حسن عسکری نے لکھا تھا:
"منٹو تو ایک اسلوب تھا…. لکھنے کا نہیں جینے کا۔"
اُس نے یہ بھی لکھا تھا:
"واقعی منٹو بڑی خوفناک چیز تھا۔ وہ ایک بغیر جسم کے روح بن کر رہ گیا تھا….منٹو سوچتا تو احساسات اور جسمانی افعال کے ذریعہ ہی تھا۔ لیکن یہ چیز وہ تھی جس کے متعلق اسپین کے صوفیوں نے کہا ہے کہ جسم کی بھی ایک روح ہوتی ہے ، یہ روح منٹو نے پالی تھی….منٹو نے اپنی روح کو بالکل ہی بے حفاظت چھوڑ دیا تھا۔ ہر چیز منٹو تک پہنچتی تھی۔ اور اتنے زور کا تصادم ہوتا کہ وہ چکرا کے رہ جاتا تھا"
تو یوں ہے کہ ہندوستان کے ٹوٹ کر آزاد ہونے اور مسلمانوں کے لیے ایک الگ مملکت کے قیام کے واقعات بھی ایسے تھے جن کا تصادم منٹو کی روح سے ہوا تھا ، اور تصادم اتنے زور کا تھا کہ وہ چکرا کر رہ گیا تھا۔ یہ جسے میں نے چکرا جانا کہا ہے، فتح محمد ملک نے اسے اپنی نئی کتاب" سعادت حسن منٹو: ایک نئی تعبیر" میں بدل جانا لکھا ہے۔ خود پروفیسر ملک ہی کے الفاظ میں :
" پاکستان کے قیام نے منٹو کے فکر و احساس کی دُنیا کو منقلب کر کے رکھ دیا تھا"
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ :
"پاکستان پہنچتے ہی منٹو نے نئی زندگی کے نئے ممکنات کو کھنگالنا شروع کر دیا تھا۔"
وہ نئے ممکنات کیا تھے ان پر اس کتاب کے چھ نئے اور ایک پچاس سال پرانے مضمون میں تفصیل سے بات کی گئی ہے۔ اور ساتھ ہی ان اہم تحریروں کو ضمیمہ جات کی صورت بہم کر دیا گیا ہے جو اس موضوع پر معاون ہو سکتی تھیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد تبدیل ہو جانے والے منٹو کو ممتاز شیریں نے بہت پہلے شناخت کر لیا تھا۔اس نے "منٹو کا تغیر اور ارتقا" میں تقسیم کے بعد کے دور کو منٹو کی اَفسانہ نگاری کا نیا دور قرار دیا تھا۔ صرف وقت کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس لحاظ سے بھی اس دورانئے میں اسے منٹو اپنی تخلیقات میں بدلا ہوا نظر آیا تھا۔ اس کتاب میں پروفیسر ملک کی دلچسپوں کا محور بھی یہی تبدیلی رہا ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ منٹو کی ہر اس تحریر سے بھر پور توجہ کے ساتھ گزرے ہیں جو منٹو نے پاکستان آنے کے بعد لکھی تھی۔
"منٹو کی مثالیت پسندی، والے باب میں وہ ’باسط، افسانے کا تجزیہ کرتے ہیں۔ یہ منٹو کا کوئی اہم اَفسانہ نہیں بنتا ، بلکہ میں اسے اس کے انتہائی کمزور افسانوں میں شمار کرتا ہوں ، جو کچھ منٹو اس افسانے میں باسط کے ذریعے دکھا رہا تھا وہ مثال بنانے کو درست سہی مگر ہماری اپنی تہذیبی روئیے کی سدھائی ہوئی جبلت اور نفسیات سے مطابقت نہ رکھتا تھا تاہم پروفیسر ملک اس کے ذریعے تبدیل شدہ منٹو کی مثالیت پسندی کو دکھایا دیا ہے اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ منٹو نے اس نئی مملکت میں کس سطح کے احترام انسانیت کا خواب دیکھا تھا۔
