(Last Updated On: )
نینوں کے دو پیالوں میں
مخملی اجالوں میں
خواب ایسے دیکھے ہیں
جو کہیں پہ مل جائے
وقت پھر سے تھم جائے
کہنے کو تو کہتے ہو
سال نو یہ آیا ہے
کچھ نہ کچھ یہ لایا ہے
کیا یہ لے کے آیا ہے
کیا یہ دے کے جائے گا
ہوش میں تم آجاؤ
روز دن نکلتا ہے
روز رات آتی ہے
زندگی کی رعنائی
روز رُت بدلتی ہے
پھر کیا آج بدلا ہے
آسماں کے ساگر میں
کہکشاں کی کشتی ہے
کل کی دھوپ بھی ویسی
چھاؤں بھی وہی ہوگی
گر جو خود کو بدلو تو
انقلاب آئے گا
سال نو کے آنے پر
معجزے انہیں ہوتے
ساتھیوں کے کہنے پر
وقت بھی نہیں تھمتا
آس کے جو پنچھی ہیں
آسماں میں اڑتے ہیں
ان کو رام کرنا ہے
تم کو کام کرنا ہے
سال نو کے آنے پر
معجزے نہیں ہوتے
“