نام : رفیع الدین
قلمی نام : صبا متھراوی
آمد: 30 نومبر۔1916، متھرا، یوپی، بھارت
رخصت: 4 اکتوبر 1988، بلاک ڈی، شمالی ناظم آباد کراچی۔
کچھ یادین:
======
صبا متھراوی صاحب سے میں نے اردو کا کلاسیکی ادب پڑھا ۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے صبا صاحب سے شاہ میران جی، شاہ جانم، نصرتی، سید مران ہاشمی، سیوا، محمدعلی قطب شاہ، ملا وجہی ، محمد قطب شاہ، حسن شوخی، عبداللہ قطب شاہ، غواضی، ابن نشاطی، ابولحسن تانا شاہ، فاءز، بحری ، اشرف اور شاہ ولی دکنی ، اور اس کے علاوہ میر امن، حیدر بخش حیدری ، فقیر محمد گویا رجب علی بیک سرو، ماسٹر تارا چند، غلام امام شہید اور غلام غوث بےخبر صبا وغیرہ تفصیل سے پڑھا۔ صبا صاحب ادبی تاریخ گوئی، اردو قواعدیات اورعلم العروض کے ماہر تھے۔ ایک دن وہ مجھےانعام اللہ خان یقین پڑھارہے تھے۔ تویقین کے حوالے سے رّدایہام گوئی کا جب تذکرہ ہوا تو انھوں نے بتایا کہ یقین کو قریب 29 سال کی کی عمر میں ان کے ان کے والد نے اس لیے قتل کردیا تھا کہ ان کو شک تھا یقین کا اپنی بہن سے ناجائز تعلقات تھے ۔ صبا صاحب نے یہ انکشاف کیا ایسی بات نہیں تھی اصل واقعہ یہ تھا کہ یقین کا اپنے استاد اور شاعر مرزا مظہرجان جاناں سے جنسی تعلقات تھے۔ کیونکہ مظہر خان جاناں امرد پرست تھے۔ اور ان کے والد نے یقین کو مظہر جان جاناں سے دور رہنے کو کہا تھا۔ مگر یقین نے اپنے باپ کی بات کو ایک کان سے سنا اور دوسرے کان سے باہر نکال دیا تو ان کے والد محمد اظہر الدین خان نے یقین کا خون کردیا صبا صاحب نے یہ بھی بتایا کہ یقین افیون کھانے کے عادی تھے۔
ان کی غیر منقوطہ نعتوں کا مجموعہ اور عشرہ مبشرہ میں سے ہر ایک کی منظوم تعریف پہ مشتمل مجموعہ دس ستارے بھی شائع ہوچکا ہےا ان کا مصدر الہام : غیر منقوطہ کلام کا مجموعہ 1981 میں مکتبۂ اردو ادب نے شائع کیا۔
صبا متھراوی کی ’’مصدر الہام‘‘: اس سلسلہ عاطلہ کی چوتھی نص صبا متھراوی کا کلام ہے۔ ، چونکہ ان کی ، ان کی تالیفات میں غیر منقوط ’’مصدر الہام‘‘ ہے۔ اس میں حمد، مدح رسول ﷺ اور مختلف عنوانات پر بے نقط رباعیات لکھی ہیں۔ یہ عمدہ تخلیق کا نمونہ ہے:
مسلسل درود اور مسلسل سلام
مدام و مدام و دوام و دوام
حرم ہو ارم ہو محمد کا گھر
دو عالم محمد کا ملک دوام
ہواؤ دکھاؤ محمد کا در
معطر معطر وہ دار السلام
ان کا ایک مختصر مجموعہ کلام " محاز قلم" کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ جو 1965 کی جنگ پاک بھارت کی جنگ سے متعلق جنگی نغموں اور نظموں پر مشتمل تھا۔ " لغت کائنات" کے نام سے ان کے ایک مختصر تصنیف بھی شائع ہوئی۔ راقم السطور جس زمانے میں ان سے اردو پڑھتا تھا ۔ اس زمانے میں اردو میں " نثری شاعری" شروع ہوئی اور اس پر بحث و مباحث شروع ہوئے۔ اس ناچیز نے بھی چند نثری نظمین لکھ کر صاحب کو دکھائی۔ انھوں نے پسند نہیں کیا ۔ اور مجھے مشورہ دیا "نثری نظمیں لکھنے ست باز رہو۔ یہ شاعری نہیں ہوتی" پھر میں نے ان کو اپنی نظمیں نہیں دکھائی۔ وہ غزلیات اور پابند نظمیں پسند کرتے تھے۔ الطاف حسین حالی ان کے پسندیدہ شاعر تھے، ان کا رجحان مذھبی تھا۔ ترقی پسندی اور جدیدیت ایک ان کو آنکھ نہیں بھاتی تھی۔سرسید کی تحریک کو بھی نصف تسلیم کرتے تھے۔ مگر صبا صاحب کو نعتین لکھنے میں کمال حاصل تھا۔ وہ اپنے شاگردوں کو یہ بھی سکھاتے تھے اور شعر خوانی کے رموز سیکھاتے تھےاور خاص طور پر وہ نعت خوانوں پر بڑی محنت کرتے تھے۔ ان کے تلففظ،، نعت پڑھنےکے انداز کو بڑے موثر انداز میں نوجوانوں کو سکھاتے تھے۔
صبا صاحب کے ایک شاگرد اطہر جاوید صوفی نے لکھا ہے۔
"پہلی بار پانچ برس کی عمر میں نعت پڑھی. نعت خوانی میں میری تربیت، والدعلامہ سید محمدریاض الدین سہروردی اورمیرے اسکول کے استاد صبا متھراوی مرحوم نے کی۔ آج میں جوکچھ بھی ہوں، یہ والد کی دعاؤں اورتربیت کانتیجہ ہے،عمدہ کلام ،خوب صورت آواز، تلفظ کی دُرستی اوربہترین ادائیگی نعت سننے والے کو متاثرکرتی ہے۔"
