سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں
فیض آباد دھڑنا معاہدے کے بعد اختتام پزیر ہوگیا تھا۔ایسا کہا اور لکھا جارہا ہے ۔لیکن گزشتہ روز دوبارہ لبیک پارٹی کا ایک اور دھڑنا لاہور میں شروع ہو گیا ہے ۔لبیک پارٹی کے ایک اور دھڑے نے دھڑنا شروع کردیا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اس دھڑنے کے شرکاٗ نے مطالبات بھی پیش کردیئے ہیں ۔لاہور میں بیٹھے دھڑنے والوں کا کہنا ہے کہ جو فیض آباد دھڑنے کے حوالے سے معاہدہ ہوا تھا ،وہ نامکمل ہے ۔لاہور میں لبیک پارٹی کے جس دھڑے نے دھڑنا دیا ہوا ہے ،اس کے قائد اشرف جلالی ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ لبیک پارٹی رجسٹر تو خادم حسین رضوی نےکرائی تھی ،لیکن اس پارٹی کے چئیرمین وہ ہیں ۔نئے دھڑنے والوں کا مطالبہ یہ ہے کہ زاہد حامد سے استعفی تو لے لیا گیا ہے ،اب انہیں تمام عمر کے لئے سیاست سے بھی نااہل قرار دیا جائے ۔دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ جو افراد ملوث پائے گئے ہیں انہیں عمر قید کی سزا سنائی جائے ۔تیسرا مطالبہ ان کا یہ ہے کہ وزیر قانون رانا ثنااللہ کو بھی استعفی دینا ہوگا ۔اشرف جلالی گروپ کے مطابق ان کے یہ مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو وہ دھڑنے سے نہیں اٹھیں گے۔اوپرسے رانا ثنااللہ صاحب نے فرمایا ہے کہ یہ مطالبہ کہ وہ مستعفی ہوجائیں ،ابھی تک ان تک نہیں پہنچا ،جب یہ مطالبہ ان تک پہنچے گا تو اس پر بھی غور کیا جائے گا ۔لگتا ہے کہ فیض آباد معاہدے میں خادم حسین رضوی کچھ اہم نقات بھول گئے تھے ،اس لئے اشرف جلالی صاحب وہ ان نئے مطالبات کے لئے لاہور میں دھڑنے پر بیٹھ گئے ہیں ۔ادھر گزشتہ روز پنجاب ہاوس میں سابق وزیر اعظم نوازشریف نے سینئرز رہنماوں کے ساتھ میٹنگ کی ۔ان کا کہنا تھا کہ بتایا جائے کہ فیض آباد معاہدہ یکطرفہ طور پر کیسے طے پاگیا ؟نوازشریف صاحب اس کا جواب تو آپ کو شہباز شریف ہی دے سکتے ہیں ؟میاں صاحب فیض آباد معاہدے سے خوش نہیں ہیں ۔پنجاب ہاوس میں جو اجلاس ہوا ،اس کی اندرونی کہانی کچھ یوں ہے کہ نواز شریف نے اجلاس کے دوران کہا کہ سمجھوتے یا معاہدے میں جو یکطرفہ زبان استعمال کی گئی ہے اس سے وہ ناخوش ہیں ،فیض آباد میں تین ہفتوں میں جو تماشاہوا اس کی گونج پیرس،لندن،واشنگٹن اور بیجنگ تک گئی ہوگی ،ان ملکوں نے تشویش کا اظہار کیا ہوگا ۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ پچھلے چار سالوں کے دوران ہماری حکومت دنیا کو یہ پیغام دے رہی تھی کہ پاکستان میں انتہاپسندی کم ہو رہی ہے ،اب پیغام جارہا ہے کہ پاکستان میں انتہاپسندی کو تحفظ فراہم کیا جارہا ہے ۔ویسے نوازشریف صاحب کے سوالات بڑے اہم ہیں کہ معاہدہ کیوں اور کیسے ہوا؟سنا ہے کسی نے نوازشریف صاحب کے اس سوال کا جواب نہیں دیا ۔