صابر جوہری صاحب کا شمار ہندوستان کے پختہ گو اور باکمال شعراء میں ہوتا ہے ۔ وہ ایک ایسے شاعر ہیں جن کے شاگرد نہ صرف ہندوستان میں بلکہ ہندوستان سے باہر دیگر ممالک میں بھی موجود ہیں ۔ ان کی شاعری میں وہ سب کچھ موجود اور پایا جاتا ہے جو کہ کسی بھی کامیاب اور عوام الناس کے نبض شناس شاعر کے لئے ضروری ہوتے ہیں ۔ صابر صاحب 9 نومبر 1965 کو ہندوستان کے شہر بھدوہی صوبہ اتر پردیش میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد صاحب کا نام اشرف علی انصاری اور والدہ محترمہ کا نام خیر النساء ہے۔ صابر صاحب کا اصل نام غلام صابر انصاری اور قلمی نام صابر جوہری بھدوہوی ہے ۔ صابر صاحب کو بھائی نہیں ہے ان کی 2 بہنیں محترمہ زرینہ بیگم اور نورجہاں صاحبہ ہیں ۔ ۔ ان کا آبائی شہر بھدوہی بافی اور قالین کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت کا حامل ہے اسی وجہ سے اس شہر کو یہ منفرد حیثیت حاصل ہے کہ یہاں کے قالین اور بافی کی مصنوعات پر " میڈ ان انڈیا " کے بجائے " میڈ ان بھدوہی " لکھا جاتا ہے ۔
جوہری صاحب نے ایم اے تک تعلیم حاصل کی کیلیگرافی میں ڈپلومہ ہولڈر ہیں پیشے کے لحاظ سے تعلیم و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔ وہ ابھی 6 سال کی عمر میں تھے کہ ان کی والدہ محترمہ 1971 میں انتقال کر گئیں ۔ شاعری کا شوق بچپن سے ہی تھا لیکن 15 سال کی عمر میں 1980 سے شاعری کی ابتداء کی حضرت جوہر صدیقی صاحب شاعری میں ان کے استاد ہیں شاید انہوں نے اپنے استاد سے عقیدت کے باعث صابر جوہری کا قلمی نام اختیار کیا ۔ اردو زبان و ادب کی ترقی اور ترویج اور ثقافت کے فروغ کے لئے 2003 میں انہوں نے " بزم اہل قلم بھدوہی " کے نام سے ایک تنظیم بنائی جس کے وہ جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں جبکہ حضرت شیخ غلام ہمدانی مصحفی کے سلسلہ ادب سے بھی ان کی وابستگی ہے ۔ شاعری میں ان کی پسندیدہ اصناف میں حمد و نعت، غزل اور رباعی ہیں جن میں وہ بھرپور طبع آزمائی کر رہے ہیں اور اس میدان میں ان کا ہندوستان کے اردو زبان و ادب میں ایک اہم مقام ہے ۔ صنعت میں توشیخ اور غیر منقوطہ ان کی پسندیدہ صنعت ہیں اور ان دونوں صنعتوں میں بھی وہ خوب طبع آزمائی کرتے رہے ہیں ۔ شاعری میں صابر جوہری صاحب کے شاگردوں کی کثیر تعداد ہے جن میں بہت سے شعراء صاحب دیوان اور مشہور و معروف ہیں ۔ ان کے صاحب مجموعہ شاگردوں میں شہزاد بجنوری، احکم غازی پوری، وارث بدایونی، آثم اشعری اور عارف نورانی وغیرہ ہیں ۔
صابر جوہری بھدوہوی صاحب کی اب تک 3 کتابیں شایع ہو چکی ہیں جن میں " احساس کی خوشبو، 2013 میں عزم بلال 2018 میں اور عقیدت کے پھول 2019 شامل ہیں ۔ جبکہ وہ قرآن مجید کے تیسویں پارے کا منظوم ترجمہ کرنے میں مصروف عمل ہیں انہوں نے سورہ فاتحہ کا بغیر نقطہ کے ترجمہ کرنے کی سعادت حاصل کی ہے ۔ صابر جوہری صاحب کی شریک حیات محترمہ رقیہ بانو صاحبہ کا 4 جون 2006 میں انتقال ہوا جس کے باعث ان کی ادبی سرگرمیاں 2012 تک معطل ہو کر رہ گئیں ۔ ماشااللہ صابر جوہری صاحب کے 2 بیٹے امامہ صابری اور دانش صابری جبکہ 3 بیٹیاں سنبل صابری ، صدف صابری اور ایمن صابری ہیں ۔ صابر جوہری صاحب کی غیر مطبوعہ کتب میں قندیل حرم( حمدیہ شاعری) موج تسنیم( نعتیہ شاعری ) مٹھی بھر اجالا( غزلیات اور نظمیات ) برگ تخیل( غزلیات اور نظمیات ) میزان( رباعیات اور قطعات ) اور کلیات ثاقب بھدوہوی شامل ہیں ۔ صابر جوہری صاحب کی شاعری ہندوستان و بیرون ممالک کے بین الاقوامی موقر اردو ادبی رسائل و جرائد وغیرہ میں شایع ہوتی رہتی ہیں ۔ بہترین شاعری کے اعتراف میں ان کو مختلف اداروں کی جانب سے درجنوں اعزازات، ایوارڈز مل چکے ہیں ریڈیو اور ٹیلی وژن کے مشاعروں سمیت ہندوستان کے آل انڈیا اور کل ہند مشاعروں میں بھی شریک ہوتے ریے ہیں ۔
صابر جوہری بھدوہوی صاحب کے متعدد اشعار اپنی غیر معمولی اہمیت کے باعث ضرب المثل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ جوہری صاحب کی خوب صورت شاعری سے چند منتخب نعتیہ اور غزلیہ اشعار قارئین کے ذوق کی نذر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قلم جب سے ذکر نبی کر رہا ہے
ہر اک شے سے وہ معتبر ہو گیا ہے
فنا عشق احمد میں جو ہو گیا ہے
مقام محمد وہی جانتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عدو کو دے دعا کے گل وہ ہر دم
وہی در اصل ہے ہادی عالم
وہی حامد وہی محمود و احمد
وہی طاہا وہی عادل ، محرم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ لوگ اب چاند کو بسانے کی فکر میں ہیں
جو اس زمیں کے اماں کے دشمن بنے ہوئے ہیں
حکم جاری ہے زبانیں بند کرنے کے لئے
وقت کیسا آ گیا ہر آدمی خاموش ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے خدا بنا دیا جس کو تراش کر
وہ سنگ راج آج ہمارے خلاف ہے
محو فتنہ پروری میں آج فتنہ گر تمام
خون میں ڈوبا ہوا ہے شہر کا منظر تمام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئینہ ہم نے دکھایا جب امیر شہر کو
پڑ گئے پیچھے ہمارے شہر کے پتھر تمام
خدا حافظ ہمارے رہبروں کا
ضمیر ان کے ابھی تک سو رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے الفاظ برتنے کا ہنر جس کو دیا
مانتا ہی نہیں وہ آج سخنور مجھ کو
گردش وقت نے بدلا ہے یہ کیسا تیور
اپنی مرضی سے عبادت بھی نہیں کر سکتے
وقت نے یہ ہمیں کس موڑ پہ لا رکھا ہے
ہم اگر چاہیں تو ہجرت بھی نہیں کر سکتے
صابر جوہری بھدوہوی