داغ دہلوی کے شاگردوں کی تعداد دو ہزار کے لگ بھگ تھی اور شاید ان سے قبل اردو شاعری کی تاریخ میں اتنے شاگرد کسی استاد کے نہیں ہوئے لیکن یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ اس معاملے میں سیماب اپنے استاد سے بھی کہیں آگے نکل گئے، ان کے تین ہزار سے زیادہ شاگر دہوئے، چند مشہور نام یہ ہیں: اعجاز صدیقی، ساغر نظامی، راز چاند پوری، بسمل سعیدی، شفا گوالیاری، قمر نعمانی، مختار صدیقی، مخمور جالندھری، سراج الدین ظفر، الطاف مشہدی، صبا متھراوی، خموش سرحدی، شہ زور کاشمیری، ضیا فتح آبادی، طُرفہ قریشی، آغاز برہانپوری، منظر صدیقی، جالب مظاہری، مبشر علی صدیقی، حبیب اشعر، مفتوں کوٹوی، علیم اختر مظفر نگری، رونق دکنی، مفتوں کوٹوی وغیرہ۔ سیماب کے کئی تلامذہ کے بہت سے شاگرد آج نامورانِ ادب میں شمار کیے جاتے ہیں مثلاً انور شعور، مخمور سعیدی، یعقوب راہی، عبدالاحد ساز وغیرہ، یہ فہرست بہت طویل ہو سکتی ہے اگر اس پر باقاعدہ تحقیقی کام کیا جائے۔{"علامہ سیماب اکبرآبادی، شخصیت اور ادبی خدمات"۔ از۔ زاہدہ حامد اقبال صدیقی} انتظار حسین نے اپنے مضمون "نیا ادبی دبستان بنانے کا شوق"، ایکسپرس نیوز، لاہور 21 اپریل 2013۔ اتوار میں لکھتے ہیں۔۔۔"مگر عجب بات ہے کہ معماران کراچی میں کیسے کیسے نام نظر آ رہے ہیں۔ معروف بھی غیر معروف جیسے صبا متھراوی اور راغب مراد آبادی۔ مگر سلیم احمد اور زہرا نگاہ کا یہاں کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا۔ "۔ محسن بھوپالی نے بھی سیماب اکبر آبادی صاحب سے اصلاح لی۔ مگر جب ان کی طعیت خراب ہوگی تو محسن بھوپالی صبا متھراوی صاحب سے اصلاح شعر کے طرف رجوع ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرکار کی خدمت میں منگتوں کی ادا لے چل
دامانِ طلب لے چل ہونٹوں پہ دعا لے چل
گلدستہ درودوں کا ہاتھوں میں اٹھا لے چل
’’ دربارِ رسالت میں کچھ نذرِ وفا لے چل
اشکوں کی نمی لے چل، داغوں کی ضیا لے چل‘‘
گلزارِ نبوت کے دربار میں جانا ہے
دنیائے محبت کے دربار میں جانا ہے
جان و دلِ نکہت کے دربار میں جانا ہے
’’اک روحِ لطافت کے دربار میں جانا ہے
پھولوں کی ہنسی لے چل، تاروں کی ضیا لے چل‘‘
شاید کہ یہ انہونی تقدیر دکھا جائے
جس شے کی تمنا ہے شاید کہ تو پا جائے
ممکن ہے ترا جذبہ سرکار کو بھا جائے
’’شاید دلِ مردہ میں پھر زندگی آجائے
اس دل کے جنازے کو طیبہ میں ذرا لے چل‘‘
کہتے ہیں صبؔا جو کچھ ہوتا ہے بہت موزوں
لفظوں کے تجسس میں کرتے ہیں جگر کا خوں
اللہ غنی! کیسا ہاتھ آیا ہے یہ مضموں
’’انجامِ جنوں اپنا جو کچھ ہو دلِ مجنوں
تو پیشِ نبی لے چل، چل بہرِ خدا لے چل‘‘
ایام کی گردش نے ہر چند ستایا ہے
صد شکر مجھے یہ دن قسمت نے دکھایا ہے
پیغام مدینے سے میرے لیے آیا ہے
’’ پھر گنبدِ خضرا سے حضرت نے بلایا ہے
اے دل کی تڑپ لے چل، اے سوزِ وفا لے چل‘‘
انوارِ مشیت کے دربار میں جانا ہے
قندیلِ سعادت کے دربار میں جانا ہے
مہتابِ نبوت کے دربار میں جانا ہے
’’خورشیدِ رسالت کے دربار میں جانا ہے
چمکے جو قیامت تک وہ داغ صبؔا لے چل‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ اللہ ! وہ اِک نُور مبیں آج کی رات
جسم کی ، روح کی،عرفان و یقیں کی معراج
تیری معراج بنی اہلِ زمیں کی معراج
عقل کی ، ہوش کی ، ایمان و یقیں کی معراج
اُم ہانی کے مکاں ، تجھ پہ ابد تک ہوں سلام
سب کی معراج ہے اِک تیرے مکیں کی معراج
تھم گیا وقت، رُکی کون و مکاں کی گردش
دیکھ اے چرخ! یہ ہے حجرہ نشیں کی معراج
عرش والوں میں ابھی تک ہے یہی ذکر صبا
قاب قوسین ہے اِک فرش نشیں کی معراج
معراج نبی {ص]
(صبا متھراوی)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...