرب کو کسی سسٹم میں ڈھال دیتے تو آج آپ کو ہر جگہ پہنچ کر وہ کام بنفس نفیس نہ کرنے پڑتے جو نظام میں خودبخود ہو جاتے ہیں۔ نظام کو بنانے اور بروئے کار لانے کے لیے عمرِ نوح ملتی ہے نہ درکار ہے۔ اگر جناب کے حواریوں میں کوئی پڑھا لکھا ہے تو اسے حکم دیجیے کہ علائوالدین خلجی اور شیر شاہ سوری کی سوانح حیات آپ کی خدمت میں پیش کرے!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“