بھٹو کے دور میں ایک سات رکنی پاکستانی ثقافتی وفد واگہ باڈر کے راستے انڈیا گیا۔ دوسری طرف پاکستانی سات رکنی ثقافتی وفد کے استقبال کی بہت تیاریاں کی گئی تھیں، ہر رکن کے لیے الگ الگ گاڑی کا انتظام تھا۔ ایسے میں انڈین استقبالی کمیٹی کیا دیکھتی ہے کہ پاکستان کی طرف سے ایک آدمی اپنا کچھ سامان ہاتھ میں پکڑے اور کچھ قلی کو پکڑائے چلا آ رہا ہے اور جا کر استقبالی کمیٹی کے سرپنچ کو ہاتھ ملا کر کہنے لگا۔
"میں ڈاکٹر انور سجاد پاکستانی ادیب"۔۔۔
استقبال کرنے والوں نے سجاد صاحب کو گلے لگایا اور ان کے گلے میں دو تین ہار ڈالے اور باڈر کی طرف دیکھنے لگ گئے۔ جب کوئی اور نظر نہ آیا تو استقبالی کمیٹی کے ایک آدمی نے کہا۔ سجاد جی آپ کے ساتھ ایک رقاص نے بھی آنا تھا۔ ڈاکٹر انور سجاد نے کہا وہ رقاص بھی میں ہی ہوں۔ استقبال کرنے والوں نے پھر سے انور سجاد کو گلے لگایا اور دو تین ہار سجاد صاحب کے گلے میں ڈال کر پھر بارڈر کی طرف دیکھنے لگ گئے مگر جب پھر کوئی نظر نہ آیا تو انہوں نے پھر سجاد انور سے پوچھا۔ سجاد جی آپ کے ساتھ ایک پینٹر نے بھی تو آنا تھا۔ ڈاکٹر انور سجاد نے کہا وہ پینٹر بھی میں ہی ہوں۔ استقبالیوں نے ایک دفعہ پھر ڈاکٹر انور سجاد کو گلے لگایا پھر دو تین ہار سجاد انور کے گلے میں ڈالے اور پھر بارڈر کی طرف دیکھنے لگ گئے۔ مگر وہاں سے کس اور نے نہیں آنا تھا، آخر استقبالی کمیٹی کے ایک سردار جی نے کہا۔
او سجاد صاحب تسی تلاشی دو تہاڈے وچ ہور کون کون اے۔۔۔ سجاد جی اپنے اندر سے ادیب، رقاص، پینٹر، ڈرامہ،آرٹسٹ، اسکرپٹ رایٹر، ڈائریکٹر، ڈائریکٹر، اور دانشور نکالتے رہے اور اپنے گلے میں ہار ڈلواتے رہے۔۔۔۔۔ اور پھر استقبالی کمیٹی ان سات آدمیوں والے ایک ادمی کو اور اس کے گلے میں پڑے سات آدمیوں کے ہاروں کو ایک کار میں بٹھا کر لے گئے۔
آج وہ سات آدمیوں والا ایک آدمی اپنے گلے میں بے حسی، بے قدری، بے چارگی، نا استعمال ہوئے فنون، ان لکھے ناول، افسانے، ڈراموں کے ہار اپنے گلے میں ڈالے ایک تابوت میں لیٹ کر جا رہا ہے۔ لگتا ہے سات آدمیوں والا ایک آدمی نہیں گیا سات عہد چلے گئے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...