’’پاکستان مشکل صورتحال میں ہے۔ چین جیسا دوست ہم سے ناراض ہے۔ ایران شکوہ کرتا ہے۔ بہت سی چیزیں ہمارے خلاف ثابت ہوچکی ہیں۔ میں انتباہ کرتا ہوں ہمارا ملک بربادی کے کنارے پر ہے۔ اسے صرف سچ بچا سکتا ہے۔ ایجنسیوں نے لشکر پال رکھے ہیں۔ ہم نے ایٹم بم بیچا۔ اتنے فوجی پاکستان کی انڈیا سے جنگ میں نہیں مرے جتنے اب مر چکے ہیں۔ مساجد محفوظ نہیں ہیں۔ کراچی جل رہا ہے۔ فاٹا اور کے پی میں مسلح لشکر کام کررہے ہیں۔ 25دسمبر 1979ء کو سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو اس جنگ کا آغاز ہوا۔ پوری دنیا نے اسلحہ کا رخ اس طرف کردیا۔ کلاشنکوف‘ جو اخبار میں دیکھتے تھے‘ وہ پورے ملک میں عام ہوگئی۔ کسی نے نہ سوچا کہ اس کے کیا نتائج نکلیں گے۔ پوری دنیا سے لوگ یہاں آ کر جمع ہوگئے۔ ایمن الظواہری جیسے لوگوں نے یہاں آ کر لوگوں کو تربیت دی۔ کرنل امام نے اعتراف کیا کہ ہم نے 95 ہزار افراد کو ٹریننگ دی۔ کسی کا پتہ نہیں رکھا گیا کہ وہ کہاں چلے گئے۔ایجنسیاں گدلے پانی میں سوئی ڈھونڈ سکتی ہیں۔ یہ کیوں ناکام ہیں؟ انہیں پھر کیوں پال رکھا ہے؟ ہمیں ہر اس شخص یا گروہ کے خلاف لڑنا ہے جو قتال کرتے ہیں۔ لوگوں کو حقائق بتائیں کہ آخر امریکہ کیوں ڈرون حملے کرتا ہے؟ آخر وہاں کوئی تو چھپا ہوا ہے۔ ہم انکار کرتے رہے کہ ہم نے بن لادن کو پناہ دی ہوئی ہے۔ امریکہ نے اسے پکڑ لیا۔ ایٹمی ہتھیاروں کی فروخت کا الزام لگا تو ایران اور لیبیا نے تسلیم کیا کہ انہوں نے ہتھیار خریدے۔ ہمیں مان لینا چاہیے کہ ہم افغانستان میں مداخلت کار ہیں۔ قبائلی علاقوں میں غیر ملکی رہتے ہیں۔ پختونوں کو کیا معلوم کہ چیچنیا کہاں ہے؟ ا فغانستان پر سکندرِ اعظم قبضہ نہیں کرسکا۔ امریکہ نہیں کرسکا۔ سوویت یونین نہیں کرسکا۔ آپ بھی نہیں کرسکتے۔ آپ کو خود مختاری عزیز ہے لیکن جب تک آپ ہمسائے کی خودمختاری کو تسلیم نہیں کریں گے اس وقت تک آپ کی اپنی خود مختاری محفوظ نہیں ہوگی۔ ہم انگریز کے سامنے بچھے جاتے ہیں لیکن خاکروب سے ہاتھ ملانے کے لیے تیار نہیں حالانکہ دونوں عیسائی ہیں۔ انسان انسان ہوتا ہے۔ فاٹا کے عمائدین سے بات کریں۔ ان غیر ملکیوں کی حکومتوں سے بات کریں اور انہیں واپس بھجوائیں۔‘‘
یہ سارے کڑوے سچ پختونخواہ عوامی ملّی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے قومی اسمبلی میںتقریر کرتے ہوئے کہے اور سارے اخبارات میں شائع ہوئے۔ اچکزئی صاحب خوش قسمت ہیں کہ یہ سب کچھ کہہ کر بھی وہ دشنام کے تیروں اور طعن و تشنیع کی برچھیوں سے ابھی تک محفوظ ہیں۔ اس لیے کہ کوئی بدبخت کالم نویس یہ سچائیاں لکھنے کی جسارت کرتا تو اب تک دائرۂ اسلام سے خارج تو ہو ہی چکا ہوتا، زندگی کے دائرے سے نکالے جانے کی خوش خبریاں بھی مل چکی ہوتیں۔ منتخب عوامی نمائندے اس جنگل کے بادشاہ ہیں۔ حفیظ جالندھری نے کہا تھا ؎
شیروں کو آزادی ہے
آزادی سے خورسند رہیں
جس کو چاہیں چیریں پھاڑیں
کھائیں، پئیں، آنند رہیں
عوامی نمائندے اسلحہ رکھنے سے لے کر مفرور رکھنے تک‘ ہر قسم کی پابندی سے مستثنیٰ ہیں۔ تحریک استحقاق انہیں ہر وہ حق دلاتی ہے جس کا عام پاکستانی سوچ بھی نہیں سکتا۔ کسان کے بچے کو گائوں میں گڑ بہت کم ملتا تھا۔ اس کا سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا۔ ایک دن کھیتوں میں کام کرتے ہوئے کسان نے دیکھا کہ بادشاہ کی سواری گزر رہی ہے۔ اس نے بچے کی معلومات میں اضافہ کرنے کے لیے اسے بتایا کہ وہ دیکھو‘ بادشاہ کے گھوڑے پر رکھی زین سونے کی ہے۔ بچہ کہنے لگا، بادشاہ کی کیا بات ہے۔ وہ تو گڑ کی زین بھی بنوا سکتا ہے۔ یہی حال ہمارے ان بادشاہوں کا ہے جو اسمبلیوں میں بیٹھتے ہیں۔ اچکزئی صاحب اس طاقت ور طبقے کا فرد نہ ہوتے تو اب تک ان کا جسم چھلنی ہوچکا ہوتا!