خادم حسین رضوی نے سماٗ نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئےفرمایا ہے کہ ہم نے فیض آباد معاہدے کے حوالے سے کسی سویلین حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ فوج کے ساتھ مزاکرات کئے تھے۔زاہد حامد سے استعفی بھی فوج کے کہنے پر دیا گیا ۔جب خادم حسین رضوی سے سوال کیا گیا کہ کیا شہبازشریف نے ثالثی کا کردار ادا کیا تھا ؟تو اس پر ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف جھوٹ بول رہا ہے ،ثالثی میں اس کا کوئی کردار نہیں تھا ۔زاہد حامدکا ستعفی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے کہنے پر دیا گیا ۔ماہرین سیاست بھی یہی فرما رہے ہیں کہ فیض آباد معاہدہ طاقتور ریاست کی وجہ سے سامنے نہیں آیا بلکہ طاقتور ریاستی اداروں کی وجہ سے ہوا ۔ویسے دیکھا جائے تو زاہد حامد کے مستعفی ہونے کے پیچھے شہبازشریف کا بھی ہاتھ ہے ،دیوار پر شہد تو انہوں نے لگایا تھا ،جب محترم نے چار اکتوبر کو فرمایا تھا کہ جو بھی وزیر زمہ دار ہوا اسے کابینہ سے نکال دیا جائے گا ۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے معاہدہ پر جو تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا تھا ،اس کا جواب بھی لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس نے ایک کیس کی سماعت کے دوران دے دیا ہے ،جسٹس قاضی محمد امین احمد نے ناصر عباس شیرازی کی گمشدگی کے مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ فوج نے معاہدہ کراکر ملک کو ایک بہت بڑی تباہی سے بچالیا ہے ،اگر فوج فیض آباد دھڑنے کے حوالے سے کردار ادا نہ کرتی تو بہت سے لوگ مارے جاتے ۔جن افراد کو لاکھوں انسان ووٹ دیکر پارلیمنٹ میں بھیجتے ہیں ،ان کے مستقبل کا فیصلہ اب عوام نہیں پیر مرشد کریں گے ،یہ بھی ایک نیاٹرینڈ متعارف کرادیا گیا ہے ۔جی ہاں مسلم لیگ ن کے ایم این ائے شیخ محمد اکرم نے میڈیا کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ مسلم لیگ ن کے 15 اراکین اسمبلی نے پیر حمیدالدین سیالوی کو اپنے استعفی جمع کرادیئے ہیں ،حکومتی نمائندوں سے ملاقات کے بعد اب پیر صاحب فیصلہ فرمائیں گے کہ استعفوں کا کیا کرنا ہے ؟شیخ محمد اکرم کے مطابق پیر حمیدالدین سیالوی اب ان کی قسمت کا فیصلہ کریں گے ،وہ جو فیصلہ کریں گے ،قبول کیا جائے گا ۔کیا کمال کی جمہوریت اور پارلیمنٹ ہے کہ اب اب استعفی اسپیکر کی بجائے پیرو مرشد کو جمع کرائے جارہے ہیں ۔پیر صاحب نے فرمادیا ہے کہ رانا ثنااللہ ان کے حضور پیش ہوں ،دوبارہ کلمہ پڑھیں ،دوبارہ مسلمان ہوں،اس کے بعد قوم سے معافی مانگیں ،تب ہی انہیں معاف کیا جائے گا ،یہ بھی پاکستان کی جمہوریت کے حوالے سے ایک بہت بڑی ڈیویلپمنٹ ہے ۔