بارش شروع ہوگئی تھی اور مسلسل ہوتی جارہی تھی گھنٹوں ہونے کے بعد بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی خدا خدا کرکے کسی طرح رکی تو گھر سے ہاتھ میں چھتری لئے نکلا چونکہ ہلکی پھلکی فوارے ابھی پڑ رہے تھے اور موسم بھی بارش والا تھا اس خوف سے کہ کہیں بھیگ نہ جاؤں پہلے ہی سے احتیاطی برت لی جائے، باہر نکلا تو منظر بڑا دلکش اور طبیعت کے موافق تھا اس سے ذہن بھی خوشگوار موڈ میں آگیا، مستی سوجھی سیدھے اپنے ساتھی فرید کے گھر گیا دروازہ پر دستک دی تو اتفاق سے فرید ہی گیٹ پر ملا" بھائی کیسے آنا ہوا؟ میں نے جواباً کہا۔ تم ابھی تک گھر میں ہو باہر نکل کر نظارہ کرو کیسا خوشگوار فضا ہے ؛ گھر میں بیٹھے بیٹھے بوریت ہو رہی ہے میں بھی باہر نکلنے کا سوچ رہا تھا ؛ فرید نے مارے خوشی کے اچھلتے ہوئے کہا؛
دونوں تالاب کی اور نکل گئے جب آبادی سے دور نکل کر کھلی فضا میں قدم رکھا تو کھیت تالاب وغیرہ سب ندی میں تبدیل ہو چکا تھا کثرت امطار سے ہر طرف پانی ہی پانی تھا ، فرید مچھلیوں کا بڑا شوقین تھا موقع ملتے ہی اس نے چوکا لگا دیا فوراً جاری پانی میں کود پڑا اور تھوڑی دیر کی محنت کے بعد مچھلیوں کی بوچھار لگادی، میں تو خوشی سے پاگل ہو رہا تھا اور ادھر ادھر بھاگے پھر رہا تھا کہ اچانک ایک بالشت کا کوئی جانور میرے پاؤں سے ٹکرایا نظر جما کر دیکھا تو کسی سانپ کا بچہ تھا انتہائی خوبصورت دل کو بھا جانے والا ، اتنے میں فرید بھی وہاں پہنچ گیا مارنے ہی والا تھا کہ میں نے ہاتھ پکڑ لیا
یہ مچھلی نہیں ہے ، فرید خوف کے مارے جھنجھوڑ تے ہوئے بولا،
مجھے بھی معلوم ہے ، پر مجھے یہ پسند ہے ، میں نے ضدی پن کے انداز میں کہا،
اس کا کیا کرنا ، سانپ کا اگر چہ ابھی بچہ ہے لیکن زہر برابر ہے،
غصیلے انداز میں مجھے ڈراتے ہوئے کہا ،
مجھے حد درجہ پسند ہے کیا قدرت کی اس پر کرشمہ سازی نہیں دیکھ رہے ہو ؟ بھلا اس نے بگاڑا ہی کیا ہے جو ماروں؟
میں نے اس کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا،
ٹھیک ہے تم سانپ لیکر گھر جاؤ میں مچھلیوں کے ساتھ چلا،
فرید نے بے رخانہ انداز میں کہا،
میں اس سپونلا کا منہ دباۓ ہوئے گھر لے آیا طرح طرح کے خیالات میرے ذہن میں گردش کررہا تھا۔ کتنا خوبصورت ہے اس کے اوپر ڈیزائن قدرت کی کاریگری کی کھلی دلیل ہے اوپر نیچے رنگ میں تفاوت ہے ، جب بڑا ہوگا تو اس کا کلکر اس کی ڈیزائن میں مزید نکھار پیدا ہوگا میں اس کی بھر پور دیکھ بھال کرونگا جہاں تک کانٹے کا سوال ہے تو اس کو میں کھلاؤں گا پلاؤں گا ، اس کی حد درجہ خدمت کرونگا تو یہ مجھے تکلیف کیوں پہنچائے گا بھلا خدا کی مخلوق اس قدر بے وفا ہوتی ہے ،
اسی سوچ میں تھا کہ اچانک گھر کے دروازہ پر خود کو پایا ،
پھر کیا تھا گھر میں ہنگامہ شروع ہوگیا ، سانپ پکڑ لیا ہے ، سانپ کو گھر لے آیا ہے ، گھر کے سارے لوگ مجھے دوڑانے لگے لیکن میرے قریب کوئی نہیں آتا تھا کیونکہ میرے ہاتھ میں وہ سپونلا تھا ،
میری امی ہمت کرکے میرے قریب آئ اور کہنے لگی ۔
بیٹا اپنی موت کو ہاتھ میں کیوں لئے پھر رہے ہو ؟
امی میں اس کی حفاظت کرونگا اور اس کو بڑا کرونگا تاکہ کوئی دشمن ہمارا کچھ بگآڑ نہ سکے ،
میں نے آنکھ ملتے ہوئے معصومانہ انداز میں کہا ،
بیٹا یہ تمیں تکلیف پہنچائے گا،
ماں نے شفقت بھرے انداز میں کہاں،
جب میں اس کی دیکھ ریکھ کرونگا تو کیوں مجھے تکلیف پہنچائے گا؟
اتنے میں دادی بھی پہنچ گئ اور میری بات کا جواب دیتے ہوئے بول پڑی،
جانم، اگر تم اس کو سونے کے تخت پر بٹھا کر رکھو گے تب بھی ایک دن پلٹ وار کر دیگا ، بیٹا ہمیشہ یاد رکھو : فطرت کبھی نہیں بدلتی:
یہ سب باتیں سن کر مجھے ہنسی بھی آرہی تھی اور تعجب بھی ہو رہا تھا کہ آخر جس کا میں اتنا احسان مند ہوگا وہ کیوں مجھے تکلیف پہنچائے گا،
دن گزرتا گیا اور میں نے اس کی پرورش میں اس کی دیکھ ریکھ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی یہاں تک کہ وہ بڑا ہوگیا، میں اس کو اپنے بدن سے چمٹاۓ رکھتا وہ مجھے نہایت ہی عزیز تھا ،
ایک دن کا ذکر ہے میں اور میرا چھوٹا بھائی لیٹا ہوا تھا ہم دونوں نیند میں تھے کہ اچانک چیخنے کی آواز سنائی دی آنکھ کھلی تو میرا بھائی بستر پر تڑپ رہا تھا معلوم ہوا کہ وہ سانپ اس کو ڈس کر چپکے سے نکل لیا ہے ، پورے گھر میں شور ہوگیا سب مجھے کوسنے لگے ۔ دادی کہنے لگی بیٹا میں نے تجھے پہلے ہی آگاہ کر دیا تھا کہ ۔ فطرت نہیں بدلتی، اتنے میں فرید بھی پہنچ گیا اور وہ بھی شروع ہو گیا ، فوراً زہر نکالنے والے کو بلا یا گیا خدا خدا کرکے وہ زہر سارا نکل گیا اور میرے بھائی کی جان بچ گئی ،
اب کیا تھا میں ایک سوچ کی دنیا میں گم تھا کہ آخر یہ کیسی دنیا ہے اور یہاں کے رہنے والے کیسے ہیں زندگی بھر جسکا میں احسان مند رہا اسی نے میرے پیٹھ پر وار کردیا،
موجودہ دور اور موجودہ حکومت کا پورا منظر نظروں کے سامنے تھا ،
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...