ڈاکٹر شمع افروز (مرتب): صبیح رحمانی کی نعتیہ شاعری، فکری و تنقیدی مطالعہ ،فضلی سنز ،کراچی ،سال اشاعت 2020ء
اسلام کی آفاقی تعلیمات سے قلبی وابستگی اور حضور ختم المرسلین ﷺ سے والہانہ محبت کرنے والے شاعر صبیح رحمانی کی نعت گوئی پر مرتب کی گئی یہ کتاب حال ہی میں مجھے موصول ہوئی تو دِل کی کلی کِھل اُٹھی۔ چھے سوصفحات پر مشتمل اس کتاب میں عالمی شہرت کے حامل ممتاز پاکستانی نعت گو صبیح رحمانی کے نعتیہ اسلوب کے بارے میں نابغۂ روزگارادیبوںکے مضامین کو یک جا کر دیا گیاہے۔ اس کتاب میں اُنسٹھ مشاہیر ادب کے تجزیاتی مضامین اور بیالیس عبقری دانش وروں کی مختصر آرا اور تبصرے شامل ہیں۔ سب نقادوں نے اپنے تجزیاتی مضامین میں قطرے میں دجلہ اور جزو میں کُل دکھانے کی مستحسن سعی کی ہے ۔اپنی زندگی کو نعت گوئی کے لیے وقف کر دینے والے اس نعت گو شاعرنے اپنی ایمان افروز نعتیہ شاعری سے دلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے کی جو سعی کی ہے وہ ہر اعتبار سے لائق صد رشک و تحسین ہے۔ تمام مضمون نگاروں نے اس فطین تخلیق کار کے اُس ارفع نشاطِ تخیل کی طرف متوجہ کیا ہے جو قارئین کے اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثر ترین وسیلہ ثابت ہوا ہے ۔’’جادۂ رحمت ‘‘ جیسی مقبول کتاب کے مصنف نے نعتیہ شاعری کو اپنے فکر و فن اور زیست کا عنوان قرار دینے والے اس سچے عاشقِ رسول ﷺ نے حضرت حسان بن ثابتؓ اور مولاناعبدالرحمٰن جامی کے ساتھ اپنی نسبت پر ہمیشہ ناز کیا ہے اورخلوص اور درمندی سے لبریز اپنے نعتیہ اسلوب کے بارے میںکیا خوب کہا ہے :
قلم کی پیاس بُجھتی ہی نہیں مدحِ محمد ﷺ میں
میں کِن لفظوں میں اپنا اعترافِ تشنگی لکھوں
عطر بیز قلم تھام کر لوحِ دِل پر نعت لکھنے کی تمناکرنے والے اس نعت گو شاعر نے پس نوآبادیاتی دور میں اُردو نعت کے فروغ کے لیے جو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں وہ تاریخِ ادب میں آبِ زر سے لکھی جائیں گی۔ کارزارِ حیات کے تپتے ہوئے صحرا میں حضور ﷺ کی سیرت اور نعت گوئی کی خنک چھاؤں میں پناہ لینے والے اس شاعر نے اردو نعت کی ثروت میں جو اضافہ کیا ہے اس کی بناپر تاریخ ہر دور میں اُن کے نام کی تعظیم کرے گی۔