(Last Updated On: )
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں طالع آزما ،مہم جُواور مفاد پرست درندوں نے معاشرتی زندگی سے انصاف ،خلوص ،دردمندی اور انسانی ہمدردی کو بارہ پتھر کر دیاہے ۔مجبور انسانوں کے لیے اپنی ادھوری زندگی میں مکمل جہاں کاحصول بعید از قیاس ہے ۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ خاکِ راہ بھی افلاک کی وسعتوںتک رسائی کی تمنا میںخجل ہے ۔حنظل بھی اس زعم میں مبتلا ہے کہ وہ خربوزے سے کہیں بڑھ کر خوش ذائقہ ہے ۔چشمِ بینا پر یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ وہ دِن دُور نہیں جب بھیشم پتامہ کا کہیں سراغ نہ ملے گا اور ہر طرف بہرام ٹھگ قماش کے پکھنڈی اورشکھنڈی مسخرے دندناتے پھریں گے ۔ سب سیبڑھ کر لرزہ خیز المیہ یہ ہے کہ ایسے گھر جن سے وفا کی اُمید ہوتی ہے وہاں سے سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا بروٹس قماش درندے نکل آ تے ہیں ۔ سر گودھا روڈ پر کالج کے شمال میںسڑک کے کنارے ایک تنگ و تاریک دکان جس میں روشنی اور ہوا کا گزر نہ تھا شرفو بڑھئی کو ورثے میں ملی تھی ۔ مقامی لوگ اس دکان کو عقوبت خانہ اور موت کی کال کوٹھڑی کانام دیتے تھے ۔دکان کے سامنے کیکر کا ایک درخت تھا جس کی شاخوں پر کرگس،شِپر ، زاغ و زغن اور چغد کارِ آشیاں بندی میں مصروف رہتے تھے ۔کئی گلہریاں اُچھلتی ہوئی آتیں اور پھر کیکر کے درخت کی شاخوں میں غائب ہو جاتی تھیں ۔ سو برس سے زیادہ پرانے اس درخت کے سائے میںایک شکستہ سی چارپائی پڑی رہتی تھی جہاں شرفو بڑھئی قیلولہ کرتاتھا۔اپنی کاہلی اور جہالت کے باعث شرفو بڑھئی خون کے رشتوں میں ہوس کااسیر ہو کر رہ گیا۔جوانی میں بھی وہ اپنے پست حوصلوں کی وجہ سے مضمحل و درماندہ دکھائی دیتاتھا۔اس کا مجرم ضمیر اُسے کچوکے دیتا مگر بے حسی اُس کی ڈھارس بندھاتی کہ غم نہ کر ابھی تو زندگی پڑی ہے ۔اس علاقے کے نیک لوگوں کی بے توجہی نے ا ِس ابلہ کو کُھل کھیلنے کے فراواں مواقع فراہم کر دئیے ۔لوگ شرفو بڑھئی کی عجیب زندگی کے بارے میں یہ رائے ظاہر کرتے ہیں کہ یہ ایسا کالا بھنورا ہے جوحسین کلیوں اور کونپلوں کے گرد منڈلاتا رہتاہے اور اُن کا رس چُوس کر لمبی اُڑان بھر جاتاہے ۔
صابرہ کے غریب والدین گاؤں کھیوہ کے مکین تھے ،یہی وہ گاؤں ہے جہاں صاحباں اور مرزا جٹ کی المیہ رومانی داستان پروان چڑھی ۔ صابرہ ایک غریب بڑھئی تشفی مَل کی اکلوتی بیٹی تھی ابھی وہ ایک سال کی تھی کے اس کی ماں کا انتقال ہو گیا ۔بیوی کی وفات کے دو ماہ بعد صابرہ کے باپ تشفی مل نے جو اپنی زندگی کی ساٹھ خزائیں دیکھ چُکا تھا کھیوہ کی بیس سالہ عیاش رقاصہ امیرن بائی سے دوسری شادی کر لی ۔ صابرہ کی سوتیلی ماںامیرن بائی نے گھر میںقدم رکھتے ہی صابرہ کو نفرت اور حقارت سے دیکھنا شروع کر دیا۔ بچپن ہی سے صابرہ بہت خوب صورت لڑکی تھی ۔ سیاہی وال سے تعلق رکھنے والی بزرگ خواتین کا کہنا ہے کہ جب صابرہ نے جوانی کی حدود میں قدم رکھا تو وہ چندے آفتاب چندے ماہتاب تھی ۔کئی عیاش اُلّو اور متمول اُلّو کے پٹھے اس حسینہ کے والد تشفی مَل اور سوتیلی ماں امیرن بائی کو اس کے رشتے کے حصول کے لیے رام کرنے کے جتن کرتے تھے ۔صابرہ کے حُسن کے شیدائی نو جوان لڑکے جوق در جوق اس کے والدین کے گھر پہنچتے اور اظہار مدعا کرتے تھے ۔اس اثنامیں عادی درو غ گو اور پیشہ ور ٹھگ شرفو بڑھئی کئی حریص دلالوں کو لے کر منظر عام پر آیا ۔اس عیار بڑھئی کی چنگیزیت کو دیکھتے ہی سب مفت خور اور حرام خور ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔سرمایہ بھی عجیب رنگ دکھاتاہے اسی کے بل پر مایا کے ڈھنگ سامنے آتے ہیں ۔ جس طرح شرفو بڑھئی نے غاصبین ِحُسن و جمال کے گروہ اور انڈرورلڈ کے تعاون سے بوڑھے تشفی مَل اور نوجوان امیرن بائی کو رام کر لیا اسے دیکھ کر سب لوگوں نے اسے مایا کا کمال قرار دیا۔شرفو بڑھئی اور صابرہ مائی کی منگنی اور بیاہ کی عینی شاہد دائی نوراں نے بتایا :
’’ بچپن ہی سے شرفو بڑھئی صابرہ کے حسن کا گرویدہ تھا اور اُسے اپنی شریکۂ حیات بنانے کے لیے بے قرار تھا۔ اس مقصدکے لیے اُس نے صابرہ کی سوتیلی ماں امیرن بائی کو زیرِ دام لانے کا تہیہ کر لیا۔ وہ جانتاتھا کہ جنسی جنون اور مال و دولت کی مجرمانہ حرص و ہوس کی ہلاکت خیزیوں اور تباہ کاریوں کی کوئی حد ہی نہیں ۔اس سیلِ بے اماں کی زدمیں جو کچھ بھی آتاہے وہ نیست و نابود ہوجاتاہے مالی منفعت کی ہوس نے انسانیت کو غرقاب کر دیا اور صابرہ کی ظالم و سفاک سو تیلی ماں امیرن بائی نے صابرہ کا سودا کر نے کا فیصلہ کر لیا ۔ شرفو بڑھئی نے امیرن بائی کے تقاضے پر اپنی ماں اور بہنوں کے دس تولے سونے کے زیورات چوری کیے اور وہ امیرن بائی کے حوالے کر دئیے ۔امیرن بائی کی اُٹھتی جوانی تھی اور وہ بُڈھے کھوسٹ تشفی مَل سے نفرت کرتی تھی مگر اس کی دولت اور مکان کی خاطر اُس کے ساتھ وقت گزار رہی تھی ۔ امیرن بائی خود بھی شرفو کی جوانی سے متاثر تھی اور موقع ملتے ہی وہ اِس راسپوٹین کو اپنے پاس بُلا کر تسرینہ کی طرح اپنے دِل کے افسانے دہرانے لگتی تھی ۔صابرہ نے جب جوانی کی حدود میںقدم رکھا تو اس کی کفالت کرنے والی سوتیلی ماں امیرن بائی نے اس کی شادی شرفو بڑھئی کے ساتھ کر دی ۔‘‘
