سید محمد تقی حسین اپنے قلمی نام ایس ایم تقی حسین کے نام سے لکھتے ہیں، ان کی غزل میں محبت، آرزو، ندامت اور گزرتے وقت کے موضوعات کو بہترین شاعرانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے، آپ کے اشعار میں تڑپ کے گہرے احساسات کا ذکر، کھو جانے والے مواقع کا بیان اور نامکمل جذبات کے نتائج کو دکھایا گیا ہے۔ راقم الحروف (رحمت عزیز خان چترالی) کا کھوار ترجمہ تقی حسین کی اردو شاعری کی جذباتی گہرائی اور جوہر کو چترال، مٹلتان کالام اور شمالی پاکستان کے وادی غذر کی کھوار بولنے والے قارئین کے ثقافتی اور لسانی تناظر میں ڈھالنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے۔
ایس ایم تقی کی غزل کھوئی ہوئی محبت کی باتیں، ندامت کے احساسات، ادھورے وعدوں کا ذکر، اور بے مقصد جذبات کے درد کے گرد گھومتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اس میں شاعر رشتوں کو بچانے کے امکانات اور ضائع ہونے والے مواقع کے پچھتاوے کو تلاش کرتا ہوا نظر آتا ہے اور صبر کے ساتھ ساتھ خیر سگالی کی بھی بات کرتا ہے۔
تقی حسین کی شاعری غزل کے روایتی ڈھانچے کی پیروی کرتی ہے، ہر شعر خواہش، ندامت اور کھوئے ہوئے مواقع کا ایک پہلو ظاہر کرتا ہے، جس سے جذباتی ہنگامہ آرائی اور عکاسی کی ایک مربوط داستان تخلیق ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
شاعر واضح تصویر کشی کے ساتھ ساتھ انسانی جذبات کو ابھارنے کے لیے استعاراتی زبان اور علامتوں کا بھی استعمال کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ شیشے جیسے نازک دل کی تصویر کشی اور اندھیرے میں روشنی کی تڑپ جذبات کی نازک نوعیت اور جذباتی روشنی کی آرزو کے استعارے کے طور پر کام کرتی ہے۔ “سمندر بنجر تھا، ہم بہہ سکتے تھے” کا ملاپ غیر دریافت شدہ امکانات اور صلاحیت کے کھو جانے کی علامت کو بیان کرتا ہے۔
تقی حسین کی غزل انسانی جذبات کی پیچیدگیوں اور رشتوں میں چھوٹ جانے والے مواقع کے نتائج کو گہرائی سے تلاش کرتی ہے۔ ہر شعر خواہش، ندامت، اور ادھورے وعدوں کی ایک واضح تصویر ہے، جو قاری کو غیر اظہار شدہ جذبات کے وزن اور بے عملی کے اثرات پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
راقم الحروف کے ‘کھوار’ ترجمے کا مقصد تقی حسین کی شاعری کے جوہر اور جذباتی گہرائی کو دیگر علاقائی زبانوں میں پیش کرنا ہے یہ ترجمہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کھوار زبان کی لسانی اور ثقافتی باریکیوں کا بھی احترام کیا جائے اور لسانیات پر کام کرنے والے سرکاری ادارے اردو سے کیے گئے ‘کھوار’ تراجم کو شائع کرکے ‘کھوار’ ادب کی خدمت میں اپنا کردار ادا کریں۔ یہ تجزیہ اور تنقیدی جائزہ کرنا بصیرت انگیز ہو گا کہ ‘کھوار’ (چترالی) زبان اصل اردو غزل میں موجود جذبات، استعاروں اور منظر کشی کی باریکیوں کو ‘کھوار’ میں مؤثر طریقے سے ترجمہ کرنے کے چیلنج کو کس طرح نبھاتی ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ایس ایم تقی حسین کی غزل کی ‘کھوار’ تراجم کے ساتھ انسانی جذبات کی پیچیدگی اور رشتوں میں کھوئے ہوئے مواقع کی خواہشات کو سمیٹتے ہوئے آرزو، ندامت اور ادھوری خواہشات کی ایک پُرجوش کہانی پیش کرتی ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے ایس ایم تقی حسین کی غزل اور ‘کھوار’ تراجم پیش خدمت ہیں۔
“غزل”
نیئتیں تو اچھی تھیں گھر بچا تو سکتے تھے
صبر کرکے تھوڑا سا آزما تو سکتے تھے
کھوار:نیات تھے جم اوشونی دورو تھے بچ کوریکو باؤ اوشوؤ
صبر کوری پھوکرو تھے آزماؤ کوریکو باؤ اوشوؤ
وقت تو گزر جاتا، دل بھی صاف ہو جاتے
بے سبب کے شکوے کو، تم بھلا تو سکتے تھے
کھوار:وخت تھے پھار شوخچیسیر، ہردی دی صفا بیسینی
بے سببو شکوان، تو تھے روخچیکو باؤ اوشوؤ
بزم نارسائی میں ایک تم ہی میرے تھے
منظر اس قرینہ کا تم سجا تو سکتے تھے
کھوار:بزم نارسائیا ای تو تان مه اوشوؤ
منظر ہے قرینو تو تھے سجاؤ کوریکو باؤ اوشؤ
ٹوٹنے سے شیشہ کے، شور کچھ تو ہونا تھا
کانچ سا یہ نازک دل ہم بچا تو سکتے تھے
کھوار:چھیکو سورا شیشو، ہواز تھے پھوک گئیلک اوشوئے
شیشو غون ہیہ نازک ہردیو اسپہ بچ تھے کوریک باؤشتم
دیکھتے اندھیروں میں کیا تڑپنا بسمل کا
روشنی کی خاطر تم دل جلا تو سکتے تھے
کھوار:لوڑیسام چھؤیا کچہ کوری کیٹھیکو بسملو؟
روشتیو بچے تو ہردیو تھے پالئیکو باؤ اوشوؤ
وہ جو تھا سر مژگاں آنکھ سے ٹپکنے کو
بحر بیکراں تھا وہ، ہم بہا تو سکتے تھے
کھوار:ہسے کیاغکہ اوشوۓ سر مژگاں غیچھاری یو چوٹیکو
بحر بیکراں اوشوئے ہسے، اسپہ آف اولئیکو تھے باؤشتم
بے رخی کا نشتر تھا ہجر کا الاؤ بھی
اس قدر اذیئت سے تم بچا تو سکتے تھے
کھوار:بے رخیو نشتر اوشوئے ہجرو باس انگار دی
ہش قسمہ اذیئتاری تو تھے مه بچ کوریکو باؤ اوشوؤ
آنکھ کھول کر تم گر دیکھتے تقی دنیا
اس بساط وحشت کو تم بسا بھی سکتے تھے
کھوار:غیچھان ہوری تو اگر کی لاڑیس دنیو اے تقی
ہیہ بساط وحشتو دی تو ہالئیکو باؤ اوشوؤ
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...