" منٹو کی پاکستانیت" کا عنوان پانے والا مضمون جہاں منٹو کے لکھے ہوئے شیام کے قلمی خاکے "مرلی کی دھن" سے معنی اخذ کرتا ہے وہیں پروفیسر ملک اس کے افسانوں "سہائے" اور "دو قومیں " سے ایسے منٹو کو تلاش کر لاتے ہیں جو روحانی اور تخلیقی سطح پر یہ ثابت کر رہا ہوتا ہے کہ پاکستان کی طرف آنا اس کا شعوری فیصلہ تھا اور بعد ازاں پاکستان کی روحانی شناخت کو قائم رکھنا اس کی اصل ترجیح بن گیا تھا۔ منٹو بدل گیا تھا مگر اس سر زمین کے لوگوں کے رویے نہیں بدلے تھے اور اس پر منٹو برہم ہوتا تھا۔ پروفیسر ملک کا کہنا ہے کہ برطانوی تربیت یافتہ حکمرانوں نے بہت جلد ہمیں عملاً دوبارہ مغربی طاقتوں کا غلام بنا دیا تھا جب کہ منٹو کی پاکستانیت کو یہ بات گورا نہ تھی۔ اس صورت حال پر منٹو نے صدائے احتجاج بلند کی تھی…. اپنے افسانوں میں …. چچا سام کے نام اپنے خطوط میں ….اور اپنے مضامین میں۔ جا بجا منٹو کی تحریروں میں اس احتجاجی لے کو دیکھا جا سکتا ہے اور اس حوالے سے ہم منٹو کی سچی پاکستانیت کو بھی شناخت کر سکتے ہیں۔
منٹو اس بات پر فخر کرتا تھا کہ وہ کشمیری تھا لہذا یہ کیوں کر ممکن تھا کہ وہ کشمیریوں کی غلامی پر کچھ نہ کہتا۔ پروفیسر ملک نے اپنے مضمون" سعادت حسن منٹو اور جنگ آزادیِ کشمیر" میں بتایا ہے کہ منٹو تنازعہ کشمیر میں پاکستان کو حق بجانب سمجھتا تھا۔ان کہنا ہے کہ منٹو نے اَفسانہ "آخری سلیوٹ" میں کشمیر کے حوالے سے پاک بھارت جنگ کی ذمہ داری برطانوی استعمار ڈالی اور " چچا منٹو کے نام بھتیجے کا خط " میں اس مسئلے کو نہ سلجھانے کا گناہ گار اقوام متحدہ کو ٹھہرایا۔انہوں نے اِس مضمون میں منٹو کے اَفسانہ " ٹیٹوال کا کتا" پر بھی بات کی ہے۔ یہ وہ اَفسانہ ہے کہ ہمارے ہاں کے دانش ور اس کی گمراہ کن تاویلیں کرتے ہوئے نہیں شرماتے تاہم پروفیسر ملک کے مطابق یہ اَفسانہ بتاتا ہے کہ ’نہرو ماؤنٹ بیٹن گٹھ جوڑ‘ نے پرانے دوست فوجیوں کو ایک دوسرے کے مقابل کر دیا، جب کہ حکومتوں کی نا اہلیوں نے اس جنگ کو طویل تر کر کے نتیجہ خیز نہیں ہونے دیا تھا اور صورت یہاں تک پہنچ گئی کہ بے مصرف گولی چلنے لگی۔ کشمیر پر پاکستانی موقف سے منٹو کی ہم آہنگی کے ثبوت کے طور پر پروفیسر ملک نے اُس کی اُس تحریر کی بھی نشاندہی کی ہے جس میں منٹو نے اپنے محبوب ہندو دوست شیام کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا:
" پیارے شیام، میں بمبئے ٹاکیز چھوڑ کر چلا آیا تھا۔ کیا پنڈت جواہر لال نہرو کشمیر نہیں چھوڑ سکتے ؟"
"انقلاب پسند منٹو اور نام نہاد ترقی پسند" کے عنوان سے اس کتاب میں ترقی پسندوں کی خوب خبر لی گئی ہے۔ اس باب میں منٹو کی ادبی اٹھان کو ایک ترقی پسند کی اٹھان کے طور پر دکھایا گیا ہے ، جس نے اَفسانہ نگاری کی دنیا میں قدم رکھنے سے پہلے نامور اشتراکی ادیب اور مؤرخ باری علیگ کے زیر اثر عالمی فکشن کا بالعموم اور روسی فکشن کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ جس نے روسی ادب کے اس وقت تراجم کئے تھے جب انجمن ترقی پسند مصنفین کا قیام عمل میں بھی نہ آیا تھا۔ اس نے منتخب روسی افسانوں کا ترجمہ کر کے اردو دنیا میں ایک نئی ادبی تحریک کی راہ ہموار کی تھی۔ مگر طرفگی دیکھئے کہ یہی منٹو بعد ازاں ترقی پسندوں کو کھٹکنے لگا تھا۔ پروفیسر ملک نے اس باب میں دونوں کے رویوں کا جائزہ لے کر یہ ثابت کیا ہے کہ منٹو درست تھا۔ محمد حسن عسکری کی ادبی رفاقت منٹو کی غلطی نہ تھی بلکہ وہ اپنے روحانی اور سچے تخلیقی تقاضوں سے جڑ گیا تھا۔
