آج – ١٢؍ستمبر ١٩٤٩
پاکستان کے معروف شاعر” صابر ظفرؔ صاحب “ کا یومِ ولادت…
نام مظفر احمد اور تخلص ظفرؔ ہے۔۱۲؍ستمبر ۱۹۴۹ء کو تحصیل کہوٹہ، ضلع راول پنڈی میں پیدا ہوئے۔ ایف ایس سی تک تعلیم حاصل کی۔ شاعری کی ابتدا ۱۹۶۸ء سے ہوئی۔ انھوں نے دوسال بذریعہ ڈاک رئیس امروہوی سے اصلاح لی۔ ماہ نامہ ’’اپنی زمین‘‘ میں کچھ عرصہ بطور معاون مدیر کا م کیا۔ آج کل حکومت سندھ کے محکمۂ اطلاعات کے پبلی کیشنز سیکشن سے وابستہ ہیں۔ ان کے تاحال ۲۲ شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ چند نام یہ ہیں:
’’ابتدا‘، ’دھواں اور پھول‘، ’پاتال‘، ’جتنی آنکھیں اچھی ہوں گی‘، ’دریچہ بے صدا کوئی نہیں‘، ’لہو ترنگ‘، ’دکھوں کی چادر‘، ’بارہ دری میں شام‘، ’اک تری یاد رہ گئی باقی‘، ’عشق میں روگ ہزار‘، ’بے آہٹ چلی آتی ہے موت‘، ’چین اک پل نہیں‘، ’اپنے رنگوں میں ڈوب جانے دے‘،’محبت کا نیل کنٹھ‘، ’نامعلوم‘، ’پرندوں کی طرح شامیں‘۔ ان کے کئی گیت مقبول عام ہوچکے ہیں۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:399
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر صابر ظفرؔ کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
نہ انتظار کرو ان کا اے عزا دارو
شہید جاتے ہیں جنت کو گھر نہیں آتے
—
شام سے پہلے تری شام نہ ہونے دوں گا
زندگی میں تجھے ناکام نہ ہونے دوں گا
—
کچھ بے ٹھکانہ کرتی رہیں ہجرتیں مدام
کچھ میری وحشتوں نے مجھے در بدر کیا
—
بے وفا لوگوں میں رہنا تری قسمت ہی سہی
ان میں شامل میں ترا نام نہ ہونے دوں گا
—
صبح کی سیر کی کرتا ہوں تمنا شب بھر
دن نکلتا ہے تو بستر میں پڑا رہتا ہوں
—
ہم اتنا چاہتے تھے ایک دوسرے کو ظفرؔ
میں اس کی اور وہ میری مثال ہو کے رہا
—
بدن نے چھوڑ دیا روح نے رہا نہ کیا
میں قید ہی میں رہا قید سے نکل کے بھی
—
عمر بھر لکھتے رہے پھر بھی ورق سادہ رہا
جانے کیا لفظ تھے جو ہم سے نہ تحریر ہوئے
—
نظر سے دور ہیں دل سے جدا نہ ہم ہیں نہ تم
گلہ کریں بھی تو کیا بے وفا نہ ہم ہیں نہ تم
—
ملوں تو کیسے ملوں بے طلب کسی سے میں
جسے ملوں وہ کہے مجھ سے کوئی کام تھا کیا
—
ظفرؔ ہے بہتری اس میں کہ میں خموش رہوں
کھلے زبان تو عزت کسی کی کیا رہ جائے
—
نامہ بر کوئی نہیں ہے تو کسی لہر کے ہاتھ
بھیج ساحل کی طرف اپنی خبر پانی سے
—
وہ لوگ آج خود اک داستاں کا حصہ ہیں
جنہیں عزیز تھے قصے کہانیاں اور پھول
—
وہ کیوں نہ روٹھتا میں نے بھی تو خطا کی تھی
بہت خیال رکھا تھا بہت وفا کی تھی
—
کتنی بے سود جدائی ہے کہ دکھ بھی نہ ملا
کوئی دھوکہ ہی وہ دیتا کہ میں پچھتا سکتا
—
اے کاش خود سکوت بھی مجھ سے ہو ہم کلام
میں خامشی زدہ ہوں صدا چاہیئے مجھے
—
یہاں ہے دھوپ وہاں سائے ہیں چلے جاؤ
یہ لوگ لینے تمہیں آئے ہیں چلے جاؤ
—
علاج اہلِ ستم چاہئے ابھی سے ظفرؔ
ابھی تو سنگ ذرا فاصلے پہ گرتے ہیں
—
دور تک ایک خلا ہے سو خلا کے اندر
صرف تنہائی کی صورت ہی نظر آئے گی
—
ظفرؔ وہاں کہ جہاں ہو کوئی بھی حد قائم
فقط بشر نہیں ہوتا خدا بھی ہوتا ہے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
صابر ظفرؔ
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