جب کارگل کے مجاہدِ اعظم اور "سب سے پہلے پاکستان" کے خالق کو یہ خبر ملی کہ انھیں "زبردستی" ملک سے باھر بھیجنے کا پروگرام اس ملک کا "کرپٹ و غدار" وزیراعظم بنا چکا ھے تو کمر میں شدید درد کے باوجود ایسے "پَلسیٹے" کھا کھا کے روئے کہ کسی سی "وَلے" نہیں جاتے تھے.. ان کے بہت ہی ذاتی ملازم رفیق ربڑی کے مطابق 'صاحب کی چیخیں آسماں ہلا رھی تھیں اور آنسو سمندر کو رُلا رھے تھے"..
مسلسل دو گھنٹے پینتیس منٹ اور چھیالیس سیکنڈ تک اسی کرب و ماتمی کیفیت میں رھے.. پھر "جامِ جم" کا آدھا گلاس ایک سانس میں ختم کیا ھی تھا کہ ٹیلیفون کی گھنٹی ھڑبڑا کے جاگی.. ھمیشہ کی طرح اپنے درد و الم و کرب کو چھپاتے ھوئے ویسی ھی بارعب آواز میں "ھیلو" کہا تو دوجی طرف گھبرائی ھوئی آواز کے ساتھ جنرل راحیل شریف بقلم خود موجود تھے جو چھوٹتے ھی بولے ..
"سَر ، ھم شرمندہ ھیں، اس وطن عزیز کے محافظ، کارگل کے مجاہدِ اعظم، اسلام کے قلعے کے طاقتور ترین صدر سے ھم شرمندہ ھیں.. اس ملک خداداد کی خاطر امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے اپنی بات منوانے والے سے ھم شرمندہ ھیں.. طالبان کی نَسوں سے لہو کا آخری قطرہ تک نچوڑنے والے سے ھم شرمندہ ھیں.. کارگل کے محاذ پہ اذلی و ابدی دشمن کی بینڈ بجا دینے والے سے ھم شرمندہ ھیں.. اس ملک سے موروثی سیاست کی بیخ کنی کرنے والے ھم شرمندہ ھیں.. وطن عزیز سے کرپشن و اقربا پروری جیسی لعنتوں کا قلعہ قمعہ کرنے والے سے ھم شرمندہ ھیں.. " اور جنرل راحیل شریف زار و زار رو پڑے.. ادھر بھی ہچکیاں بندھی پڑی تھیں..
" سَر ھم نواز شریف کی طرف سے آپ پہ کیے گئے اس ظلم و زبردستی پہ شرمندہ ھیں.. "
جنرل راحیل شریف بہتی ناک کو شُوں شُوں سے کھینچتے ھوئے بولے
" آپ سے بچھڑ کے زندہ ھیں
سَر جی، بہت شرمندہ ھیں"..
اور پھر حکومتی اداروں نے کال کاٹ دی..
اَور پھر اس ضعیف آسمان نے وہ دلدوز و دلخراش منظر بھی دیکھا جب اس وطن کی حفاظت کی خاطر جان کی پرواہ نہ کرنے والے کو دھکے مار مار کے صدیوں پرانے سامان ڈھونے والے ھوائی جہاز میں زبردستی سوار کروایا گیا، جس میں سیٹوں کے نام پہ ڈالڈا گھی کے کنستر پڑے تھے اور ظالموں نے آخری بار "سب سے پہلے پاکستان" بھی نہ دیکھنے دیا کہ جہاز میں کھڑکیاں سِرے سے تھیں ھی نہیں..