سب مقبول لیڈر انڈین ایجنٹ کیوں ہوتے ہیں؟
مدتوں ہم یہی سمجھتے رہے کہ پاکستان کے ہر صوبے میں’ انڈین ایجنٹ ‘ اُگتے ہیں مگر پنجاب کی سرزمین اس معاملے میں یکسر بنجر ہے۔ آپ خود دیکھ لیجئے، صوبہ سرحد میں باچا خان، سندھ میں جی ایم سّید، بلوچستان میں شیر محمد مری، مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الر حمن اور ان جیسے درجنوں تھے جنہیں انڈین ایجنٹ قرار دیا گیا، بس ایک پنجاب تھا جس میں صرف سچے اور پکے پاکستانی پیدا ہوتے تھے۔ ہم پنجابی اسے اعزاز کی بات سمجھتے تھے۔ (گو کہ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے ہمارے دوست پنجاب کے اس ’بانجھ پن‘ کی کچھ ایسی وجوہات بتاتے کہ وقتی طور پر ہم بھی احساسِ محرومی کا شکار ہو جاتے تھے)
افسوس کہ اب یہ اعزازپنجاب سے چھن چکا ہے، اور اس سانحے کے ذمہ دار ہیں ایک سابق، نااہل وزیراعظم میاں محمد نواز شریف، جن کے بارے آئے روز’باخبر ذرائع‘ قوم کو بتاتے رہتے ہیں کہ وہ ایک مستند اور جید انڈین ایجنٹ ہیں۔ شک تو خیر چند حلقوں کو پہلے سے تھا، کیونکہ نواز شریف بالی ووڈ کی فلمیں دیکھتے تھے، لتا منگیشکرکو پسند کرتے تھے اور روینہ ٹنڈن ان کی پسندیدہ اداکارہ تھیں، مگر پھر کچھ اور ناقابلِ تردید شواہد بھی سامنے آ گئے۔ ہندوستانی وزیر اعظم واجپائی 1999 میں اپنے خراب گھٹنوں کے باوجود، بس میں بیٹھ کر نواز شریف سے ملنے لاہور آئے، پھر 2015ء میں ہندوستانی وزیر اعظم مودی رائے ونڈ آ کر نہ صرف نواز شریف سے ملے بلکہ اُن کی نواسی کی شادی میں بھی شرکت کی۔ پھر 2016 میں ایک سجن جندل نام کے معروف تاجر ہندوستان سے تشریف لائے جنہوں نے نواز شریف سے مری میں ’خفیہ‘ ملاقات کی۔ (سب جانتے ہیں کہ انڈیا سے کوئی چھوٹا موٹا شخص بھی آ جائے تو ایجینسیاں اس پر نظر رکھتی ہیں، مگر نواز شریف اتنے سادہ ہیں، اتنے سادہ ہیں کہ بس)۔ اور آپ کو یاد ہی ہو گا کہ سپریم کورٹ کی بنائی ہوئی جے ائی ٹی کی رپورٹ کا ایک حصہ خُفیہ رکھا گیا تھا اور ’باخبر ذرائع‘ نے قوم کو بتایا تھا کہ اس میں نواز شریف کے ہندوستان میں کاروباری مفادات کی تفصیل ہے، اور اگر اسے مشتہر کر دیا گیا تو ساری قوم نواز شریف کا اصلی چہرہ دیکھ لے گی، ایک انڈین ایجنٹ کا چہرہ جس کے ماتھے پر تلک کا نشان ہو گا۔ (یہ تو سپریم کورٹ کی شفقت ہے کہ اُس نے رپورٹ کا یہ حصہ مشتہر نہیں کیا)
’تم دل کو سنبھالو جس میں ابھی سو طرح کے نشتر ٹوٹیں گے‘، نواز شریف اکیلے نہیں ہیں، اور بھی بہت سے پاکستانی سیاستدان انڈین ایجنٹ ہونے کا ’اعزاز‘ حاصل کر چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کبھی کسی ہما شما سیاستدان کو یہ خلعت فاخرہ عطا نہیں ہوئی، ’یہ وہ رُتبہ ہے جو شاہوں کو ملا کرتا ہے،‘ صرف اور صرف ملک کے مقبول ترین سیاستدانوں کو ہی اس عزت افزائی کے قابل سمجھا گیا ہے۔ کہاں سے شروع کیا جائے؟ زمانی ترتیب اور حفظِ مراتِب، دونوں کا تقاضا ہے کہ یہ قصہ مادرِ مِلت محترمہ فاطمہ جناح سے آغاز کیا جائے۔
فاطمہ جناح نے بیس سال اپنے بھائی قائد اعظم محمد علی جناح کے ہم رکاب، صبح شام سیاسی جدوجہد کی اور تحریک پاکستان میں اپنے بھائی کی ان تھک مدد گار رہیں ۔ قائد اعظم کی وفات کے بعد اہل حکم نے ’وسیع تر قومی مفاد‘ میں مادر ملت کا رابطہ عوام سے کاٹ دیا، نہ ان کا لکھا چھپ سکتا تھا نہ انہیں تقریرکی اجازت تھی۔ 1964ء تک مادر ملت کسی گوشہ گمنامی میں ’عزت‘ سے پڑی رہیں ۔ لیکن یہ’ عزت‘ انہیں راس نہ آئی، اور انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کے اصرار پر فیلڈ مارشل ایوب خان کے مقابل صدارتی الیکشن لڑنے کی حامی بھر لی۔ قوم کی ماں سے یہ ایک گناہِ کبیرہ سرزد ہو گیا، اس کی سزا تو بہر حال انہیں ملنا تھی لہذا، ایوب خان نے ٹائم میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ’فاطمہ جناح انڈین ایجنٹ ہے‘۔ پاکستانی قوم آج تک اس انکشاف پر شرمندہ ہے۔ (آپ خود سوچئے اگر آپ کو پتا چلے کہ آپ کی ماں انڈین ایجنٹ ہے، تو شرمندگی تو ہو گی)
