☜جسمانی’ پہناوا’ اور زیرِ استعمال اشیاء وغیرہ یا مختصراً ذاتی و گردو نواح کی صفائی ستھرائی کے عمل کا مبداء و آغاز زمانہ قبل از تاریخ سے تعلق رکھتا ھے۔ جیسا کہ پانی زندگی کے دوام کا جزوِ لازم ھے۔ شروع میں لوگ پانی کے قریب رھتے تھے اور اسکی صفائی سے متعلقہ خصوصیات سے کسی حد تک واقف تھے۔ کم ازکم اتنا سا ضرور جانتے تھے کہ یہ انکے جسم سے گارے مٹی یا دھول کو دھو ڈالتا ھے۔
♠عراق کے ایک قدیمی شہر بابل میں آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران برآمد ھونے والے صراحی نما برتن سے ایک صابن نما مواد برآمد ہوا جو اس بات کا ثبوت گردانا جاتا ہے کہ صابن سازی کا عمل 2800 قبل مسیح سے جانا جاتا ھے۔ صراحی پر کندہ تحریر سے پتا چلتا ھے کہ چکنائی اور راکھ کے آمیزے کو ابالا گیا جو کہ صابن سازی کا ایک قدیمی طریقہ ھو سکتا ھے۔ مگر صرف صابن کے طور پر نہیں بلکہ اس قسم کے مواد بعد میں بالوں کی تزین و آرائش میں استعمال ھوئے۔ جیسا کہ دورِ حاضر میں جیل اور مختلف سپرے ھیر سٹائلنگ میں استعمال ھوتے ہیں۔ سٹائلنگ میٹیریلز کا تعلق صفائی سے نہیں ھوتا۔
♧تاریخی ریکارڈ بتاتا ھے کہ قدیم مصری باشندے باقاعدگی سے نہاتے تھے۔
1500قبل مسیح سے تعلق رکھنے والی ایک میڈیکل دستاویز جسے ebers papyrus کہا جاتا ھے سے ملنے والی معلومات کیمطابق حیوانی و نباتاتی تیل کو الکلائن سالٹ (سجی) کیساتھ ملا کر ایک صابن نما مرکب تیار کیا جاتا تھا۔ اس مرکب کو بطور صابن اور جلد سے متعلق بیماریوں کے علاج کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔
♥اسی عہد میں موزز(موسٰی علیہ السلام) نے اسرائیلیات میں صفائی ستھرائی کے اصول وضع کیے اور صفائی کو شخصی اور ایمانی جسمانی و روحانی پاکیزگی سے مشروط کیا۔ بائبلی ریکارڈ سے پتا چلتا ھے کہ قدیم یہود میں مختلف قسم کی راکھ اور تیل کے آمیزے سے ہیر جیل قسم کی پراڈکٹ بنانا مستعمل تھا۔
قدیم یونانی جمالیاتی اسباب اور طرزِ عمل کی بنا پر نہاتے تھےمگر ظاہر ھوتا ھے کہ انکے ہاں صابن مستعمل نہ تھا۔ اسکی بجائے وہ اپنے اجسام کو مٹی کے ڈھیلوں’ ریت ‘ جھانویں اور راکھ وغیرہ سے رگڑ کر انہیں جسم پر مل کر صفائی کرتے تھے۔ پھر اپنے جسموں پر تیل کا لیپ کرتے اور پھر سکریپر نما دھاتی پتریوں سے تیل کیساتھ مکس ھوجانے والے میل کچیل کو کھرچ ڈالتے۔ انہوں نے تیل اور چکنائی کے ھمراہ راکھ کا بھی استعمال کیا۔ یہ انکے جسمانی صفائی کیلئے اختیار کردہ طور طریقے تھے جبکہ کپڑوں کی دھلائی بنا صابن کے بہتے پانیوں میں کی جاتی تھی۔
★وجہِ تسمیہ
صابن کو اسکا نام ایک قدیم رومن حکایتی کردار کی مناسبت سے ملا۔ ماؤنٹ صاپو (Mount Sapo) صاپو نام کا ایک پہاڑ جو روم میں کسی جگہ واقع تھا۔ یہاں پر جانوروں کی قربانی کی جاتی تھی۔ بارش کے پانی کے بہاو کیساتھ جانوروں کی پگھلی ھوئی چربی اور درختوں کی راکھ کا آمیزہ بہہ کر آیا اور دریا کنارے چکنی مٹی میں جا ملا۔ دریائے ٹائبر Tiber river کنارے عورتوں نے مشاھدہ کیا کہ مٹی میں موجود اس آمیزے نے انکے کپڑوں کی دھلائی کو نسبتاً کافی آسان بنا دیا۔
