ایک وقت تھا میں سب کے ساتھ اچھا تھا۔
میٹھے پانی کے کنویں کی طرح۔
سب کے لیئے برابر۔
سب کی پیاس بجھانے والا۔
کچھ پیاس بجھا کر منہ موڑ لیتے تھے۔
کچھ پتھر پھینک کر تماشا دیکھتے تھے۔
بہت ہی کم لوگ ایسے تھے جو پانی پی کر اللہ کا شکر ادا کرتے تھے۔
کسی کو میری پروا نہیں تھی۔
سب کی اپنی اپنی غرض تھی۔
اور میں سب کے رویے سے پریشان ہو جاتا تھا۔
سب کی پیاس بجھانے والا کنواں خود پیاسا رہ جاتا تھا۔
پھر رب نے مجھ کنویں پر ترس کھا کر اس کے پانی کو منجمد کر کے اسے آئینہ بنا دیا۔
میں سب کو وہی دکھانے لگ گیا جو وہ تھے۔
سب کے ساتھ بالکل ویسے ہی پیش آنے لگ گیا جیسے وہ میرے ساتھ پیش آ تے تھے۔
اب مجھے کوئی بشر دکھ نہیں دیتا۔
اب میں ہر ایک سے خوش ہوں۔
مجھے کوئی برا نہیں لگتا۔
مجھے سب سچے لگتے ہیں۔
جو مجھے برا کہتا ہے وہ بھی سچ کہتا ہے۔
جو مجھے اچھا کہتا ہے وہ بھی سچ کہتا ہے۔
آیئنے میں سب کو اپنا عکس نظر آتا پے۔
سب سچ کہتے ہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...