آج – ١٤؍ اگست ١٩٠٨
غزل، رباعی، نظم اور مرثیہ ہرصنفِ سخن میں طبع آزمائی، عظیم مترجم اور قادرالکلام شاعر” صباؔ اکبر آبادی صاحب “ کا یومِ ولادت…
صباؔ اکبر آبادی، نام خواجہ محمد امیر، تخلص صباؔ ۔ ۱۴ ؍ اگست ۱۹۰۸ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ شاعری کا آغاز ۱۹۲۰ء سے ہوا اور اپنے عربی فارسی کے استاد اخضر اکبرآبادی کی شاگردی اختیار کی۔ ۱۹۳۰ء میں محکمہ تعلیم میں بطور کلرک ملازم ہوگئے۔ بعدازاں متعدد تجارتی اور کاروباری اداروں سے منسلک رہے۔ تقسیم ہندکے بعد پاکستان آگئے اور کراچی میں بودوباش اختیار کی۔۱۹۶۱ء میں تقریباً ایک برس محترمہ فاطمہ جناح کے پرائیوٹ سکریٹری رہے۔ بھر جناح کالج اور دوسرے تعلیمی اداروں میں ۱۹۷۳ء تک کام کرتے رہے۔ غزل، رباعی، نظم ، مرثیہ ہرصنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ ان کے مجموعہ کلام ’’اوراقِ گل‘‘ اور ’’چراغِ بہار‘‘ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ انھوں نے پورے دیوانِ غالبؔ کی تضمین کے علاوہ عمر خیام کی کوئی بارہ سو رباعیات کو اردو رباعی میں ترجمہ کیا ہے جس کا ایک مختصر انتخاب ’دستِ زرفشاں‘ کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔ صبا صاحب کے ترجمے کی دوسری کتاب ’’ہم کلام‘‘ ہے جس میں غالب کی رباعیات کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے ۔ ان کی مرثیوں کی تین کتابیں ’سر بکف‘، ’شہادت‘ اور ’خوناب‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہیں۔ صباؔ اکبرآبادی، ۲۹؍اکتوبر۱۹۹۱ء کو اسلام آباد میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
قادر الکلام شاعر صباؔ اکبر آبادی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ تحسین…
ان کے قدموں پہ جو گر جائے وہی قطرۂ اشک
حاصلِ دیدۂ گریاں ہے یہ معلوم ہوا
—–
آئینہ کیسا تھا وہ شام شکیبائی کا
سامنا کر نہ سکا اپنی ہی بینائی کا
—–
تعصب درمیاں سے آپ کو واپس نہ لے آئے
حرم کی راہ میں نکلا صنم خانہ تو کیا ہوگا
—–
ہے کافرِ ادب مرے مشرب میں اے صباؔ
شاعر جو احترامِ روایت نہ کر سکے
—–
ہاتھوں کو ڈبو آئے ہو تم کس کے لہو میں
پہلے تو کبھی اتنا نہ تھا رنگِ حنا تیز
—–
جوانی زندگانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
یہ اک ایسی کہانی ہے نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
—–
اجل ہوتی رہے گی عشق کر کے ملتوی کب تک
مقدر میں ہے یا رب آرزوئے خود کشی کب تک
—–
اپنے جلنے میں کسی کو نہیں کرتے ہیں شریک
رات ہو جائے تو ہم شمع بجھا دیتے ہیں
—–
آپ کے لب پہ اور وفا کی قسم
کیا قسم کھائی ہے خدا کی قسم
—–
کب تک نجات پائیں گے وہم و یقیں سے ہم
الجھے ہوئے ہیں آج بھی دنیا و دیں سے ہم
—–
ایسا بھی کوئی غم ہے جو تم سے نہیں پایا
ایسا بھی کوئی درد ہے جو دل میں نہیں ہے
—–
کمالِ ضبط میں یوں اشک مضطر ٹوٹ کر نکلا
اسیر غم کوئی زنداں سے جیسے چھوٹ کر نکلا
—–
خواہشوں نے دل کو تصویر تمنا کر دیا
اک نظر نے آئنے میں عکس گہرا کر دیا
—–
کام آئے گی مزاجِ عشق کی آشفتگی
اور کچھ ہو یا نہ ہو ہنگامۂ محفل سہی
—–
کثرتِ جلوہ کو آئینۂ وحدت سمجھو
جس کی صورت نظر آئے وہی صورت سمجھو
—–
اس کو بھی ہم سے محبت ہو ضروری تو نہیں
عشق ہی عشق کی قیمت ہو ضروری تو نہیں
—–
کچھ اس انداز سے اس نے غمِ فرقت بخشا
جیسے یہ بھی کوئی انعامِ وفاداری ہے
—–
ہجومِ غم ہے قلب غمزدہ ہے
مری محفل مرا خلوت کدہ ہے
—–
تیلیاں خون سے تر دیکھیں قفس کی جو صباؔ
اپنی سوکھی ہوئی آنکھوں پہ مرا دھیان گیا
صباؔ اکبر آبادی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