سچ بھی ہمیشہ سِکے کی طرح ہوتا ہے اُس کے بھی دورُخ ہوتے ہیں ، ہیڈ یا ٹیل ۔یہ بات مُمکن ہے ہر معاملے میں ٹھیک نہ ہو اور ظاہر ہے کُچھ آفاقی سچائیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جِن کا ایک ہی رُخ ہوتا ہے لیکن یہاں میں تاریخ کی بات کررہا ہُوں ۔ تاریخ میں ہمیشہ دو سچ ہوتے ہیں یا یُوں کہہ لیں دو جُھوٹ ہوتے ہیں ۔ ایک ہمارا سچ اور ایک دُوسری قوم کا سچ ۔ یا ایک ہمارا جُھوٹ اور دُوسرے کا جُھوٹ !
ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم دُوسروں کا سچ مانیں ، یا اُنھیں کیا ضرورت ہے کہ ہمارا سچ مانیں ۔ بات کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ یہ بالکل ضروری نہیں ہے کہ ہر بات جو ہم پڑھتے آئے ہیں وُہ سچ ہو ۔ درسی کُتب میں ایک خاص طرز کا بیانیہ پڑھایا جاتا ہے جو کِسی بھی مُلک کی اپنی مَن چاہی سچائی ہوتی ہے اور اِس میں کُوئی مُضائقہ بھی نہیں ہے بلکہ ایسا کرنا کِسی بھی مُلک کے لئے بڑی حد تک ضروری بھی ہوتا ہے ۔
ایک دو مِثالیں سُن لیں ، راشد مہندس اور مطیع الرحمان اُن کا ٹرینر دونوں ہی طیارہ گِرنے سے جا بحق ہوگئے تھے ایک شہید کہلایا اور دُوسرا غدارِ وطن ، ایک کو نشانِ حیدر مِلا دُوسرا بدنامی کا طوق گلے میں لیکر دفن ہُوا ۔ بنگلہ دیش بن گیا تو اُنھوں نے اپنے شہید اور ہمارے غدار کی جِسم کی باقیات پاکستان سے نِکلوا کر بنگلہ دیش لے گئے غالباً مُشرف دور کی بات ہے اور فلائٹ لیفٹینینٹ مطیع الرحمان کو بنگلہ دیش کا سب سے بڑا فوجی اعزاز Bir Sreshtho سے نوازا ۔ جبکہ ہم پاکستانیوں سے اِتنا نہ ہوسکا کہ بوگرا ایسٹ پاکستان موجودہ بنگلہ دیش میں دفن نشانِ حیدر شہید افسر میجر محمد اکرم کا جِسدِ خاکی وہاں سے واپس پاکستان نہ لاسکے اور نہ اُن کو جو دو نسلیں وہاں پاکستان کے نام پر رفیوجی کیمپسز میں ذلیل ہوتے رہے ۔ کیا واقعی ہم اپنے قومی ہیروز کی قدر کرتے ہیں ؟
بھارت نے تو بھاگ مِلکھا بھاگ فِلم بنا کر ملکھا سِنگھ کو امر کردِیا لیکن ہم نے عبدالخالق پرندے کے ساتھ کیا کیا جو مِلکھا سے کہیں بڑا ایتھلیٹ تھا ؟
لیکن اگر آپ کے اندر سچ جاننے کی لگن ہے تو کوشش کریں ، مِل جائیگا ، تھوڑا یہاں سے ، تھوڑا وہاں سے ، اِس معمے puzzle کو جوڑیں اور پُوری تصویر بنا لیں ۔ کیونکہ ہر دور میں مورخ ایسے بھی گُزرے ہیں جنہوں نے صرف سچائی کو بیان کیا ہے بغیر پارٹی بنے ۔لیکن بس ایک گُزارش ہے کہ اگر آپ درسی کُتب کے لکھے کو ہی سچ مانتے ہیں تو بھلے مانیں لیکن پھر اُس پر بحث کرنا بھی آپ کا حق نہیں بنتا ۔
“Truth is the daughter of time, not of authority.”
Sir Francis Bacon .