جیسے جیسے رومن تہذیب نے ترقی کی’ نہانے کا رواج بڑھا۔ پہلے مشہور رومن غسل خانے 312 قبل مسیح میں تعمیر ھوے جو سوئمنگ پول نما ھوتے تھے اور جنہیں باقاعدہ پانی کی ترسیل کا نظام وضع کیا جاتا تھا۔ نہانا لگژری مظہر کی حیثیت رکھتا تھا۔ دوسری صدی سن عیسوی میں ایک یونانی ماہرِ طب گیلن نے صابن کو صفائی اور صحت کیلئے باقاعدہ ضروری تجویز کیا۔
رومی تہذیبی انحطاط 467A۔D اور نہانے کے رجہان کی معدومیت کے بعد زیادہ تر یورپ نے عوامی صحت اور معیار زندگی پر برے اثرات کو محسوس کیا۔ شخصی و ذاتی صفائی ستھرائی کے انحطاط اور متعلقہ عدم صفائی کا ماحول قرون وسطی میں پھیلنے والی طاعون کی وسیع وباء کا پیش خیمہ ثابت ھوئے جس میں وسیع پیمانے پر ھونے والی اموات کو چودھویں صدی کی سیاہ اموات(Black death of 14th C) بھی کہا جاتا ھے۔ یہ ستارھویں صدی تک نہیں ھوا کہ زیادہ تر یورپ میں نہانے کے رواج نے پلٹ کر زور پکڑا ھو۔ بلکہ قرون وسطی کی دنیا میں ایسے خطے موجود تھے جہاں ذاتی صفائی ستھرائی اور نہانے دھونے کا طرزِ عمل بدستور برقرار اور اھم رہا۔ روز نہانا قرون وسطی میں جاپان میں رائج رہا۔ جبکہ آئس لینڈ میں ہاٹ سپرنگ کے پانی کے گرم تالاب ہفتے کی شاموں میں اکٹھا ھونے کی پسندیدہ جگہیں تھیں۔
♥عرب کیمیاء دان وہ پہلے لوگ تھے جنہوں نے نباتاتی تیل مثلاً زیتون اور خوشبودار تیل مثلاً (thyme oil) جو کہ جنگلی پودینے کی ایک قسم ھے سے باقاعدہ صابن سازی کا آغاز کیا اور اس میں سجی دار پانی(لائی lye) کا استعمال کیا۔ ساتویں صدی کے آغاز سے صابن نابلس’ بصرہ اور کوفہ میں متعارف ھو چکا تھا۔ انہوں نے خوشبودار اور رنگین صابن بنائے۔ اس دور کے صابنوں میں ٹھوس اور مائع(لیکوڈ سوپ) دونوں شامل تھے۔ انہوں نے شیونگ اور شیمپو کی غرض سے مخصوص صابن اور مائع مرکبات بھی بنائے
ساتویں صدی ہی کے دوران صابن سازی یورپ میں ایک منظم صنعت کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ صابن ساز اپنی مصنوعات کی تیاری کے طور طریقوں کو اکثر و بیشتر کاروباری راز کے طور پر خفیہ رکھتے تھے (دورِ حاضر میں بھی بہت سی پراڈکٹس کے اکثر فارمولہ اور کلیہ جات خفیہ ھوتےہیں) نباتاتی تیل اور حیوانی چکنائی چربی وغیرہ کو پودوں کی راکھ کیساتھ استعمال کیا جاتا تھا۔ بتدریج قسما قسم کے صابن نہانے دھونے شیونگ بطور شیمپو اور بطور لانڈری سوپ دستیاب ھوتے گئے۔
اٹلی سپین اور فرانس صابن کی صنعتی پیداوار کے ابتدائی مرکز قرار پائے۔ اسکی وجہ انکے ہاں خام مال مثلاً زیتون کی وافر دستیابی بنا۔
انیسویں صدی میں صابن کی مصنوعات کو لگژری گردان کر دنیا کے کئی ممالک میں ان پر بھاری ٹیکسز عائد تھے۔ جب ان بھاری ٹیکسز کا خاتمہ ہوا تو صابن عام عوام کو بھی دستیاب ھوا جس سے صفائی ستھرائی کا معیار بلند ہوا۔
تجارتی پیمانوں پر صابن سازی کا آغاز امیریکن کالونیز میں 1608 میں ہوا جب انگلینڈ سے متعدد صابن سازوں کی یہاں بذریعہ بحری جہاز آمد ھوئی۔ بہر حال کافی عرصے تک صابن سازی کی صنعت کا دارومدار ڈومیسٹک(گھریلو) صنعت سے متصل رہا۔ وہ ایسے کہ صابن ساز صابن کے بدلے چکنائی تیل چربی وغیرہ کے حصول کو ممکن بناتے تھے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...