صابرہ جب شرفو بڑھئی کے گھر میں پہنچی تو سب لوگ حیران رہ گئے کہ لنگو ر کے ساتھ حُور کا بیاہ کیسے کر دیا گیا؟ صابرہ سوچنے لگی تقدیر اُسے کیسے گھر میں لائی ہے جس میں گھر کے آثار کہیں دکھائی نہیں دیتے،نہ تو مناسب چھت ہے اور نہ ہی چار دیواری ۔آٹھ مربع فٹ کا ایک دُکان نما مکان جس کی اونچائی سات فٹ تھی۔ اینٹوں اور گارے سے تعمیر کی گئی اس کال کو ٹھڑی کی چھت سر کنڈے کی پتلوں اور کیکر کے ٹیڑھے بالوں اور ایک شہتیر پر کھڑی تھی جو کسی بھی وقت گِر سکتی تھی ۔ شام کو جُھٹ پٹے کے وقت صابرہ جب مٹی کا دیا جلاتی تو اُسے اپنی بینائی بُجھتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ دیواروں پر کچی مٹی کی لپائی تک نہ کی گئی تھی ، نا ہموار فرش کچا تھا اور جگہ جگہ پر گڑھے پڑ گئے تھے ۔ ان گڑھوں میں چمگادڑوں کا ضماد بھرا تھا ،دیواروں پر ہمہ وقت چھپکلیوں کی دوڑ جاری رہتی تھی اوراُدھڑی ہوئی شکستہ چارپائیوں کے نیچے بڑی تعدا میں کاکروچ ،چیونٹیاں اور کیڑے مکوڑے رینگتے رہتے تھے ۔قبر جیسی خاموشی میں گھری اس جگہ پرجن حشرات کا بسیراتھا ان میں بچھو ،کن کھجورے ،ٹڈی ،بِھڑ ،کھٹمل اور پِسوشامل ہیں ۔دُکان میں لگا لکڑی کا دیمک خوردہ ٹُوٹا پُھوٹا دروازہ زبان ِ حال سے یہ فریاد کر رہا تھا شرفو بڑھئی کی سفاکی اورگرد و نواح کے صاحب استطاعت باشندوں کی بے حسی کے نتیجے میںاس عقوبت خانے میں محبوس کم سِن بچوں اور ان کی بے بس و لاچار والدہ کے مقدر پُھوٹ گئے ہیں۔برسات کے موسم میں چھٹ ٹپکنے لگتی تھی ۔اس دکان نما مکان کے ارد گرد نشیبی جگہ پر گندے پانی کا جوہڑ تھا جس میں پور ے محلے کی گندی نالیوںکا پانی آکر جمع ہوجاتاتھا جس میں مکھیاں اور ڈینگی مچھر پروان چڑھتے تھے ۔ اس جگہ سے عفونت و سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے تھے اور کرونا وائرس کے شددی خطرات تھے۔ متعفن پانی کے اس جو ہڑ کے کنارے ہر طرف خشک ببول کے کانٹے بکھرے پڑے تھے۔ شرفو بڑھئی کا گھر دیکھ کر ایسامحسوس ہوتا تھا کہ جزیرۂ بے حسی میں گھرے اِس گھروندے کی تباہی یقینی ہے ۔ واقفِ حال لوگوں کاکہنا ہے کہ رات کی تاریکی میں شرفو بڑھئی کی ا س پُر اسرار کال کوٹھڑی کے ارد گرد کے آسیب زدہ علاقے پر جِنوں ، آدم خوروں ،بُھوتوں ،ڈائنوں او رچڑیلوںکا راج ہوتا ہے جہاں وہ بغیر کسی احتیاط کے اختلاط سے اپنے جذبات کی تسکین کرتے ہیں۔اس عقوبت خانے کے ارد گرد شرفو بڑھئی کے خاندان کے بیس خوش حال گھرانے بستے تھے مگر کسی نے بھی شرفو بڑھئی کے ساتھ کسی قسم کا تعاون نہ کیا۔ اسے کسی گھر سے پینے کے لیے پانی لینے کی اجازت نہ تھی ۔ افلاس کا جبر سہنے والے شرفو بڑھئی کے اہلِ خانہ نے سوئی گیس اور بجلی کا بِل ادا کرنے کے وعدے پر سرِ گرداب متعدد بار اپنے پڑوسیوں کو مدد کے لیے پکارا مگرہر طرف بے حسی کاعفریت منڈلا رہاتھاکوئی اُن کی مدد پر آمادہ نہ ہوا۔ فلاحی تنظیموں کے کارکن امدادی رقوم اندھے کی ریوڑیوں کی طرح اپنے پسندیدہ لوگوں میں تقسیم کرتے تھے مگر شرفو بڑھئی کی طرف کوئی نہ دیکھتاتھا۔ صابرہ کے ساتھ شادی کے بعد شرفو بڑھئی نے سڑک کے کنارے واقع اپنے اس عقوبت خانے کے گرد چار لکڑیاں زمین میں گاڑ دیں اور لنڈے بازار سے ایک بوسیدہ سا کپڑ اخرید لایا ۔کسی مرے ہوئے گورے کی یادگار اِس عفونت زدہ اور بد وضع کپڑے کو لکڑیوں سے باندھ کر چار دیواری اور پردے کی ایک صور ت دی۔کچے کوٹ روڈ سے کباڑی کی دکان سے شرفو بڑھئی ایک پرانا نلکا اُدھار پر لایا ۔اسی عقوبت خانے کے باہر زمین میںبور کر کے نالی اور فلٹر کوزمین میں گاڑ دیا اور ہینڈپمپ چالو کر دیا تاکہ پینے کا پانی میسر ہو جائے ۔خاتون ِخانہ کے غسل اور رفع حاجت کے لیے بھی وہیں انتظام کر دیا۔ اس بے جوڑ شادی کو آ ٹھ بر س بیت گئے اور شرفو بڑھئی کی چار بیٹیاں پیدا ہوئیں ۔شرفو بڑھئی کی بیٹاں اسی تنگ و تاریک کال کوٹھڑی کے اذیت ناک ماحول میں پروان چڑھنے لگیں۔ صابرہ مائی نے جب یہ محسوس کر لیا کہ اُس کی چار بیٹیوں اور اُس کی خاطر شرفو بڑھئی اپنا طرز ِ عمل نہیں بدل سکتا تو اُس نے اپنی سوچ کو بدل ڈالااور اپنے دُکھوں سے سمجھوتہ کر لیا وہ اکثر یہ بات دہراتی کہ اُس کے والدین نے اُسے جس گھر میں پہنچایا ہے وہ زندگی بھر وہیں رہے گی اور یہاں سے اُس کا جنازہ ہی اُٹھے گا۔