ویسے اگر دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن چار دھڑوں میں تقسیم ہو چکی ہے ،ایک وہ مسلم لیگ ہے جو سلطنت عباسیہ کا حصہ ہے ،ایک حصے کی نمائندگی شہباز شریف کررہے ہیں ،جنہیں سمجھ نہیں آرہی کہ وہ کیسے معاملات کو ہینڈل کریں ،ایک میاں صاحب نوازشریف کا دھڑا ہے ،اس کے علاوہ ایک مسلم لیگ pmlnp ہے جس کی نمائندگی پیر صاحب کررہے ہیں ،جی جی وہی پیر صاحب جنہیں مسلم لیگ ن کے پندرہ اراکین اسمبلی کے استعفی دیئے گئے ہیں۔بھیا جب مرکزی لیڈر شپ تتر بتر ہوگی تو ایسا تو ہوگا ۔بی بی سی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فیض آباد دھڑنے کے دوران دو پولیس اہلکاروں کو بھی اغوا کیا گیا تھا ،ان کو دھڑنے والوں نے اغوا کیا ،شدید ٹارچر کا نشانہ بھی بنایا گیا ،ان کے نام اسلم حیات اور امانت علی ہیں جن کا کہنا ہے کہ ان پر تشدد ہوا اور دھمکی دی گئی کہ پٹرول چھڑک کر ان کو آگ لگادی جائے گی۔اس سے یہ ثابت ہوا کہ پنجاب پولیس کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ،کچھ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ فیض آباد دھڑنے کا برپا ہونا افسوسناک تھا ،بی بی سی کے مطابق دھڑنے کے خلاف آپریشن کی ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ ماڈل ٹاون واقعے کے بعد پنجاب پولیس اہلکار خوف زدہ تھے ،اور وہ آپریشن کے حق میں نہیں تھے ۔اوپر سے پیچھے سے ہجوم نے حملہ کردیا ،جس کی وجہ سے پولیس خوف زدہ ہوگئی اور فیض آباد میدان جنگ بن گیا ۔بی بی سی رپورٹ کے مطابق ہجوم کے پاس آنسو گیس کے شیل اور ماسک تھے ،اس کے علاوہ بھی ان کے پاس اسلحہ تھا جو نجانے کیسے ان تک پہنچا ،اسی وجہ سے پولیس آپریشن میں گرینڈ ناکامی ہوئی ۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق فیض آباد دھڑنے کے خلاف جو آپریشن کیا گیا اس میں پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت ایک پیج پر نہیں تھی جس کی وجہ سے آپریشن ناکام ہوا ۔جب دو ہزار چودہ میں اسلام آباد میں دھڑنا کے خلاف آپریشن کیا گیا تھا تو اس کے بعد اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے فرمایا تھا کہ اب انٹی رائیٹنگ فورس بنائی جائے گی ،یہی بیان اب احسن اقبال نے دہرایا ہے کہ فیض آباد آپریشن کی ناکامی کے بعد سوچا جارہا ہے کہ جلد ہی اینٹی رائیٹنگ فورس بنے گی ۔بھیا کیا اکھاڑ لو گے ،کبھی ڈالفن فورس بن جاتی ہے ،کبھی کوئی اور فورس ،اس کا کیا فائدہ ہوا ،سوائے اس کے کہ ان کے پاس بہترین بائیکس ہیں ،شاندار وردیاں ہیں جو سوشل میڈیا پر نظر آتی ہیں ۔اے پی ایس اسکول کا واقعہ ہوا تھا جس میں دہشت گردوں نے سینکڑوں بچوں کا قتل عام کیا ،اس خونی واقعے کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنا ؟کہاں ہے وہ نیشنل ایکشن پلان؟حکومت کو چاہیئے کہ وہ نیشنل ایکشن پلان کو دفع کرے اور ایک ٹائپ رائیٹنگ فورس بنائے جو فوری طور پر معاہدوں کو ٹائیپ کرے اور اس طرح پورے پاکستان کے امن کو بحال کیا جائے۔