میرے گھر کے ساتھ ایک مارکیٹ میں پرانی اشیاء کی خرید و فروخت کی گیارہ دوکانیں ہیں۔
ہر دوکان پر چار سے پانچ کام کرنے والے، پاکستانی، بھارتی اور بنگالی ہیں۔
یہاں پر گھروں میں اسٹور بنانے کا رواج ختم ہوچکا ہے، اس لیے گھروں میں کوئی بھی شخص چیزیں جمع نہیں کرتا ہے۔ ہر چند ماہ بعد، فلیٹ، گاڑی، صوفے، قالین، فرنیچر، اے سی، ٹی وی فریج وغیرہ تک لوگ حسب ضرورت تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ جو رہائشی اپارٹمنٹ فل فرنشڈ ہیں وہ بھی کچھ عرصے بعد اپنا سارا سامان اٹھا کر یا تو پھینک دیتے ہیں یا فروخت کر دیتے ہیں۔
اب یہ گیارہ دوکانوں اور ان جیسی کئی دوکانوں والوں کا اس نظام سے باقاعدہ کاروبار وابستہ ہوچکا ہے۔
میرے کچھ دوست ہیں تو ان کے پاس جاکر گپ شپ کی غرض سے چلا جاتا ہوں۔ آئیے آج ان کے سسٹم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ان لوگوں کی اس کاروبار میں، دوکان کا کرایہ، لائسنس، بل اور تین گاڑیوں وغیرہ کے علاوہ باقی انویسٹمنت بالکل صفر روپیہ ہے۔
ایک تو ان لوگوں کا ایک پکا ٹھکانہ بن چکا ہے، کسی کو کچھ پرانا سامان بیچنا یا خریدنا ہو تو سیدھا ان کے پاس آتا ہے۔
دوسرا یہ اولیکس oLx ، فیس بک اور اس جیسے دیگر کلاسیفائیڈ اشتہارات کے پلیٹ فارمز کو ہر وقت سرچ کرتے رہتے ہیں۔ وہاں بیک وقت خریدار اور مال بیچنے والے دونوں موجود ہوتے ہیں، کسی کو کچھ ضرورت ہو تو ہو اپنی ضرورت کا اشتہار لگا دیتا ہے، تو یہ اس تک اپنے سامان کی تصاویر بھیج دیتے ہیں، کوئی شخص سامان سے بھرا پورا خیمہ فروخت کررہا ہو،, فیکٹری والے پرانی مشینری، ہوٹل والے اپنا پرانا سامان تھرو اوے یا گیو اوے کررہے ہوں، تو بھی یہ ان سے فوراً رابطہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے وٹس ایپ گروپ، براڈکاسٹ لسٹ، فیسبک گروپ اور پیجز بنا رکھے ہیں، ان پر خریدا ہوا مال مشتہر کرتے رہتے ہیں۔
ان لوگوں کا ایک غیر محسوس سا اتحاد بن چکا ہے۔ جس کے اندر انہوں نے اپنے خریدنے کے لیے غیر اعلانیہ طور پر چیزوں کی قیمتیں طے کررکھیں ہیں۔
مثلاً کوئی اپنے گھر کا اے سی فروخت کرنا چاہے تو اگر ایک دوکاندار دو ہزار روپیہ ریٹ لگائے گا تو باقی دوکاندار دو ہزار یا اس سے کم ہی لگائیں گے، دو ہزار ایک روپیہ بھی کوئی نہیں لگائے گا۔
اس طرح ہر موٹے موٹے آئٹمز کا ریٹ تقریباً فکس ہے، لیکن چھوٹی اشیاء کا کوئی فکس نہیں۔
سب نے مل جل کر تین شہہ زور یا ڈالا ٹائپ گاڑیاں لے رکھیں ہیں، جنہیں یہاں پر six wheel کہا جاتا ہے۔
یہ اب دو طرح کی سروس دیتے ہیں۔
آپ نے گھر کا پورا سامان یا صرف ایک صوفہ ہی بیچنا ہے تو جو قیمت طے کریں گے اس میں یہ آپ کے گھر سے سامان، کھولنے ، جوڑنے سے لیکر دوکان تک لانے کی ذمہ داری بھی اٹھاتے ہیں۔
یہاں فرنیچر کو سکریو یا کیل وغیرہ نہیں لگتے، کلپس اور ہک وغیرہ کے ساتھ پورا فرنیچر جڑا ہوتا ہے، جسے کوئی بھی آسانی سے کھول جوڑ سکتا ہے۔
اسی طرح کوئی چیز فروخت کریں گے تو آپ کے گھر کے اندر لے جاکر فکس کرنے تک کا کام بھی طے شدہ پیسوں میں کرتے ہیں۔
اکثر یہ سامان جس گھر سے خریدتے ہیں تو صاحب منزل سے ایک دو دن میں سامان اٹھانے کا کہہ کر سامان وہاں ہی دو چار دن کے لیے پڑا رہنے دیتے ہیں، اور کسی گاہک کو تلاش کرکے، وہاں سے ہی سارا سامان اٹھوا دیتے ہیں۔
اگر دوکان پر لائیں، تو فرنیچر کی خود ہی تھوڑی بہت مرمت، ہلکا پھلکا پالش کا ٹچ، کیل قبضے وغیرہ کی تبدیلی کردیتے ہیں۔ فریج، واشنگ مشین، اے سی کو دھو کر داغ دھبے دور کرتے ہیں، رنگ کرنا ہو تو سپرے رنگ سے چمکا لیتے ہیں۔
جہاں سب بکتا ہو، وہاں کچھ بیچ دے یا کچھ خرید لے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...