سردیوں کے موسم میں جب شرفو بڑھئی کے اس تنگ و تاریک کمرے میں لکڑیوں کی آگ جلائی جاتی تو لکڑیوںکے دھویں سے کمرہ بھر جاتا اور صابرہ اور کی چاروں بیٹیوں کا دم گھٹنے لگتا۔ شرفو بڑھئی جب رات گئے اپنے کام سے واپس آتا تو اُس کی بیٹیاں چٹنی سے خشک روٹی کھا کرسو چکی ہوتی تھیں ۔شرفو بڑھئی اپنی پسند کا مزے دار کھانا شہر کے کسی مہنگے کسی ہوٹل سے کھا کر آتا اور آتے ہی مُردوں سے شرط باندھ کر سو جاتا۔گرمیوں کے موسم میں شرفو بڑھئی کی کٹیا میں نہ بجلی اور نہ ہی کوئی پنکھا۔سرگودھا روڈ کی مغربی جانب سڑک کی جانب گندے پانی کے مستقل طور پر کھڑے رہنے کی وجہ سے کمرے کی دیواروں میں نمی آ گئی تھی ۔ غلیظ فنجائی، کریہہ الجی اور گندگی کی وجہ سے اس جگہ چھچھوندر، کنڈیالے چوہے ، مینڈک، چوہے ،کینچوے،خار پُشت ، نیولے اور سنپولیے بھی دیکھے گئے ۔ رات کے وقت حفاظی بند کی طرف سے آنے والے گیدڑ کھیتوں میں اس قدر شور مچاتے کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی ۔ شرفو بڑھئی نے تو صابرہ کا ڈھانچہ بھی اپنا راتب سمجھ رکھا تھا۔ صابرہ جو اپنی ذات سے بھی مُکر چُکی تھی اور وہ سیکڑوں قرینوں سے زندگی کا زہر پینے پر مجبور تھی ۔اس قسم کے سہم ناک ماحول میں صابرہ کی چار کم سِن بیٹیاں چیخ پکار کرتے ہوئے اپنی ماں سے لپٹ جاتیں مگر الم نصیب ،بے بس و لاچار صابرہ اپنی قسمت سے محروم بیٹیوں کو کسی قسم کاتحفظ دینے سے قاصر تھی۔کسے معلوم تھا کہ جس مقام کو صابرہ نے خیمہ گہِ وصال سمجھ رکھا تھااُسی جگہ پر اپنی بیٹیوں سے دائمی مفارقت کا پیغام آئے گا۔
سڑک کے کنارے کھڑے خزاں رسیدہ بوڑھے اشجارپر بیٹھے چغد اور زاغ و زغن زبانِ حال سے کہہ رہے تھے کہ ان درختوں کی ٹہنیوں پربھوتوں اورعفریت کا سایہ ہے ۔کافی عرصے سے یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ شرفو بڑھئی کی کال کوٹھڑی آسیب زدہ تھی ۔کالا باغ سے تعلق رکھنے والے جبرو گورکن نے بتا یا کہ اس پُر اسرار کوٹھڑی نے جن لوگوں کو نگل لیا ان میں سوہارا،سلہی ، سلطان ،یارا،گلام ،وریام اور کھان جیسے معتبر اشخاص شامل ہیں۔صابرہ جن لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات سے دو چار تھی انھیں دیکھ کر اس بستی کے ایک جہاں دیدہ بزرگ دتو گھومی نے کہا:
’’ میں نے شاہی قلعہ لاہور کی وہ سرنگ اور عقوبت خانہ دُور سے دیکھا ہے جس میں جابر قوتیں اپنے سیاسی مخالفوں کو اذیت و عقوبت میں مبتلا رکھنے کے لیے پابند ِ سلاسل رکھتی تھیں۔ صابرہ مائی نے جس عقوبت خانے میںسانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پورے کر ر ہی ہے دنیاکے سارے عقوبت خانے اُس کے سامنے ہیچ ہیں۔ اتنے دُکھ تو امریکی صدر بش کے سال 2002ء میں کیوبا میں بنائے گئے گوانتا ناموبے (Guantanamo Bay ) کے اسیروں کو بھی نہیں دئیے گئے تھے ۔ صابرہ مائی کوحسین خوابوں اور اُمیدوں کے کھلونوں سے بہلا کر اُسے اس عقوبت خانے میں لانے والے شرفو بڑھئی نے بڑ ی عیاری سے راستہ بدل لیا اور قفسہ بائی کے قحبہ خانے میں گل چھرے اُڑانے لگا۔ صابرہ مائی کو اُس کے شوہرنے جس قسم کے ماحول میں رکھا وہ انسانیت پر کوہِ ستم توڑنے کی لرزہ خیزمثال ہے ۔وہ دُکھوں کے کالے کٹھن پہاڑ اپنے سر پر جھیلتی رہی مگر اُس کی داد رسی کو کوئی نہ پہنچا یو ںاُس کے سب خواب ہواؤں میں بکھر گئے ۔ مجھے تو ایسے لگتاہے کہ جس طر ح حسن ناصر کو شاہی قلعہ میں عقوبت کا سامنا کرنا پڑا گردِ شِ ا یام صابرہ مائی کو بھی گھریلو اذیت اُسی جانب لے جا رہی ہے ۔لوگ کہتے ہیںکہ کالی دیوی کے اس مسکن میں جہاں صابرہ مائی کا ٹھکانہ ہے اب اسے ایک مر گھٹ کی صور ت حاصل ہو گئی ہے ۔اس سے پہلے کہ کالی دیوی مظلوم صابرہ مائی کی زندگی کی مشعل بجھا دے درد آشنالوگوں کواس بے بس عورت کو یہاں سے نکال کر کسی محفوظ مقام پر پہنچادینا چاہیے ۔ ‘ ‘
بستی کے کئی مکینوں نے شرفو بڑھئی سے اس موضوع پر بات کی مگر وہ چکنا گھڑا سارے معاملے سے بے تعلق بن جاتا اور ہر وت ہنہناتا رہتا۔وہ ہر بار یہی کہتا کہ اگر وہ لبِ سڑک واقع اس کمرشل دکان سے باہر نکلا تو لینڈ مافیا اورانڈر ورلڈ کی شہ پر اُس کے لالچی رشتہ داراس کی دس لاکھ روپے مالیت کی قیمتی آبائی میراث پر قبضہ کر لیں گے ۔صابرہ مائی کو بھی اپنی تکلیف کا احساس تھااُس کی مزاج آ شنادائی نوراں نے شرفو بڑھئی کے عقوبت خانے میں جاکرجلاد منش شرفو بڑھئی کو سمجھانے کی کوشش کی :
’’ شرفو بڑھئی !تم فاتر العقل اور مخبو ط الحواس درندے ہو،تم کتنے بے حِس اور بے شرم بھڑوے ہو کہ تمھیں اپنی بیوی اور چار بیٹیوں کے مصائب و آلام کا کچھ علم ہی نہیں ۔آبائی ورثے میں ملنے والی دُکان بچانے کی تو تمھیں فکر ہے مگر اذیتوں اور عقوبتوں میں گرفتار اپنی مظلوم بیوی کی جان بچانے کے بارے میںتم بالکل نہیں سوچتے ۔تمھاری درندگی اور سفاکی نے صابرہ مائی کو جیتے جی مار ڈالا ہے ۔تم جو کچھ کماتے ہو وہ سیاہی وال کی رذیل طوائفوں قفسہ بائی اور مصبو کے قدموں میںڈھر کر دیتے ہو۔بے چاری صابرہ مائی دولت مند لوگوں کے گھروں میں کام کر کے نہ صرف اپنا اور اپنی چار بیٹیوں کا پیٹ پالتی ہے بل کہ تمھیں بھی کھانا کھلاتی ہے ۔ دو سال قبل صابرہ مائی کے باپ کا انتقال ہو گیا ہے اور اِس کی سوتیلی ماں نے ایک امیر نوجوان لڑکے سے دوسری شادی کر لی ہے ۔صابرہ مائی کا کوئی اور بھائی یا بہن نہیں ہے جو اِس کی خبر گیری کو پہنچے ۔تم صابرہ مائی کی مظلومیت پر تر س کھاؤ اور اسے اور اس کی کم سِن بچیوں کواِس عقوبت خانے سے نکال کر کسی مناسب جگہ پر منتقل کر دو ۔‘‘
اپنی محسن اور درد آشنادائی نوراں کی باتیں سُن کر صابرہ مائی نے کہا:
’’ جب سے میں مشکل حالات کے گرداب میں پھنسی ہوں کئی مخلص رشتہ دار اور قریبی احباب بھی ہم سے نظریں چُرانے لگے ہیں ۔میں کسی کی شاکی نہیں بل کہ اپنی مصیبتوں کو قسمت کا لکھا سمجھ کر میں نے قبول کر لیا ہے ۔میرے ہاتھوں کی لکیروں کی نحوست اور نصیب نے مجھے ذلت اور اذیت کے اس مقام پر پہنچا دیا ہے ۔یہاں پہنچ کر ایسی بازی پلٹی ہے کہ میری جان پہ بن آ ئی ہے ۔یہاں کے جوہڑ کے ساتھ جو گہری کھائی ہے وہ شاید مجھے لے ڈُوبے گی ۔‘‘
دائی نوراں نے جب صابرہ مائی کی باتیں سُنیں تو اُس نے رونا شروع کر دیا اور کہا :
’’شرفو بڑھئی نے جس بے دردی اور غیر انسانی انداز سے تمھیں اور تمھاری معصوم بیٹیوں کو اس کال کوٹھڑی میں قید کر رکھا ہے وہ اس کی بے ضمیری کی انتہا ہے ۔ گھنے جنگلوں میں خاردار جھاڑیوں میں رہنے والے درندے بھی شرفو بڑھئی سے کم خونخوار ہیں ۔ صابرہ مجھے تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ تمھار ا دِل ایک ہٹیلا بالک ہے جوتمھیں اپنے باپ کے اِس اذیت ناک بندھن سے نکلنے ہی نہیں دیتا۔ اپنے شوہر شرفو بڑھئی کی ہر جفا کے بعد تم نے وفا کو شعار بنا یا اور ہمیشہ صبر و تحمل سے کام لیا ۔اس مُوذی کے ستم سہنے کے بعد تمھاری روح زخم زخم او ر دِل حزیں کرچی کرچی ہو گیا ہے مگر تم نے لب ِاظہار پر تالے لگارکھے ہیں ۔‘‘
مکر و فریب اور بے وفائی کا ماہر شرفو بڑھئی اب تک خاموش بیٹھا تھا اچانک وہ کفن پھاڑ کر ہرزہ سرا ہوا:
’’ دائی نوراں تم ہمارے گھریلو معاملات میں دخل دینے والی کون ہوتی ہو ؟تم اپنی راہ لو ،ہم وہی کریں گے جو ہمارا جی چاہے گا۔ اپنے گھر میں اگر آگ نہ جلے تو میں کسی دوسرے گھر کے آتش دان سے اپنے جسم کو گرم کیوں نہ کروں ؟‘‘
دائی نوراں نے شرفو بڑھئی کو بر ملا کہا:
’’ شرفو بڑھئی ! تم کاٹھ کے اُلو اور تھالی کے بینگن ہو ۔تمھیں کچھ سمجھانا بھینس کے آ گے بین بجانے والی بات ہے ۔یہ بات یاد رکھو کہ مظلوم صابرہ مائی اور اُس کی معصوم بیٹیوں کے ساتھ تم نے جو غیر انسانی سلوک کیا ہے اُس سے نہ صرف تمھاری ذات بل کہ تمھارا پورا خاندان داغ دار ہو گیا ہے ۔ تم کتنے ظالم ہو کہ اپنی چار بیٹیوں اور بیوی کی راہ خار ِ مغیلاں بکھیر رہے ہو۔اگر اس مظلومہ کو کچھ ہو گیا تو تمھارے کریہہ چہرے پر ایسی کالک لگے گی کہ تم دنیا والوں سے منھ چھپاتے پھرو گے ۔اس آسیب زدہ عقوبت خانے کے دروازے پر کھڑے ہو کر تم کس کے انتظار میں اپنے جی کا زیاں کرتے ہو؟تمھاری بے حسی ،سفاکی ،بے غیرتی اور بے ضمیری دیکھ کر سب لوگ تم سے متنفر ہو چُکے ہیں۔ ‘‘
شرفو بڑھئی سے لکڑی کا کام کرانے والا سیاہی وال کے نواحی قصبے اُٹھان کوٹ میں مقیم رمجانی نامی ایک ٹھگ تیلی جو سدا تیل اور تیل کی دھار دیکھ کرفیصلے کرتا تھا عجیب مخمصے میں مبتلا ہو گیا۔ اگرچہ رمجانی ایک پیشہ ور ٹھگ اور عادی دروغ گو اُٹھائی گیرا تھامگر اُس کی اہلیہ نائکہ قفسہ بائی اور اُس کے قحبہ خانے کی جنسی کا رکن لڑکیاں مصبو،سمی ،شگوفہ ،صباحت ،شعاع،رابی ،پینواور ساحرہ نے اُس کاناک میں دم کر رکھا تھا۔رمجانی ٹھگ نے سیال کوٹ میں پورن بھگت کے کنویں کے پاس بہت تپسیا کر کے کئی شیطانی قوتوںکو اپنا تابع بنا رکھا تھا۔نائکہ قفسہ بائی نے کالی دیوی سے پیمان وفا باندھ رکھا تھا ۔ رات کی تاریکی ،سناٹے ،خراٹے ، شیطانی طاقتوں ،کالے جادو کے ماہر عاملوں اور جنت منتر کرنے والوں کی مددسے رمجانی ٹھگ رات کی تاریکی میں اکثربھوت کا بھیس بناکر نائکہ قفسہ بائی کے قحبہ خانے کے گرد منڈلانے لگتا ۔ تپسیا کے دوران میں موت کے دیوتا تھانا ٹوس ( Thanatos) نے رمجانی ٹھگ پر یہ بات واضح کر دی تھی کہ بھیس بدلنے کے بعد کبھی بھی اپنے کریہہ چہرے کو نہ دیکھنا ۔ تھانوٹوس کی طاقت سے رمجانی ٹھگ سفلگی اور خست و خجالت کی جن قباحتوں کو عام کرتاتھا ان میںپیمان شکنی ،فریب کاری ،محسن کُشی ،الزام تراشی ، دھینگامشتی ، کینہ پروری ،حسد ،بغض و عناد،انتقام اور قتل و غارت شامل ہیں۔ اس خوف ناک بھوت کو دیکھ کر قحبہ خانے میں رقص کرنے والی سب طوائفیں اور اُن کے دیوانے اپنا زرو مال وہیں چھوڑ کر جان بچانے کی غرض سے وہاں سے رفو چکر ہو جاتے تھے ۔رمجانی ٹھگ دبے پاؤں قحبہ خانے میں داخل ہوتا اور وہاں پڑے سب کر نسی نوٹ لُوٹ لیتاتھا۔ شرفو بڑھئی بھی رمجانی ٹھگ کے مشورو ںپر عمل کرتا اور اُس سے کالے جادوکے ذریعے زرومال جمع کرنے کے طریقے معلوم کرتاتھا۔
جب نائکہ قفسہ بائی کو اپنے بھڑوے شوہر رمجانی ٹھگ کے اس فریب کا علم ہوا تو اُس نے زندگی کی اس کشمکش اور مایوسیٔ مآل حرص وہوس سے گھبرا کر شہر کے اُن لوگوں سے رابطہ کیاجو شیشوں کے مسیحا اور خوابوں کے صورت گر سمجھے جاتے تھے۔ سب نے فریبِ مشیت سے ہراساں ہو کرچپکے چپکے ستم سہنے اور آہیں بھرنے والی اس نائکہ کو بتایا کہ اپنے قحبہ خانے کے انتہائی ابتر حالات میں حسب ِ منشاتبدیلی لانے کے لیے اُنھیں کالی دیوی کی جانب رجوع کرنا پڑے گا۔ سردیوں کی رات کی تاریکی میں نائکہ قفسہ اور طوائف مصبونے حسب معمول سیفو کے مزاج کے مطابق یک جان دو قالب ہو کر ایک ہی بستر میں وقت گزارا ۔اسی اثنا میں کالی دیوی اور پاروتی دونوں نے نائکہ قفسہ بائی اور رذیل طوائف مصبو کے فکر و احساس میں یہ زبردست ترکیب سُجھا دی :
