تیسرا عشرہ شروع ہو گیا ہے۔ آگ سے رہائی کا پروانہ! رحمت، مغفرت، برکت، سعادت کا مہینہ آہستہ آہستہ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے!
کیا اطمینان ہے چہروں پر! عصر کے بعد جوق در جوق اہل ایمان خریداری کو نکلتے ہیں۔ پیشانیوں پر نور اور رخساروں پر عبادت کی تمازت صاف نظر آ رہی ہوتی ہے۔ تھیلے بھرے جاتے ہیں۔ موٹر سائیکلوں پر نصف درجن شاپنگ بیگ ایک طرف اور نصف درجن دوسری طرف لٹکے ہوتے ہیں۔ گاڑیوں کی ڈگیاں اوپر تک بھر جاتی ہیں! وہ افطار جو ایک کھجور سے شروع ہوئی تھی، پورے ڈنر میں تبدیل ہو چکی ہے۔ پکوڑے، سموسے، فروٹ چاٹ، چنوں والی چاٹ، سرخ لوبیے کی چاٹ، کباب، دہی بڑے، دہی پھلکیاں، تین قسم کے مشروبات! یہ وہ آئٹم ہیں جو کم از کم ہیں! مغرب ڈھلنے والی ہوتی ہے تو نماز ادا کر کے چائے پی جاتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد اکل و شرب کا دور ثانی چلتا ہے۔ یہ کھانا، کچھ اسے ڈنر کہتے ہیں! کھانے کا دور اول ہو یا دور ثانی، ٹیلی ویژن سکرین ساتھ ساتھ رہتی ہے۔ کیا آسان دین ہے! سارے تقاضے، سارے وعظ، ساری رقت آمیز دعائیں، خوف خدا سے نکلتے ہوئے سارے آنسو، ٹیلی ویژن پر ہی نمٹا دیے جاتے ہیں۔ تین تین نسلوں سے جوہر دکھانے والے خاندانی مسخرے اب عاقبت کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ سنا یہ تھا کہ فرشتے سب کچھ نوٹ کرتے ہیں۔ اب ساری عبادتیں کیمرے کی آنکھ کے سامنے کی جاتی ہیں۔ کیمرہ نہ ہو تو آنسو نکلتے ہیں نہ رقت طاری ہوتی ہے۔ گھروں میں بیٹھ کر دیکھنے والے سر دھن رہے ہوتے ہیں۔ بعض تو ساتھ ساتھ رو بھی رہے ہوتے ہیں کتنے سادہ ہیں اہلِ ایمان! جنہیں روتا دیکھ کر رو رہے ہوتے ہیں وہ تو کیمرے کے سامنے آنسو بہاتے ہیں اور گلے سے بھرائی ہوئی آواز نکالتے ہیں! یہ سادہ دل کیمرے کے بغیر ہی سنجیدگی سے سسکنا شروع کر دیتے ہیں!
کیا آسان دین ہے! کاروں، موٹر سائیکلوں، ٹیلی ویژن سیٹوں اور سینڈوچ میکروں کے انعامات‘ نیلامیاں اور اشتہارات۔ سب کچھ سحر و افطار کے ساتھ یک جان ہو گیا ہے! من تو شدم، تو من شدی! کیا اجتہاد ہے! تجارت کی اجازت حج کے دوران ملی تھی! اب یہ سحر و افطار تک آ پہنچی ہے! اچھوتے ملبوسات پہنے، کیا ڈاکٹر کیا ڈسپنسر، ایک طرف سے دوڑتے دوسری طرف جاتے ہیں، پھر پلٹتے ہیں اور زنخوں کی طرح مسکرا مسکرا کر قمار بازی کے انعامات کا اعلان کرتے ہیں تو رمضان کی نہ صرف رونقیں دوبالا ہو جاتی ہیں‘ رقت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے!
کیا اطمینان ہے چہروں پر! سحری کے بعد تلاوت بھی کی! ساری نمازیں باجماعت ہوئیں، تراویح میں قیام اللیل ہوا۔ افطار کی دعوتیں ہوئیں‘ کیا ہوا اگر ساتھ کچھ پی آر بھی ہو گئی جن سے سالانہ کارکردگی کی رپورٹ لکھوانی ہے، یا جن سے سپلائی آرڈر لینا ہے یا جو بزنس میں کردار ادا کرتے ہیں‘ اگر افطاری پر مدعو ہو گئے تو ثواب میں تو کمی نہ ہو گی!