اچکزئی صاحب نے سچ کہا ہے ۔ جب تک سچائی کو ہم تسلیم نہیں کریں گے ہمارے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ سچ سچ ہی رہتا ہے۔ اٹھارہ کروڑ تو کیا، اٹھارہ کھرب انسان بھی سچائی کی حقیقت کو تبدیل نہیں کرسکتے۔ ہم نے اپنے گرد ایک خول بنا رکھا ہے۔ ہم نے ایک مخصوص عینک لگا رکھی ہے۔ آنکھیں یرقان زدہ ہوں تو ہر شے زرد نظر آتی ہے۔ ہم ہر مسئلے کی تان سازش پر توڑتے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں مولانا بھاشانی کے بارے میں ایک لطیفہ مشہور تھا کہ کسی نے انہیں ان کے گھر میں بچے کی ولادت کی خبر دی تو ان کا پہلا ردعمل یہ تھا کہ یہ امریکی سازش ہے!
آخر اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں کیا مضائقہ ہے کہ افغان جہاد کے سلسلے میں غلطیاں ہوئیں اور اس وقت تک پاکستانی قیادت کا وژن ان غلطیوں کا ذمہ دار ہے۔ مجاہدین کی مدد کرنا کوئی جرم نہ تھا۔ تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ ساری دنیا کے ممالک اپنے حالات کے مطابق دوسرے ملکوں کی مدد کرتے ہیں۔ چھپ کر بھی اور علانیہ بھی۔ لیکن یہ کہیں بھی نہیں ہوتا کہ آپ چالیس لاکھ مہاجروں کو اپنا پورا ملک چراگاہ کی طرح پیش کریں۔ نوکریاں، مزدوریاں، مکان، دکانیں، کھیت، باغات، ٹرانسپورٹ سب کچھ ان کی خدمت میں پیش کردیں ا ور آپ کے اپنے شہری، دوسرے درجے کی مخلوق بن کر رہ جائیں۔ پورے ملک کو، خاص طور پر خیبرپختونخوا کے صوبے کو ضیاالحق اور ان کے حواریوں کی اس کوتاہ نظر پالیسی کا بے پناہ نقصان ہوا اور یہ صوبہ سو نہیں تو پچاس سال پیچھے چلاگیا۔ آج تک اس اندھی پالیسی کے بنانے والے اس سوال کا جواب نہیں دے سکے کہ یہ کھلی چھٹی افغان مہاجرین کو ایران میں کیوں نہیں دی گئی؟
آج پاکستان میں جتنا اسلحہ ہے، اتنا شاید پورے ایشیا میں نہ ہو۔ یہ کیسی پالیسی تھی جس کے نتیجے میں بم، راکٹ اور میزائل ٹافیوں اور کھلونوں کی طرح کھلی منڈی میں بکتے رہے۔ یہ سارا اسلحہ آج پاکستانیوں کے خلاف استعمال ہورہا ہے۔ پشاور کے پہاڑوں سے لے کر کراچی کی کٹی پہاڑیوں تک ہمارے مرد‘ عورتیں اوربچے گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں اور اوجڑی کیمپ کے ’’سانحہ‘‘ کے بعد کھرب پتی ہوجانے والی اولادیں عیش و عشرت کررہی ہیں۔ ریٹائرڈ جرنیل اپنے محلات سے دانشوری بگھار رہے ہیں۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ملک تباہ وبرباد ہورہا ہے! ان حضرات کی نزدیک کی نظر اس قدر کمزور ہے کہ انہیں کوئٹہ، کراچی اور پشاور میں بہتے ہوئے خون کے دریا نہیں نظر آرہے۔ یہ اب بھی دوسرے ملکوں پر قبضہ کرنے کی تدبیریں نہیں، بلکہ تقریریں کررہے ہیں!
محمود اچکزئی کے اس سوال کا جواب کون دے گا کہ امریکہ کیوں ڈرون حملے کررہا ہے؟؟ ہم جس ملکی خودمختاری کی بات ڈرون حملوں کے حوالے سے کررہے ہیں وہ ملکی خودمختاری غیر ملکی جنگجوئوں کی آمد اور مداخلت سے کیوں متاثر نہیں ہوتی؟ یہ ملک امریکہ کے باپ کا نہیں کہ وہ ہمارے ملک پر ڈرون حملے کرے۔ یہ حملے بند ہونے چاہئیں! اسی طرح یہ ملک غیر ملکی جنگجوئوں اوربھگوڑوں کے باپ کا بھی نہیں۔ کسی غیر ملکی طالع آزما کو ہماری مقدس سرحدیں پامال کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ آخر یہ جنگجو ان ملکوں کا رخ کیوں نہیں کرتے جو اسلام کے مراکز شمار ہوتے ہیں۔ پاکستانی فوجیوں پر حملے کرکے یہ کون سا چیچنیا اور کون سا فلسطین آزاد کرا رہے ہیں؟ ہمیں امریکی ایجنٹوں سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے اور غیر ملکی مداخلت کاروں کے ایجنٹوں سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ہر دو قسم کے ایجنٹ ملک کے دشمن ہیں۔
تعجب ہے کہ سچ بولنے کی پاداش میں محمود اچکزئی کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی! اچکزئی نے ثابت کردیا ہے کہ سورج مغرب سے طلوع ہو یا نہ ہو، اسمبلی کا ممبر سچ بول سکتا ہے!!