’’ رشتۂ اُمید توڑنے میں عجلت سے کام نہ لو بل کہ تم اپنے قحبہ خانے کی سب دیواریں بڑے بڑے آئینوں سے سجا دواور وہاں سب جنسی کا رکنوں اور اُن کے پرستاروں کو اکٹھا کر دو۔ تمھارے قحبہ خانے میں کام کرنے والی جنسی کارکن اپنے قلب و جگر کے ولولے اُبھار کر جب لباس فطرت میں وہاں محفل رقص و موسیقی میں اپنے فن کا مظاہرہ کریں گی تو رات کی تقدیر سنور جائے گی اور سب کچھ تمھاری مرضی کے مطابق ہو جائے گا اور یہ الزام کسی اور کے سر نہیں جائے گا۔اس ترکیب سے تمھارے دِلِ حزیں سے آستین کے سانپوں کی سادیت پسندی کابوجھ اُتر جائے گا ۔بہت جلد غم کے بادل چھٹ جائیں گے ،سوگ کا ماحول ختم ہو گا اور اس کے بعد تمھارے اعدا کی بربادیوں کا جشن منانے کا وقت آجائے گا ‘‘
اگلی شام نائکہ قفسہ بائی نے اپنے قحبہ خانے میں ایک محفل رقص و موسیقی کااہتمام کیا۔ جب یہ محفل رقص و موسیقی رنگ پر آ ئی تو حسب ِ عادت رمجانی ٹھگ بھی بھیس بدل کر شرفو بڑھئی کے ہمراہ وہاں آ پہنچا۔ اُس نے شرفو بڑھئی کو باہر رُکنے کا اشارہ کیا اور خود دبے پاؤں چور محل میں گُھس گیا۔اس مہم جوئی میںمرگِ نا گہانی رمجانی ٹھگ کے تعاقب میں تھی ۔ خلا ف توقع رمجانی ٹھگ نے جوں ہی آ ئینوں میں اپنی کریہہ صور ت دیکھی وہ حواس باختہ ،غرقابِ غم اور نڈھال ہو گیا۔ اس نا ہنجار نے ایسی دردناک چیخ ماری جو آواز کے گھنے جنگلوں میں پہلے کبھی سنائی نہیں دی ۔ اس کے ساتھ ہی وہ درندہ موجود کی لکیر کی نہایت پر منھ کے بل فرش پر گِر ا اور اُس کی آ نکھوں سے جوئے خوں رواں ہو گئی ۔اُس کے منھ اور ناک سے بہنے والے خون سے فرش تر ہو گیا۔کچھ دیر بعد اُس نے سسک سسک کر وہیںدم توڑ دیا ۔‘‘
رمجانی ٹھگ کی ہلاکت کے بعد شرفو بڑھئی اس خوف سے وہاں سے بھاگ نکلا کہ کہیں اس خون کاالزام اُس کے سر نہ جائے ۔ شرفو بڑھئی نے اپنے عقوبت خانے میں پہنچ کر پناہ لی ۔
مظلومہ صابرہ مائی کی کم سِن بیٹیوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے لیے آنے والی ایک نرس نے اس کی ایک دُور کی ر شتہ دار کے حوالے سے اس کی خراب و خستہ یاد اور دائمی مفارقت دینے والی کی بے سُر و ساز نا مراد زیست کے بارے میں بتایا:
’’ صابرہ مائی نے قدم قدم پر انتہائی جان لیوا صدمات بر داشت کیے ۔ وہ ایسی گوشہ گیرِ تنہائی تھی جہاں کے دیار و صحرا میں اُس کی فغاں سننے والا کوئی نہ تھا۔ ہر طر ف کی فضا دھواں دھواں تھی اور اُسے اُمید کی کوئی کرن دکھائی نہ دی ۔اُس آبلہ پا کی آ نکھوں میںتیزدُھوپ کے نیزے گڑے رہے مگر اس نے خار زار حیات میں اپنا سفر جاری رکھا۔بے حِس لوگوں کی بِھیڑ سے نکل کر شہر خموشاں کی جانب سفر کرنے سے پہلے ان مظلوموں نے بہت آہ و فغاں کی مگر اس شہر ِ سنگ دِل کے بے حِس لوگوںنے آلامِ روزگار کے پاٹوں میں پِسنے والی اس عورت کو قلزم ہستی کے گرداب سے نکالنے کے لیے کچھ بھی نہ کیاجب اُس کے دِل کا باغ ِ نمو ہی اُجڑ چکا تھا تو زندانیانِ شام و سحر اورسامانیانِ بے سر و ساماں مصنوعی انداز میں کف ِ افسوس ملنے لگے ۔‘‘
حرص و ہوس کی جادوگری پر انحصار کرنا رسوائے زمانہ نائکہ قفسہ بائی اور طوائف مصبوکا وتیرہ تھا۔صابرہ مائی کی دُکھ بھری زندگی کو دیکھ کر سیاہی وال کے ٹھگوں نے اپنے ترکش کا ایک اور تیر چلانے کا فیصلہ کر لیا۔ اپنی پُر نم آ نکھوںکو جھپک کر لبوں سے شعلے اُگلنے والی طوائف مصبو نے اپنی ماں نائکہ قفسہ بائی سے کہا:
’’ میںسوزِ غم میں گھرے شرفو بڑھئی کو اپنی نگہ لطف ،طرز تکلم اورعشوہ و غمزہ و ادا سے اپنی راہ پر لانے میں کامیاب ہو گئی ہوں ۔ وہ جو کچھ بھی کماتاہے وہ میر ے قدموں میں ڈال دیتاہے ۔ اگر ہم صابرہ مائی کو شرفو بڑھئی سے الگ ہونے پر قائل کر لیں اور وہ اپنی چاروں بیٹیوں سمیت ہمارے پاس چلی آ ئے تو ہماری پانچوں گھی میں ہوں گی ۔‘‘
نائکہ قفسہ بائی نے اپنی بکھری زلفوں کو جھٹک کرکہا:
’’ عالمی وبا کورونا کے باعث تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں تم نے اچھا ارادہ ظاہر کیا ہے ۔سماجی فاصلوں کی پابندی کے نتیجے میں ہمارا قحبہ خانہ ویران ہوگیاہے اور خرچی کی کمائی کم ہو گئی ہے ۔صابرہ مائی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ہواؤں کا رُخ بدل چُکاہے۔ تم نے شرفو بڑھئی کو زیر ِ دام لانے کے لیے جو محنت کی ہے وہ قحبہ خانے میں تمھاری پیشہ ورانہ زندگی کا کما ل ہے ۔شرفو بڑھئی اب اپنے بنائے ہوئے عقوبت خانے کے بجائے کسی دوسرے کے گھر کا مکین ہے ۔ صابرہ مائی اس حقیقت سے بے خبر نہیں کہ وہ ایک ایسے عقوبت خانے میں پھنس گئی ہے جہاں سے نکلنے کا نہ تو کوئی رستہ ہے اور نہ ہی کوئی دیار ہے جہاں وہ پنا ہ لے سکے ۔اپنے گم شدہ شام و سحرکے نقصان کا خمیازہ اُٹھانے کے بعد صابرہ مائی ہمارے پاس چلی آ ئے گی اور صرف دس برس کے بعد اس کی چاروں بیٹیاں ہمارے قحبہ خانے کا بیش بہا اثاثہ ثابت ہوں گی ۔ اس کے بعد ہمارے قحبہ خانے میں ہُن برسنے لگے گا۔ ‘‘