دل میں جنگل اگا ہے۔ اتنا گھنا کہ سورج کی کرن زمین پر نہیں پڑ سکتی! اس گھنیرے جنگل میں ہر طرف سانپ رینگ رہے ہیں۔ چھوٹے سانپ، بڑے سانپ، کالے سانپ، بھورے سانپ‘ ایسے ایسے سانپ جن کے زہر کا ایک قطرہ سال ہا سال کے ثواب کو ڈس جائے تو سب کچھ ختم! سانپ ہی سانپ! ہر طرف سانپ ہی سانپ!
پہلا سانپ ریا کاری کا ہے۔ بس دوستوں عزیزوں کو کسی طرح معلوم ہوجائے کہ تہجد کے لیے اٹھتے ہیں۔ محلے کی مسجد کے لیے ہزاروں روپے دیے ہیں! ختم قرآن پر مٹھائی کا بندوبست کیا ہے۔ عید پر کپڑوں کے تھان تقسیم کیے ہیں۔ ٹیلی فون پر کوئی پوچھتا ہے اور ملازم یا پی اے بتاتا ہے کہ نماز پڑھ رہے ہیں تو یہ آواز کان میں جیسے شہد گھول دیتی ہے! اطمینان کی ایک لہر دل کے نہاں خانے سے اٹھتی ہے اور روح کی گہرائیوں تک ٹھنڈک ہی ٹھنڈک کر دیتی ہے۔ ماتھے پر نشان ہے! محلے کی بیبیاں دیکھتی ہیں تو دوپٹوں سے سروں کو ڈھانک لیتی ہیں۔ نوجوان دیکھتے ہیں تو سلگتے سگرٹ پیٹھ پیچھے کر لیتے ہیں! الحمدللہ! سب کو معلوم ہے کہ نیکوکار ہیں! دوسرا سانپ حسد کا ہے۔ کسی کی ترقی کا سنتے ہیں تو پیٹ میں جیسے قولنج کا درد اٹھنے لگتا ہے! مبارک باد دیتے وقت اندر کی کالک روح تک پھیل جاتی ہے‘ اس امید پر کہ فلاں شخص کسی مقدمے میں پھنس جائے، عمر ہی بیت جاتی ہے! کوئی تعریف کر رہا ہو تو انتہائی چالاکی سے، ڈپلومیسی سے، منفی پہلو اجاگر کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ کوئی خوشحال ہو جائے تو اس کے آبائو اجداد کی غربت کا تذکرہ ضرور کیا جاتا ہے! یہ سانپ آہستگی سے تھوڑا تھوڑا زہر پھیلاتا ہے، قطرہ قطرہ! مگر یوں جیسے امریکیوں نے عراق پر کارپٹ بمباری کی تھی! ایک ایک انچ پر! دل کو پوری طرح لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
تیسرا سانپ تکبر کا ہے۔ فقیر کے کشکول میں کچھ ڈالتے وقت ایک دبدبہ ہے ایک شکوہ ہے‘ جو اندر سے اٹھتا ہے اور شخصیت کے ظاہر پر طاری ہو جاتا ہے! ملازم، نائب قاصد، خاکروب، مزدور سلام
کرے تو گردن تن جاتی ہے۔ بسا اوقات زبان سے نہیں، محض سر کی خفیف سی حرکت سے سلام کا جواب دیا جاتا ہے! کوئی نہ کوئی موقع خاندانی برتری جتانے کا ڈھونڈھ ہی لیا جاتا ہے! ’’ہم خاندانی لوگ ہیں‘‘ وہ فقرہ ہے جو رمضان کی مشقت کو ایک ہی جست میں زمین پر پٹخ دے! ہم خان ہیں! ہم اعوان ہیں! ہم مغل ہیں! ہمارے اجداد مغلوں کے زمانے میں یہ تھے! ایک سابق حکمران غلط انگریزی میں چہک رہے تھے کہ میرا باپ یہ تھا اور اس کا باپ یہ تھا اور اس کا باپ یہ تھا اور میرا جدامجد مغلوں کے زمانے میں یہ تھا! سفر کرتے وقت دس پندرہ گاڑیاں آگے ہوں دس پندرہ پیچھے ہوں، خلق خدا شاہراہوں پر ٹریفک رکنے سے مجبوراً کھڑی ہو تو تکبر عروج پر ہوتا ہے۔ ہے کوئی میرے جیسا؟ صاحبزادے، بھتیجے سب پروٹوکول کے حصار میں ہوتے ہیں! عوام زمین پر رینگتے کیڑوں سے بھی چھوٹے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کیفیت میں روزے کا اپنا ہی مزہ ہے! چوتھا سانپ غیبت ہے! اس سانپ کے زہر میں خاص وصف یہ ہے کہ میٹھا ہے۔ ایک بار شروع کر دیں تو چھوٹتا نہیں۔ انگلیاں چاٹ کر بھی مزہ آتا ہے۔ اب غیبت کرنے کا ایک اچھوتا انداز نکلا ہے۔ غیبت کرنے سے پہلے اعلان کرتے ہیں کہ ’’یہ ہے تو غیبت! لیکن آپ کو متنبہ کرنا ضروری ہے‘‘۔ اس کے بعد اس شخص کے بارے میں جو وہاں موجود نہیں ہر وہ بات کہی جاتی ہے جو اس کی موجودگی میں کہنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا! اس میں وہ سب کچھ شامل ہوتا ہے جس کا کہنے والے سے دور کا تعلق بھی نہیں! کسی نے اگر غلط طریقے سے کوئی کام کیا ہے یا سفارش کراکر اپنے بچے کو لگوایا ہے، یا ٹیکس چوری کیا ہے، یا اپنی
بیوی کو گھر سے نکالا ہے یا اپنے ماں باپ کے حق میں اچھا نہیں نکلا تو اس کے سامنے بات کیجیے تاکہ اسے ہوش آئے یا اخبارات میں لکھ کر حب الوطنی کا حق ادا فرمایئے، اس کی عدم موجودگی میں اس کا گوشت کھانا کیا ضروری ہے! یہ واحد ڈش ہے جو نواقض صوم میں شامل نہیں یعنی یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، مسواک اور ٹوتھ پیسٹ سے روزہ ٹوٹنے یا نہ ٹوٹنے پر گھنٹوں بحث کرنے والے غیبت کے بارے میں قطعاً متفکر نہیں۔ ماشاء اللہ نماز پڑھتے ہوئے اور تلاوت کرتے وقت سر کا ایک بال بھی ظاہر نہیں ہونے دیتیں۔ اس کے بعد حالت وضو ہی میں دور اور نزدیک کی رشتہ دار خواتین کی غیبت شروع ہوتی ہے تو اس وقت تھمتی ہے جب شام کو کچن میں سرگرمی تیز ہونے کو ہوتی ہے۔
سانپ ہی سانپ ہیں۔ پانچواں سانپ چغل خوری کا ہے، چھٹا سانپ خوشامد اور مدح سرائی کا ہے، ساتواں سانپ دشنام طرازی اور بات بات پر لعنت بھیجنے کا ہے، آٹھواں سانپ دروغ گوئی کا ہے، نواں سانپ وعدہ خلافی کا ہے، دسواں سانپ حرص کا ہے، گیارہواں سانپ اسراف اور تبذیر کا ہے، بارہواں سانپ حب جاہ کا ہے، تیرہواں سانپ غیظ و غضب کا ہے۔
الحمد للہ ! یہ سب سانپ، یہ سارے اژدہا، یہ افعی، یہ کوبرے، دل کے جنگل میں چھپے ہوئے ہیں، جنگل اتنا گھنا ہے کہ کسی اور کو تو کیا جس کا دل ہے، اسے بھی نہیں نظر آ رہے! بس رینگ رہے ہیں۔ دودھ پی پی کر موٹے ہو رہے ہیں۔ نماز ہے یا روزہ، پہلا عشرہ ہے یا آخری، افطار ہے یا سحری، تراویح ہے یا نماز باجماعت! صدقات و خیرات ہیں یا تسبیح خوانی! ان سانپوں کو کسی شے سے فرق نہیں پڑتا! ذوق یاد آ گئے ؎
نہنگ و اژدہا و شیرنر مارا تو کیا مارا
بڑے موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