مادرِ ملت کے بعد جس سیاست دان کو مقبولیت کی معراج عطا ہوئی وہ تھے ذوالفقار علی بھٹو۔ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ وہ بھی ہندوستانی ایجنٹ نکلے، بلکہ ان کا کیس تو اور بھی بگڑا ہوا تھا۔ جب بھٹو صاحب کا تختہ اُلٹا گیااور اُن کی پھانسی کا فیصلہ ہو گیا تو عوام کو قائل کرنے کے لئے یہ ضروری سمجھا گیا کہ انہیں ان کے محبوب لیڈر کا اصلی چہرہ دکھایا جائے۔ لہذا باخبر ذرائع نے بتایا کہ ’بھٹو کی ماں ایک ناچنے والی تھی، لکھی بائی، جو دکھاوے کے لئے مسلمان ہو گئی اور اُس کا نام خورشید بیگم رکھا گیا۔ اُس نے اپنے اکلوتے بیٹے کا نام گھانسی رام رکھا اور ہندو عقائد کے مطابق اس کی پرورش کی، گو کہ بظاہر وہ مسلمان تھا اور دنیا اسے ذوالفقار علی بھٹو کے نام سے جانتی تھی‘۔
جب بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تو میت کی تصاویر اتارنے کے لئے صرف ایک خفیہ ایجنسی کا فوٹو گرافر بھیجا گیا، جس نے بھٹو صاحب کی ایسی تصویر بھی اتاری جس سے اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ انکے ختنے ہوئے تھے یا نہیں۔ اس سارے قصے کے راوی کرنل رفیع الدین اپنی کتاب ’بھٹو کے آخری 323 دن‘ میں لکھتے ہیں کہ بھٹو مختون تھے۔ ایوب خان ہی بھٹو کو سیاست میں لائے تھے، کاش وہ اِبتدا میں ہی بھٹو کو ٹھونک بجا کر ’چیک‘ کر لیتے تو قوم کے پچھلے پچاس سال سیاسی محاربے کی نذر نہ ہوتے۔
شیخ مجیب الرحمن 1965 کے صدارتی الیکشن میں مشرقی پاکستان میں مادرِ ملت کی بھر پور انتخابی مہم چلاتے رہے، مگر بعد ازاں انڈین ایجنٹ بن گئے، اِدھرجو صاحب ایک کتیا کے گلے میں مادر ملت کا انتخابی نشان لالٹین ڈال کر گوجرانوالہ کی گلیوں میں پھرتے تھے، بعد ازاں سچے پکے پاکستانی بن گئے۔ یہ تو خیر ایک جملہ معترضہ تھا، آگے چلئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پاکستان کی مقبول ترین سیاسی رہنما تھیں اُن کی بیٹی بے نظیر بھٹو۔ وہ روزِ اول سے اپنے شجرہِ نسب کے باعث مشکوک ٹھہریں، لہذا بے نظیر بھٹو اور راجیو گاندھی کی گفتگو خفیہ ایجنسی نے ٹیپ کی، اور ملک کے ایٹمی راز نا قابل بھروسہ بے نظیر سے ’محفوظ رکھے گئے ۔ یاد رہے کہ بے نظیر نے سکھ ’حریت پسندوں‘ کی فہرست بھی ہندوستان کو فراہم کی جس سے خالصتان کی تحریک ہمیشہ کے لئے دفن ہو گئی۔ (یہ نہیں سمجھ آتی کہ یہ فہرست بے نظیر کو کس نے دی، کیونکہ جو لوگ ایسی فہرستیں بناتے ہیں ان کے لئے تو بے نظیر پہلے دن سے ایک ناقابلِ اعتبار خاتون تھیں)۔
(’میں نے جو سنگ تراشا، وہ خدا ہو بیٹھا‘ کی ایک تفسیر الطاف حسین بھی ہیں)
خیر یہ بھی غنیمت ہے کہ باقی ریاستی ادارے اس علت سے پاک ہیں، کبھی کسی ادارے کے سربراہ پر انڈین ایجنٹ ہونے کا الزام نہیں لگا، (پوسٹل) سروسز سے لے کر عدالت عظٰمی تک، الحمداللہ، سب محفوظ ہیں۔ بس یہ سیاست دانوں کا پتا نہیں کیا مسئلہ ہے۔ ویسے تو شوکت عزیز سے معین قریشی تک سب بڑے اچھے پاکستانی تھے، بس یہ جو مقبول سیاست دان ہیں یہ ان کا مرضِ مخصوصہ ہے، سب کے سب انڈین ایجنٹ۔
ستر سال ہو گئے، بہت ہو گئی، اب بس کر دیں۔ کیا آپ ہمیں پاگل سمجھتے ہیں؟