مصبو کی یادداشت پر ایسا قہر ٹُوٹا کہ اُسے اپنے ماضی کے وہ حالات بھول گئے جب اس کی دادی اُون کات کراور متمول لوگوں کے گھر میں کام کر کے گزراوقات کرتی تھی۔ اس عیار طوائف کی ادائے دلبرانہ اور جفائے سپردگی اس قدرجا ن لیوا تھی کہ مخاطب کے پورے جسم پر سانپ سا لوٹنے لگتا تھا۔ چند لمحوں کے لیے اُس نے صابرہ مائی کی بیٹیوں کی اُٹھتی جوانی کے بارے میں سوچا۔اس کی وادی ٔ خیال میں ایک دھنک رنگ منظر نامہ سامنے آیا اور حُسن و خوبی کے کئی استعارے چشم ِ تصور میںگھومنے لگے۔ خوابوں کی رسیا طوائف مصبو نے تعبیر کی جستجو میں صابرہ مائی کے قلب و جگر میں لگی آگ کے شعلوں کو ہوا دیتے ہوئے کہا :
’’ اس جگہ آتے جاتے مجھے طویل عرصہ بیت گیاہے ۔تمھارے شوہر کی بے حسی نے تمھیں جیتے جی مار ڈالا ہے ۔اس شہر ِ سنگ دِل کا ہر پتھر شرفو بڑھئی کو پہچانتاہے مگر تمھیں ابھی تک اس کی اصلیت معلوم نہیں ہو سکی ۔تمھار ے گھر کے آ نگن میں چار کلیاں کِھل اُٹھی ہیں، میں انھیں اپنے پاس لے جاؤں گی اور وہاں ان کی مہک سے پورا ماحول معطر ہو جائے گا۔میرے گھر میں تمھاری پیاس بجھانے کے وافر سامان موجود ہیں ۔ تمھیں اپنے مصائب و آلام پہ رونے کا سلیقہ ہی نہیں اس لیے یہاں سے گزرنے والے لوگ تمھاری بے بسی پر ہنستے ہیں ۔شرفو بڑھئی بہت بے حس ہے وہ طوفانِ حوادث کو اشارہ کر کے تم سے تعلق توڑ چکا ہے ۔مجھے ڈر ہے کہ تم نے اُمید کی جو شمع جلا رکھی ہے وہ اب بجھنے والی ہے ۔ تم ابھی جوان ہو اور تمھارے اندر جنس و جنوں اور رومان و پیار کی حسرتوں کا جو الاؤ بھڑک رہا ہے اُسے بجھانا بہت ضروری ہے ۔تم بلا تاخیر ہمارے پاس آ جاؤ ،ہم تمھاری خاطر کسی نئے چاند کو اشارہ کرکے اپنے قحبہ خانے کی چھت پر بُلا لیں گے ۔جب کہکشاں پر تمھاری بیٹیوں کی صورت میں نئے ستارے جگمگائیں گے توہر طرف چکا چوند ہوگی ۔یہ حسین پھول ہیں انھیں گل دان میں سجاناوقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔‘‘
جب مصبو نے صابرہ مائی سے بازاری لہجے میں اپنے ہاںآنے کی بات کی تو صابرہ مائی نے اُسے ترکی بہ ترکی جواب دیا:
’’ مصبو!میرے منھ نہ لگو اگر تم تیامت ہو تومیں بھی قیامت کی حساس ہو،تمھارا تعلق تیسری جنس سے ہے تمھیں مامتاکی محبت کے بارے میں حقائق معلوم نہیں۔ یہ سچ ہے کہ گردشِ ایام نے میری نیندی اُڑا دی ہیں مگر میرے خواب تمھاری سوچوں کی طرح ہیچ نہیں۔ قدرت ِ کاملہ نے مجھے تخریب سے بچایا ہے اور میں نے ہمیشہ تعمیر پر توجہ مرکوز رکھی ہے ۔میں یہ بات تسلیم کرتی ہوں کہ تقدیر نے مجھے خس و خاشاک کے مانند در بہ در اور خاک بہ سر کر دیا مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سمے کے سم کے مسموم ماحول میں جو طوفانِ حوادث آئے انہی سے کارِ آشیاں بندی پایۂ تکمیل کوپہنچا۔لمحاتِ شر ر میں دِل کے داغ بھی مجھے بھلے لگتے ہیں اور میری چار خوب صورت بیٹیاںقدرت کی عطا ہیں ۔ مصبو ! میں تمھیں اچھی طرح جانتی ہوں تم سیفو مزاج عورت ہو،اپنے عقوبت خانے کا ماحول تو مجھے اب شناسا لگتاہے مگر تمھارا یہاں آنا تو مجھے عجیب سانحہ لگتاہے ۔ یہ بات بھی درست ہے کہ میرے کُوچ کا وقت آ نے والا ہے جس کے لیے میں نے تیاری کر لی ہے ۔میں حالات سے ناخوش و بیزار تو ہوں مگر زندگی سے میری قلبی وابستگی ہے اور موت کی اٹل حقیقت کو بھی میں خوب سمجھتی ہوں ۔ بعض اوقات میں سوچتی ہوں چاند کو کیا معلوم کہ رات کی تا ریکی میںکہکشاں پر اُس کی ضو فشانیوں سے ٹمٹماتے ستاروں کی تابانیوں کا سلسلہ کتنا متاثر ہوتاہے ۔میں نے عالمِ بیداری میں جو خواب دیکھے تھے وہ خورشید جہاں تاب کے مانندشعاعوں کے چیتھڑے اوڑھے روز اس زندان سے نکل جاتے ہیں اور تمھارے قحبہ خانے سے ہوتے ہوئے رات گئے یہاں لوٹ آ تے ہیں۔حسرتِ ناکام کی حدت مجھے مٹی کے دئیے کی طرح سرِ شام جلاتی ہے مگر میں اپنی قسمت کی شاکی نہیں ۔میںپدمنی کی طرح بڑ ے سکون اور اعتماد سے جوہر میں جل تو سکتی ہوں مگر کسی خلجی کی خلیج میں غرق ہونا مجھے گوارا نہیں ۔ تم نے اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ کر شعلہ ٔ عارض گل فام سے بے شمار گھر جلائے ہیںمگرتمھیں معلوم نہیں کہ تم اپنے بدن کی قبر میں مدفون ہو چُکی ہو۔‘‘
صابرہ مائی کی پلکوں پر اشک رواں کی لہر نے ماحول کو اُداس کر دیا ۔زندگی قدرت کاملہ کی ایک نعمت ہے مگر قرینے سے زندگی بسر کرناایک صبر آزما مرحلہ ہے ۔مصبونے شعلوں کو ہوا دینے سے پہلے یہ نہ سوچا کہ یہ آگ جب بھڑک اُٹھے گی تو دِل کی بستی بھی ان شعلوں کی زدمیں آ جائے گی ۔ صا برہ مائی جس نے حرص و ہوس کو چھوڑ کر اپنے دِل کو ماررکھاتھا وہ اب وہ کسی مار ِآستین اور ان طوائفوں کی موردِ عنایت کیسے بن سکتی تھی ؟اسے اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ حیات و کائنات کے مسائل نے مجبوروں کو زندگی کی ایسی خلش دی ہے جو انھیں کسی کروٹ چین نہیںلینے دیتی۔ صابرہ مائی کی باتیں سُن کر قفسہ بائی پیچ و تاب کھانے لگی اور اُس کے منھ سے جھاگ بہنے لگا۔ قفسہ بائی نے اپنے غلیظ اور پیلے دانت پیستے ہوئے کہا:
’’ صابرہ مائی !تمھارے لفظوں میں پنہاں شعلوں کی حدت کو میں محسوس کر سکتی ہوں۔تنہائی کا جو آسیب اس وقت تمھارے نہاں خانۂ دِل پر مسلط ہے اگر اُس کا تدارک نہ کیا گیا تو وہ تمھاری جان لے کر نکلے گا۔تمھارے من کی کِشتِ بے آب اس وقت وفا کے آب ِ حیات کی ایک ایک بوند کو ترس رہی ہے ۔ تمھارے چہرے کے تاثرات اور پُر نم آ نکھیںتمھاری دُکھ بھری کہانی سنا رہی ہیں۔تم نے کاہل ،کام چور ،عیاش اور جنسی جنونی شرفو بڑھئی کے دئیے ہوئے درد ناحق اپنے کلیجے سے لگا رکھے ہیں اور خود اپنی ذات کو اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ میں تمھارے قلب و جگر پر لگنے والے گھاؤ کے کرب کو محسوس کر سکتی ہوں۔تم شرفو بڑھئی کے جورو ستم بُھلانے کے لیے قناعت کا سہارا لے رہی ہو ۔ہمارے قحبہ خانے میں بہت سی حسین و جمیل جنسی کارکن لڑکیاں کام میں مصرو ف ہیںمگر اب تک ہماری خواہش کے مطابق بات بن نہیں سکی ۔اگر تم اپنی چاروں بیٹیوں کو ساتھ لے کر اس کال کوٹھڑی سے نکل کر میرے ساتھ چلواورمیری ہم نوا بن جاؤ تومیرے ویران قحبہ خانے کی اوقات بن جائے گی۔میں تمھارے حُسن و جمال کی ندی کے سب بھنور دیکھ چُکی ہوں اگر تم ضد چھوڑ دو تو تمھارے مقدر سنور سکتے ہیں ۔لوگ کہتے ہیں کہ میری باتیں محض زمانے کو دکھانے کے لیے ہوتی ہیں مگر یقین کرو اس وقت میں تمھیں سچ سنانے کے لیے آ ئی ہوں۔شرفو بڑھئی نے سدا تمھارے ساتھ فریب ہی کیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ تم کسی درد آشنا پر اعتمادہی نہ کرو۔ شرفو بڑھئی کی قید سے گلو خلاصی کے لیے یہ فیصلہ کن مر حلہ ہے،تم اپنے من مندر میں اُمید کا دیپ فروزاں کرو اوردِل کے کاروبارمیں تم کب تک اپنی پُرنم پلکوں پر موہوم خواب سجا کر خسارے کرتی رہو گی؟ شرفو بڑھئی نے تمھیں جو سبز باغ دکھائے اور تمھیں جن سرابوں اور خوابوں کی خیاباں سازیوں سے بہلایا اُن سب کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالو ۔ابھی میرے ساتھ چلو اپنی آنکھوں میں نئے خواب بساؤ اور میرے قحبہ خانے میں عکسِ بدن کے کرشمے دکھاکر تماشائیوں کو مسحور کر دو ۔ تمھارے پر کشش خد وخال دیکھ کر لوگ تمھاری طرف کھنچے چلے آئیں گے ۔‘‘
صابرہ مائی جانتی تھی کہ سیاہی وال کے لوگوں کے دلوں کو کدورتوں ،نفرتوں ،کینہ پروری اور حرص و ہوس نے پتھروں میں بدل دیاہے ۔ ذات پات اور قبیلوں میں بٹے یہاں کے مکین طبقاتی کشمکش میں مبتلا ہیں اور غریبوں کونفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ سیاہی وال کی یہ طوائفیںجس پُر اسرار رشتۂ بے نام کی بنا پر صابرہ کو پریشان کر رہی تھیں وہ اس کی تہہ تک پہنچ چکی تھی ۔یہ رذیل طوائفیں صابرہ کو حُسن ورومان اور جنسی ہیجان کے حوالے سے اپنی راہ پر لانے کی خواہش مند تھیں۔صابرہ مائی نے جب عادی دروغ گو اور موذی و مکار چڑیلوں کی حقار ت آمیز باتیں سُنیںتو اُس نے کہا:
’’تم کس قدر بد نصیب عورتیں ہو کہ جنھیں شرم و حیا ،اخلاقیات اور عزت نفس سے کوئی سر و کار ہی نہیں۔ شہر کے سب لوگ اس حقیقت سے آ گاہ ہیں کہ تم رسوائے زمانہ قاتل بہرام ٹھگ کی اولاد ہو۔ تم حد سے گزرنے لگی ہو ،اپنی اوقات میں رہو سوپشت سے ٹھگی ہی تمھارا آبائی پیشہ ہے ۔ مجھے تو تمھاری جیسی ڈائنوں اور چڑیلوںکی مصنوعی ہمدردی سے ڈر لگتا ہے ۔حرص و ہوس کے ہاتھوں مجبور ہو کر جس سفاکی سے تم نے اپنی حقیقی بیٹیوں اور بہو کا گھر اُجاڑ دیا وہ تمھارے لیے باعث شرم ہے ۔ اگر میری راتیں آنسوؤں اور آ ہوں کی رفاقت میں گزرتی ہیں تو تمھیں اس سے کیا؟ میں جانتی ہوں کہ شام الم میں صرف میرا دِل ہی میرا مونس و چارہ گر ہے ۔ تمھار ے قحبہ خانے میں ہلاکت خیزیوں کی مہمانی ہے اور وہاں موجود جن ستاروں کے ایاغ تم نے مجھے دکھانے کی کوشش کی ہے وہ مجھے زہر کے پیالوں سے بھی کہیں بڑھ کر مہلک لگتے ہیں۔ ابھی یہاں سے چلی جاؤ ، مجھ سے میرے د رد مت چھینو، میر ے درد تو مجھے جان سے بھی زیادہ پیارے ہیں ۔ تمھیں اپنے قحبہ خانے میں چاند ستاروں کی براتیں اور انواع و اقسام کی سو غاتیں نصیب ہو ں ۔ اپنے والدین کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے میں نے اپنی مرضی سے شرفو بڑھئی سے مات کھائی ہے ۔ میں بگولوں میں حوصلوں کی مشعل فروزاں رکھوں گی میر ی چار بیٹیاں ہیں،میں ان کی پرورش کروں گی ۔جب تک ضمیر زندہ ہے تم جیسی خود غرض اور بروٹس قماش کی ڈائنوں کی بساطیں اُلٹتی رہیںگی۔‘‘
سیاہی وال کی رذیل طوائفیں جب گل و لالہ اور شمس وقمر سے بے تعلق رہنے والی صابر ہ مائی کواپنے مزاج پر لانے میںناکام ہو گئیںتووہ اس مظلوم عورت کو اول فول بکنے لگیں ۔ ہر قسم کے قول و قسم کے باوجود قفسہ بائی اور طوائف مصبو کی سب تدبیریں اُلٹی ہو گیں ،جب صابرہ مائی کے گھر سے بے نیل ِ مرام لوٹیں تو وہ بہت مضمحل تھیں ۔ ان طوائفوں کے دِل پہ جو اضطرابی آئی اُس کے باعث وہ چلنے میں دشوار ی محسوس کر رہی تھیں اور شتابی اپنے قحبہ خانے میں پہنچنا چاہتی تھیںبوجھل قدموں سے چلتی ہوئی جب وہ ناتوانی کے عالم میں اپنے قحبہ خانے میں پہنچیں تو وہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ حرص و ہوس بھی جنس ناروا اور جان کا روگ ہے جس نے ان کا طرز و طور بدل کر رکھ دیاہے ۔اُن کے قحبہ خانے کے سب رِند اوباش یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ ان طوائفوں کے چہرے سے نحوست برس رہی تھی۔
