حیدرآباد دکن کے آصف جاہی حکمران نظام سابع میر عثمان علی خان کی طرف سے پنڈت مدن موہن مالویہ کو جوتا پھینک مارنے کا واقعہ گوگل سرچنگ پر ہندی، انگریزی اور دیگر علاقائی زبانوں کی متعدد مشہور و مقبول ویب سائٹس پر مل جاتا ہے۔ کیا اسے سچ مان لیا جائے گا کہ بھئی گوگل میں ملا ہے؟ جبکہ حیدرآباد کے ممتاز مورخین و محققین نے دلائل کے ساتھ اس واقعہ کو جھوٹا ثابت بھی کر رکھا ہے۔
اصل بات اتنی ہے کہ گوگل کوئی مصدقہ سورس نہیں، بلکہ دور حاضر کی تیکنیکی مشین ہے بس، جو اپنے الگورتھم کے ذریعے ہمارے مطلوبہ مواد کو لمحہ بھر میں ڈھونڈ کر سامنے لا دیتی ہے۔۔۔۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ گوگل سے سامنے آنے والی ہر بات سچ و حق ہوتی ہے!
انٹرنیٹ پر تو جھوٹ، سچ اور آدھا سچ، آدھا جھوٹ سب کچھ خلط ملط ہو کر بھرا پڑا ہے۔۔۔ تو جو کچھ اس سائبر دنیا میں موجود ہے، گوگل وہی سامنے لائے گا، یہ تھوڑی بتائے گا کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ؟
حق اور سچ کے لیے متعلقہ میدان کے معتبر ماہرین کے دلائل یا تحقیقی کتب کا حوالہ درکار ہوتا ہے۔
ابھی پرسوں کھانے کی میز پر، دونوں برخوردار کو خبردار کرتے ہوئے انٹرنیٹ کے فوائد کے ساتھ ساتھ “نشہ” کی تشریح بھی کرتا رہا کہ: ہر وہ لت جو حد پار کرے “نشہ” کی طرف لے جاتی ہے اور نشہ گمراہی کی طرف ۔۔۔ اب چاہے وہ موبائل گیمز ہوں، ٹک ٹاک یا یوٹیوب کا نظارہ ہو یا سوشل میڈیا پر وقت گزاری۔۔۔ ویسے ہی نشہ ہے جیسے سگریٹ/گٹکھے کا نشہ۔
دوسرے دن کسی پرانے تصویری البم سے نکالی گئیں دو تصویریں، مجھ عاجز کے کمپیوٹر ڈیسک پر دھری تھیں! 😏
تنبیہ بلیغ:
فرد کے مزاج، عادات اور رویوں کی گواہی اہلِ خانہ، قریبی اعزہ، پڑوسی اور دوستوں سے ملتی ہے، تصویروں سے نہیں! 👊
نوٹ:
فوٹو کریڈٹ: راقم کے کزن عظیم قریشی، 1988ء کا کوئی دن۔
***
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...