سابق وزیراعظم نوازشریف کیا چاہتے ہیں؟
لاہور میں بند روڈ منشی اسپتال کے پاس کھڑے ٹرک میں زور دار دھماکہ ہوا ۔جس کے نتیجے میں بیس افراد زخمی ہو گئے ۔کہا جارہا ہے کہ ٹرک میں ایک من بارود تھا ۔دھماکے سے دس فٹ گہرا گڑھا پڑ گیا ۔میڈیا رپورٹس کے مطابق دھماکے کے قریب تین منزلہ عمارت بھی منہدم ہو گئی ۔یہ نواز شریف صاحب کے لئے بھی ایک تشویش ناک واقعہ ہے ۔میڈیا اور پولیس کے مطابق یہ ٹرک تین دن سے بند روڈ پر کھڑا تھا ،ٹرک کے زریعے سوات سے آڑو لائے گئے تھے ۔ویسے حیران کن بات ہے کہ ٹرک تین دن سے کھڑا تھا ،کسی نے اسے چیک تک نہیں کیا ۔اس واقعے کو ادھر چھوڑتے ہیں اور آگے میاں صاحب کی طرف بڑھتے ہیں ،میاں صاحب نے آج نہیں بلکہ کل یعنی بدھ کے روز لاہور کے لئے روانہ ہونا ہے ۔اس وقت وہ پنجاب ہاوس اسلام آباد میں سیاسی لیڈروں ،تاجروں ،صحافیوں اور قریبی رفقاٗ سے ملاقات کررہے ہیں ۔میڈیا کے تعلیم یافتہ اینکرز سے بھی ان کی ملاقاتیں ہورہی ہیں ،حامد میر صاحب سے بھی وہ گزشتہ روز ملے ،اب خدا خیر ہی کرے ،حامد میر جن سے ملاقات کرتے ہیں ،ان کے لئے خطرے کی گھنٹیاں بج جاتیں ہیں ۔میاں صاحب نے گزشتہ روز اینکرز اور سیاسی رہنماوں سے ملاقات کے دوران کچھ عجیب و غریب اور دلچسپ باتیں کی ،آج ان کی باتوں پر بھی تھوڑا سا تجزیہ کرلیتے ہیں ۔کہتے ہیں جی ٹی روڈ کے زریعے وہ گھر وآپسی کے سفر پر جارہے ہیں ،یہ ان کا احتجاج نہیں ،بلکہ گھر وآپسی کا سفر ہے ۔بھیا اگر پھر گھر وآپسی کا سفر ہے تو بزریعہ جہاز رائیونڈ یا ماڈن ٹاون چلے جائیں ۔جی ٹی روڈ سے آنے کی کیا ضرورت ہے ؟جہاز سے نہیں جاسکتے ،تو بزریعہ کار یا بس سے موٹروے کے زریعے جاتی عمراٗ روانہ ہو جائیں ۔میاں صاحب یہ اسلام آباد سے لاہور کی موٹر وے آپ کے دور میں ہی مکمل ہوئی تھی ،موٹروے ویسے بھی آپ کو بہت پسند ہے ،اسی روٹ سے گھر پہنچ جائیں ۔میاں صاحب عوام بیوقوف نہیں ہیں ،ہم سب جانتے ہیں کہ آپ شو آف پاور دیکھانا چاہتے ہیں ۔یہ لوگوں کو موبلائز کرنے کا سفر ہے ۔میاں صاحب کے پاس اب ایم این ائے کی سیٹ بھی نہیں رہی ،سانپ بھی نکل گیا ہے ،اب لکیر پیٹنے کی کیا ضرورت ہے ،اگر لکیر کو پیٹنا ہی ہے تو واضح بتائیں کہ وہ کرنا کیا چاہتے ہیں؟سیاسی لیڈر اگر کوئی بڑا اور انقلابی اقدام اٹھانے جارہا ہے ،تو اسے ایمانداری اور بہادری کا مظاہرہ کرنا چاہیئے اور کہنا چاہیئے کہ وہ اس مقصد کے لئے جی ٹی روڈ سے جارہا ہے؟ساتھ ہی یہ بھی میاں صاحب نے فرمایا کہ انہیں نااہل کرنے کا فیصلہ پہلے ہی کر لیا گیا تھا ،جواز بعد میں ڈھونڈا گیا ۔جے آئی ٹی وٹس ایپ کے زریعے چنی گئی ،جے آئی ٹی میں ایم آئی اور آئی ایس آئی کے نمائندوں کو ڈالا گیا ،اس کی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی ،میاں صاحب یہ جو آپ اب باتیں کررہے ہیں ،اس کا کوئی فائدہ نہیں ،یہ وہ باتیں ہیں جو پہلے کرنی چاہیئے تھی۔آپ کو چاہیے تھا کہ جب آپ وزیر اعظم تھے ،اس وقت جے آئی ٹی پر اعتراض اٹھاتے ،جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہ ہوتے ،اس کا بائیکاٹ کرتے ،لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا ۔آپ کو یقین تھا کہ سپریم کورٹ آپ کو نااہل نہیں کرے گی ،اس لئے آپ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے ۔