جس طرح جنگلوں میں مجنوں اور کو ہساروں میں فرہاد کودیوانگی راس آ گئی تھی اُسی طرح چار خوب صورت بیٹیوں کی ماں صابرہ مائی کو بے حِسشرفو بڑھئی کے عقوبت خانے کی اذیت بھی خوش آ گئی تھی۔اکتوبر 2021ء کے مہینے میں سردی نے اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا۔ شام کا وقت تھا صابرہ کو سردی لگ رہی تھی اور پر کپکپی طاری تھی ۔ شرفو بڑھئی نے اپنی چاروں بیٹیوں کوبلایا اور صابرہ مائی سے کہا :
’’میری بہن بیمار ہے میں اس کی بیمار پُرسی کے لیے اپنی بیٹیوں کو ساتھ لے کر اس کے گاؤں جا رہا ہوں۔‘‘
’’میں بھی اپنی نند سے ملنا چاہتی ہوں۔‘‘ صابرہ مائی نے التجا کی ’’ چھے ماہ گزر گئے میں نے اپنی نند کی شکل تک نہیں دیکھی ۔مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو ۔‘‘
’’ نہیں ،ہر گز نہیں ،تم یہیں رہو گی اور اس گھر کی دیکھ بھال کرو گی ۔‘‘شرفو بڑھئی نے رعونت سے کہا ’’ ابھی تو تم نے کہا تھا کہ تمھیں سردی لگ رہی ہے اور تم پر کپکپی طار ی تھی ۔‘‘
’’ اس خرابے میں ہے کیا جس کی حفاظت کے لیے میں یہاں رُک جاؤں ؟ ‘‘ صابرہ مائی نے آ ہ بھر کر کہا’’ میں مصائب و آلام سے ہراسا ںنہیں ہوتی مگراپنے اعدا سے معاملہ میرے بس کی بات نہیں۔اس خرابے میں بھی کٹھن حالات اب تک مجھے حوصلہ دیتے رہے ہیں۔ میں سردیوں کی لمبی رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ستاروں کی منتظر نہیں بل کہ اشکِ رواں کی لہر سے آتشِ غم کے دہکتے شعلوں کو بُجھانے کی کوششوں میں مصروف ر ہتی ہوں۔آہ! بھری بہار بھی مجھے سوگوار چھوڑ کر رخصت ہو گئی اور اب تم بھی مجھے تنہا رہنے پر کیوںمجبور کر رہے ہو؟ تنہائیوں کے تیر کھا کر میرا جگر چھلنی ہو چکا ہے ،میں روتی اور کُڑھتی رہتی ہوںمگر تم پر مطلق اثر نہیں ہوتا۔ یہاں تنہا چھوڑ کر مجھ ناتواں کی انا کو خاک میں نہ ملاؤ۔ اسے میری بے بسی نہ سمجھنا بل کہ یہ میرا ظرف ہے کہ اب تک تمھارے ساتھ نباہ کر رہی ہوں ۔‘‘
’’ شرطِ وفا بجا لانے کا تقاضا یہی ہے کہ تم اسی جگہ قیام کرو ۔‘‘ شرفو بڑھئی نے مسکراتے ہوئے کہا ’’میرا مزاج سیکڑوں مرتبہ مجھے اس جگہ پر گور جھنکا لایا ہے ۔اب میں اپنی بیٹیوں کو لے کر کُھلی فضا میں نکل رہا ہوں تو تمھارے دِل میں مروڑ کیوں اُٹھ رہے ہیں؟ہم سب دریائے چناب کو جا کر سیر کریں گے اور وہاں سے مچھلی کے کباب کھائیں گے ۔تمھیں سردی لگ رہی ہے میں کمرے میں کوئلے کی انگیٹھی جلا کر رکھ دیتا ہوں تم لحاف میں لپٹ کر سو جاؤ۔کل صبح ہم واپس آ جائیں گے ۔‘‘
شرفو بڑھئی نے کوئلوں سے بھری انگیٹھی سلگائی اور صابرہ مائی کے بستر سے کچھ دُور رکھ دی ۔ اپنی چاروں بیٹیوں کو ساتھ لے کر شرفو بڑھئی اپنی بہن کے گھر جانے کے لیے تیار تھا ۔صابرہ مائی کے سینے میں تیرِ ستم توڑ کو شرفو بڑھئی بیٹیوں سمیت باہر نکل گیا۔الم نصیب صابرہ مائی نے حیرانی کے عالم میں اپنے دِلِ حزیں کو سنبھالا مگر اپنوں کے لگائے ہوئے زخم اس قدر گہرے تھے کہ ہر زخم سے پیکان بر آمد ہوتاتھا۔شرفو بڑھئی کی بیدادگری کا یہ حال تھاکہ اُس نے جاتے وقت کمرے کو باہر سے مقفل کر دیا۔اگلی صبح شرفو بڑھئی اپنی بیٹیوں کوساتھ لے کر اپنے عقوبت خانے کے دروازے پر پہنچا۔ شرفو بڑھئی نے دکان کا مقفل درواز ہ کھولا تو سب نے دیکھا کہ صابرہ مائی زمین پر بے حس وحرکت پڑی تھی ۔
اکتوبر 2021ء میں جب صابرہ مائی نے عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رختِ سفر باندھا توبڑی لڑکی سات برس کی تھی اور و ہ طالبات کے مقامی سرکاری مدرسے میں تیسری جماعت میں پڑھتی تھی اورسب سے چھوٹی بچی ایک برس کی تھی ۔اپنی زندگی میں بے شمار زخم جھیلنے اور داغ کھانے کے بعد اجل کے بے رحم ہاتھوں سے اسیر قفس صابرہ مائی کو رہائی مِل گئی ۔ جب تک صابرہ مائی زندہ رہی کوئی بھی رشتہ دار ، پڑوسن یا امیر عورت اُس کی پرسان حال نہ تھی،اُس کی وفات کی اطلاع ملتے ہی وہ سب لوگ جواُس مظلومہ سے ناحق سرگراں رہتے تھے، مگر مچھ کے آ نسو بہاتے ہوئے نکل آئے اور برساتی مینڈکوں کے مانند بے طرح ٹرانے لگے ۔صابرہ مائی کی آخری رسومات شرفو بڑھئی کے بہنوئی کے گھر ہوئیں ۔ صابرہ مائی کی چاروں بیٹیاں خاندانی میراث اور مالِ غنیمت کی طرح رشتہ داروں میں بٹ گئیں ۔شرفو بڑھئی کی بہن اپنی چاروں بھتیجیوں کو اپنی،اپنے بھائی اور دیور کی بہو بنانے کی غرض سے ساتھ لے کر اپنے گھر چلی گئی ۔ بد بلا سے بھراوہ عقوبت خانہ جس میں صابرہ مائی نے آخری سانس لی وہ مقفل ہے اوروہاں آسیبوں کا بسیراہے ۔اس جگہ پر کئی آدم خور دیکھے گئے ہیں مگر سب کے مہا گرو شرفو بڑھئی کااتاپتا اب کسی کو معلوم نہیں۔
…………………………………………………………………………………………………………………………………………………………………
Dr.Ghulam Shabbir Rana ( Mustafa Abad ,Jhnag City)