اس نئی کتاب میں پروفیسر ملک نے منٹو کے معروف افسانے"ٹوبہ ٹیک سنگھ" کی ایک نئی تعبیر کی ہے ….جو واقعی نئی ہے اور مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آج تک اردو ادب کے ناقدین نے اِس رُخ سے کیوں نہ سوچا۔ سب اسے منٹو کے تقسیم کے دوران کے فسادات پر لکھے ہوئے افسانوں کی ذیل میں رکھ کر دیکھتے رہے۔ بجا کہ ممتاز شیریں نے منٹو پر جم کر لکھا اور خوب لکھا اور صاحب یہ بھی درست کہ اس نے منٹو کے ان افسانوں کی فہرست بنائی جو اسے بہت پسند تھے تو اس میں جہاں ’ہتک‘ ’کالی شلوار‘ ’بو‘ ’نیا قانون‘ ’بابو گوپی ناتھ‘ کے علاوہ ’ممی ’موذیل‘ ’ ننگی آوازیں ‘ ’کھول دو‘ ’ٹھنڈا گوشت‘ ’اور ’سڑک کنارے ‘ کے نام آتے ہیں وہیں قدرے نیچے سہی "ٹوبہ ٹیک سنگھ " کا نام بھی آتا ہے مگر اس افسانے کی کوئی تعبیر اس کے ہاں ملتی ہی نہیں ہے۔ یہی عالم، منٹو کو رجعت پسند بنانے کا طعنہ پانے والے ، حسن عسکری کے ہاں ملتا ہے۔ دونوں اِس طرف توجہ دیتے تو بعد میں بہت میں آنے والے سوں کو ٹھوکریں کھانے سے روک سکتے تھے۔ یہی ٹھوکریں کھانے والے فتح محمد ملک کے اس مضمون کے اولین مخاطب ہیں۔ میں اس مضمون کو اس کتاب کا دل کہوں گا جسے چھوتے ہی میرا اپنا دل دھڑکنا بھول گیا تھا۔
منٹو کے شاہکار اَفسانہ"ٹوبہ ٹیک سنگھ" کی تعبیر جس طرح اور جس توجہ سے پروفیسر ملک نے کی ہے اُس پر دل ٹُھکتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس افسانے کی یہ تعبیر تھی تو یہ اَفسانہ سمجھنے میں اتنی دیر کیوں لگی۔ میں نے بہت غور کیا تو اپنے آپ کو وارث علوی کا متفق پایا کہ :
" اَفسانہ اپنے حسن کا راز فوراً سب پر ظاہر نہیں کرتا، وہ صاحب نظر نقاد کا انتظار کرتا ہے۔ افسانے کی معنیاتی بصیرت کا راز اس رشتے میں ہے جو نقاد افسانے سے قائم کرتا ہے۔ یہ رشتہ محبت ، نشاط اور وارفتگی کا ہوتا ہے "
مجھے پروفیسر ملک کے ہاں منٹو کے اس افسانے کی تعبیر اور تشریح میں یہی نشاط، وارفتگی اور تنقیدی بصیرت ایک ساتھ متحرک نظر آتے ہیں۔ اسی تنقیدی بصیرت (جو ہر حال میں ایک قومی شعور سے وابستگی پر مصر اور نازاں رہتی ہے )کا فیصلہ ہے کہ "ٹوبہ ٹیک سنگھ" کا موضوع برطانوی ہند کی تقسیم نہیں ہے اور یہ بھی کہ یہ اَفسانہ فسادات کے پس منظر میں لکھا ہی نہیں گیا تھا۔ اس مضمون کے آغاز میں طارق علی پر گرفت کی گئی ہے جس نے اَفسانہ" ٹوبہ ٹیک سنگھ" کو برطانوی ہند کی تقسیم اور نسل کشی کے فسادات کا شاخسانہ کہا تھا۔ آگے چل کر لگ بھگ وارث علوی نے بھی اس باب میں ایسی ہی ٹھوکر کھائی اور انداز نظر قائم کیا کہ:
" ملک تقسیم ہوتے ہی بشن سنگھ جس پاگل خانہ میں تھا اس کے باہر بھی ایک بہت بڑا پاگل خانہ کھل گیا تھا….رات کی رات جغرافیہ بدل گیا۔ روابط اور وابستگیاں بدل گئیں اور لوگ بہ تمام ہوش مندی ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت کرنے لگے۔"
فتح محمد ملک نے واضح کیا ہے کہ ہندوستان کی تقسیم دراصل برٹش انڈیا کی سامراجی وحدت ٹوٹنے کا وہ اہم واقعہ ہے جو دو قوموں کی آزاد قومی ریاستوں کے قیام کی نوید بن گیا تھا اور یہ قومیں اپنے اپنے جغرافیائی خطوں میں استعماری چنگل سے آزاد ہو گئی تھیں لہذا باہر کی دنیا پر پاگل خانے کے اندر کے واقعات اور صورت حال کو منطبق نہیں کیا جا سکتا۔ مصنف نے کہا ہے کہ منٹو کے افسانے کا موضوع نہ تو تقسیم ہے اور نہ ہی فسادات۔بلکہ اس افسانے کا موضوع حافظے کی گم شدگی اور تخیل کی موت ہے۔ پروفیسر ملک نے افسانے کے دیگر پاگل کرداروں کے ساتھ بشن سنگھ کا موازنہ اور تجزیہ کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ
٭…. دیگر کرداروں میں سے پہلا وہ تھا ، جسے اس کے لواحقین پھانسی کی سزا سے بچانے کی خاطر پاگل قرار دے کر یہاں بند کروا گئے تھے۔ یہ کردار جانتا تھا کہ پاکستان کیا ہے اور کہاں ہے۔
٭….دوسرے پاگل سکھ کردار کے محسوسات کی دنیا بھی قائم تھی اور محسوس کر رہا تھا کہ ہندوستان کہاں ہو گا بس اسے فکر تھی تو یہی کہ اسے’ ہندستوڑوں‘ کی بولی نہیں آتی تھی۔
٭….پروفیسر ملک نے جن دو مزید پاگل کرداروں کا تجزیہ کیا ہے وہ دونوں دماغ ماؤف ہوتے ہوئے بھی محسوس کر سکتے تھے ایک نے محمد علی جناح بن جانے کا دعوی کیا تھا اور دوسرے نے ماسٹر تارا سنگھ ہو جانے کا۔ دونوں کا رویہ انہیں الگ الگ قوم کا فرد بنا دیتا تھا۔
یوں یہ سارے کردار محسوسات کی محدود سطح پر سہی بیرونی دنیا اور اس کی تبدیلیوں سے جڑے ہوئے تھے۔ لیکن افسانے کا مرکزی کردار بشن سنگھ المعروف بیرونی دنیا سے بالکل کٹا ہوا تھا۔ پروفیسر ملک نے یہ ثابت کرنے کے بعد افسانے کے متن کے اس حصے کی طرف توجہ دلائی ہے جس میں منٹو نے اس کردار کا تعارف کراتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ اپنے رشتہ داروں حتی کہ اپنی بیٹی تک کو نہیں پہچان سکتا تھا۔ یوں وہ اس افسانے کی ایسی تعبیر کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس سے اس کی خبر ملتی ہے کہ تقسیم کے حوالے سے منٹو کا تخلیقی شعور کس سطح پر کام کر رہا تھا۔ پروفیسر ملک کا کہنا ہے کہ منٹو کی اس کہانی کی صرف ایک ہی تعبیر ممکن ہے اور وہ یہ کہ پاکستان کی تحریک ایک روحانی وابستگی کا کرشمہ تھی اور تحریک پاکستان قید مقامی سے رہائی اور خوابوں کی سرزمین سے وابستگی کا استعارہ تھی اور یہ بھی کہ الگ قوم کے لیے ایک خود مختار اور آزاد نظریاتی مملکت کے قیام کی بات بشن سنگھ جیسے پاگلوں کی سمجھ میں آ ہی نہیں سکتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ قیام پاکستان کے بعد بدلے ہوئے تناظر میں منٹو فہمی کے لیے فتح محمد ملک کی یہ کتاب اس نئی تعبیر کے حوالے سے بہت اہم ہو جاتی ہے۔
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1717859895147377/
“