نوازشریف صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ اگر نیب پر بھی نگران جج کی نگرانی ہو گی تو پھر اپیل کون سنے گا؟میاں صاحب کے اس بیان میں دم ہے ۔ججوں کے ریمارکس کے حوالے سے انہوں نے فرمایا کہ ججوں نے انہیں سیسیلین مافیا سے تشبیح دی اور کہا کہ اڈیالہ جیل شاندار جگہ ہے ۔نواز شریف کے اس بیان میں بھی وزن ہے ،لیکن مسئلہ انہوں نے خود تخلیق کیا ،انہیں چاہیئے تھا کہ وہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہی نہ ہوتے ۔وفود کے ساتھ ملاقات کے دوران انہوںنے یہ بھی کہا کہ وہ مشرف کی طرح نہیں بھاگیں گے ،میاں صاحب مشرف ایک ڈکٹیٹر تھا ،آپ ایک سیاسی لیڈر ہیں اور سیاسی لیڈر کو کسی صورت ملک سے بھاگنا نہیں چاہیئے ۔آپ بھی ایک زمانے میں سعودی عرب بھاگے تھے ،اب اگر نہیں بھاگ رہے تو یہ اچھی بات ہے ۔یہ گھر وآپسی نہیں ہے ،یہ طاقت دیکھانے کی گیم ہے ،یہ آپ کا بطور سیاسی لیڈر حق ہے کہ عوامی طاقت کا مظاہرہ کریں ۔جو سیاسی تباہی آپ کا مقدر تھی ،وہ ہو چکی ،آپ نااہل ہو گئے ،نیب کی تلوار آپ کے لئے لٹک رہی ہے ۔لیکن اب بھی آپ کے پاس ایک سنہری موقع ہے ،دیکھتے ہیں اس سنہری موقع کو کس طرح استعمال کرتے ہیں ،پنجاب کی ڈی فیکٹو حکومت آپ کے پاس ہے ،مزکزی ڈی فیکٹو حکومت بھی آپ کے پاس ہے،حکومت میں ہوتے ہوئے آپ کو اپوزیشن کرنے کا موقع مل رہا ہے ،یہ ایک گولڈن موقع ہے ،استعمال کریں ۔جب آپ کہتے ہیں کہ تمام سازشوں اور سازشیوں کو بے نقاب کردوں گا تو بسم اللہ کریں ،ان کو بے نقاب کریں ،یہ جی ٹی روڈ کا سفر اچھا ہے ،سب کو بے نقاب کریں اور جو عوام کو بتانا ہے ،بتادیں ،اسی میں آپ کی اور جمہوریت کی بچت ہے۔نواز شریف کا سیاست میں اس موقع پر سرگرم ہونا اچھی بات ہے ،پارٹی کو بھی اپنی اہمیت دیکھائیں اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی ۔اس سفر کے دوران ایک بلیک اینڈ وائٹ بیانیہ بھی دیں ،اگر آپ سمجھتے ہیں کہ پانچ ججوں کا فیصلہ غلط تھا ،تو اب عوامی عدالت کا فیصلہ بھی سامنے آنا چاہیئے ۔وہ بھی کنٹینر پر چڑھے تھے ،آپ بھی کنٹیر پر چڑھیں ،اس طرح کے مواقع سیاسی لیڈروں کو بار بار نہیں ملتے ۔آج طاہر القادری بھی لاہور میں ایک جلسہ کررہے ہیں ،اس جلسے میں وہ ماڈل ٹاون کلنگ کا ایشو اٹھائیں گے ۔وہ اپنے ایک انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ ماڈل ٹاون کلنگ واقعے میں ابھی قصاص کا فیصلہ نہیں ہوا ۔اس لائن سے سب سمجھ گئے ہیں کہ طاہر القادری کیا کرنے جارہے ہیں ۔ادھر گزشتہ روز پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف نے گزشتہ روز راولپنڈی جی ایچ کیو میں آرمی چیف قمر جاوید باجوہ سے ملے ہیں ،آرمی چیف اور شہباز شریف کی یہ ملاقات تیس منٹ تک جاری رہی ۔بعد میں شہباز شریف نے پنجاب ہاوس میں میاں نواز شریف کو اس ملاقات کا احوال سنایا ۔اب دیکھتے ہیں کہ کیا آج نواز شریف جی ٹی روڈ سے لاہور جانے کے فیصلے پر قائم رہتے ہیں یا پھر جی ٹی روڈ کا سفر موخر کردیتے ہیں ۔نواز شریف پر اب یہ منحصر ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں ؟لیڈروں کی زندگی میں ایسے مواقع بار بار نہیں آتے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