سنا ہے شہر اقتدار یعنی اسلام آباد میں ایک دکان ایسی بھی ہے جسے پارلیمنٹ کا کہا جاتا ہے ،سنا ہے کہ اس دکان کو بھی اب پیروں فقیروں کے حوالے کیا جارہا ہے ۔یہ سنی سنائی باتیں ہیں ،کوئی یقین کرے یا نہ کرے اس کی مرضی ؟ایک ہیں سنیٹر گزشتہ روز انہوں نے سینٹ میں کہا کہ فیض آباد معاہدہ ہوگیا ،حکومت اور ریاست نے پارلیمنٹ کو کو انفارم کرنا ہی مناسب نہیں سمجھا ،کیا مجبوریاں تھی کہ فوج کو مداخلت کرنی پڑی اور معاہدہ کرانا پڑا ؟ویسے اس ملک میں پارلیمنٹ جیسی دکان کا کیا فائدہ ؟جمہوریت کی دکان کا کیا فائدہ ؟خوامخواہ الیکشن ہوتے ہیں ،اربوں روپیے خرچ کئے جاتے ہیں ،مجھے تو پاکستان میں بھکاری جمہوریت اور پارلیمنٹ پر ترس آتا ہے ،بھیا حکومت پیروں فقیروں اور طاقتور ریاستی اداروں کو دو ،ریاست ان کے حوالے کرو ،یہ جمہوریت جمہوریت کا ڈرامہ بند کرو ۔اچھا سوشل میڈیا والے بھی بادشاہ لوگ ہیں کہتے ہیں میڈیا خادم حسین رضوی کی پریس کا نفرسیں کیوں دیکھا رہا ہے ،کیوں نہ دیکھائے حکومت اور ریاست امن ا امان کے لئے اس سے معاہدے کررہی ہے؟معاہدے میں لکھا ہے کہ تحریک لبیک ایک پرامن جماعت ہے جو تشدد اور بدامنی پر یقین نہیں رکھتی ،یہ وہ جملہ ہے جو فیض آباد معاہدے کے شروع میں لکھا ہے ،ایسی پر امن جماعت کے قائد کو میڈیا کیوں نہ دیکھائے ؟نیک محمد ،صوفی محمد اور اب خادم حسین رضوی اسی کا نام پاکستان ہے ۔انہی سے معاہدے ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے ،اس وقت تک جب تک جمہوریت اور پارلیمنٹ بھکاری اور لاچار رہے گی ۔تحریک انصاف والے بھی کمال کے لوگ ہیں سب کچھ ہوگیا اب بھی یہی کہے جارہے ہیں حکومت مستعفی ہو ،نئے الیکشن کرائے جائیں ،بھیا پچھلے الیکشن میں آپ نے کیا اکھاڑ لیا ،کیا نئے انتخابات میں جو حکومت اور پارلیمنٹ وجود میں آئے گی تو اس وقت اس طرح کے دھڑنے اور معاہدے نہیں ہوں گے ،جب ایسا ہی ہوگا تو کاہے کہ الیکشن اور کاہے کی جمہوریت ،دھڑنا سیاست کا آغاز کرکے اسی تحریک انصاف نے ہی پارلیمنٹ اور جمہوریت کا بیڑہ غرق کردیا ہے اور پھر اسی جمہوریت کی بات کرتے ہیں ،شرم ان کو مگر نہیں آتی؟اب اسلام آباد میں ہر گروہ کانمائشی پروگرام چلے گا ،اب گروہ جیتتے رہیں گے اور ریاست خودکشی کرتی رہے گی ،اسی کو پاکستان کہتے ہیں ۔اب نئے اونٹ کا انتظار ہے ۔بہت جلد ایک فرقہ دوسرے فرقے کے خلاف دھڑنے دے گا ،اس جانب بھی پیش قدمی شروع ہو گئی ہے ،بھیا ریاست سلنڈر کرچکی ہے ،ریاست اب کہیں نہیں ہے ،یہ جو کہتے تھے کہ ریاست ہوگی ماں جیسی ،وہ بھی خاموش ہیں ،اور ان کو پالو ،انہیں گوشت کھلاو ،طاقتور بناو ،سب مریں گے ،صرف گروہ اور گروپس کی حکومت ہوگی اور پھر منطقی انجام خانہ جنگی ،اس کے علاوہ پاکستان کہیں نہیں جارہا ۔اللہ ہم سب پر رحم فرمائے ،اس کے علاوہ پاکستان کے مشکلات کے حل کے لئے میرے پاس کوئی جواب نہیں ۔۔۔۔۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