سیّدناصر کی خاکہ نگاری پر تبصرے کے دوران جس خاکے یا کہانی(کسی حد تک افسانے)نے مجھے بے حد متاثر کیا، وہ ”عشرت بھٹہ“ کے عنوان سے ہے۔ اس میں ناصر اپنے فن کے عروج پر نظر آتے ہیں اور مجھے یقینِ واثق ہے کہ آنے والے زمانوں میں جب نقاد اس پر تنقید لکھے گا تو میرے ان الفاظ سے ضرور اتفاق کرے گا کیونکہ اس کہانی کا رومانوی پہلو بھی اہم ہے اور ہمارے معاشرے کی ناہمواری بھی عیاں ہے، گویا ناصر نے اس کہانی کے ذریعے سے عوام الناس کو ایک پیغام دینے کی اپنی سی سعی کی ہے کہ انا اور ضد صرف اور صرف بربادی کا سبب بنتی ہے،اس لیے اس سے جہاں تک اجتناب کیا جاسکے، کرنا چاہیے۔اپنے اس بیان کی دلیل ناصر کی اسی کہانی سے ذیل میں پیش کر رہا ہوں:
اس شام میرے والدین بڑے بھائی اور بھابی میرے بھائی اور عشرت کی نسبت کو رشتہ میں باندھنے ان کے گھر پہنچے۔معاملات خوبصورتی سے طے پارہے تھے کہ اچانک ممانی بول پڑیں کہ شادی ہو گی تو آنے والے تین ماہ میں ہوگی ورنہ۔۔۔بھابی نے بہت سمجھایا کہ شادی کی تیاری میں وقت اور پیسہ درکار ہے، کم از کم ایک سال کا وقت چاہیے؛ مگر ممانی اپنی بات پر اڑی رہیں اور یوں یہ انمول رشتہ ضد کی بھینٹ چڑھ گیا جس نے بلآخر عشرت کی جان لے لی۔ناصر نے اس خاکے میں اپنے زورِقلم سے کچھ ایسا تاثر پیدا کر دیا ہے کہ بلا شبہ اس خاکے کو ایک افسانے کے طور پر منٹو اور غلام عباس کے افسانوں کا ہم پلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ناصرصاحب کا ایک اور خاکہ جو معاشرتی ناہمواریوں بلکہ بیماریوں کا ترجمان کہا جا سکتا ہے وہ”اک عجیب سی لڑکی“ کے عنوان سے ہے۔ اس میں انہوں نے دولت کو معیار بنانے والے طبقے پر گہری طنز کی ہے اور بتایا ہے کہ رشتوں کے بندھن میں انسان کے کردار کو اولیت دی جانی چاہیے۔
سیّد محمد ناصر علی کی کہانیاں جہاں سلیس اردو کی ترجمان ہیں وہاں نئے دور کے نئے تقاضوں کی بھی عمدہ مثال ہیں۔ سیّدناصر نے صرف خاکے لکھنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے زمانہ طالبعلمی کی یاداشتوں کو بھی قارئین کے لیے رقم کر دیا ہے۔یوں ان کی کہانیاں کہیں خاکے کی شکل میں ابھرتی ہیں تو کہیں افسانوی روپ دھار لیتی ہیں۔صرف یہی نہیں ان کے یہاں بہ یک وقت ایک اچھے مضمون نویس، کہانی نویس، افسانہ نگار اور مکتوب نگار کی خوبیاں نظر آتی ہیں۔سیّد محمد ناصر علی کے خاکے/ کہانیوں کو افسانے کے پیرا میٹرز پر پرکھیے تو وہ اچھے افسانے کی مثال بن جائیں اور کہانی کہیے تو قاری اس کے سحر میں گم ہو جائے، مضمون کہیے تو اوّل تا آخر پڑھنے کو جی چاہے۔ سطورِ ذیل میں دیکھیے کس خوب صورتی سے اپنے زمانہ طالب علمی کی یاداشت کو ”گھامڑ“ میں بیان کرتے ہیں:
فہمیدہ چھوٹے قد کی قبول صورت انتہائی ملنسار اور پڑھنے میں کم کم ہی دلچسپی لینے والی لڑکی تھی؛ پھر بھی ہر سال پاس ہوجاتی۔ اسے اپنے چھوٹے قد کا احساس تھا۔ اپنی اس کمی اور احساسِ کمتری کو اونچی ایڑی کے سینڈل پہن کر پورا کرتی۔ چلتے ہوئے سینڈل سے کھٹ کھٹ کی آواز پیدا ہوتی۔ خاص طورسے سُن سان کو ریڈورمیں کھٹ ھٹ کی گونجتی آواز۔ یہ آواز کلاس میں سب ہی طلبہ کو ناگوار گزرتی تھی خاص طور سے جب کلاس میں خاموشی طاری ہو اور صرف پروفیسر کی آواز گونج رہی ہو۔ فہمیدہ عادتاً تاخیر سے کلاس میں کھٹ کھٹ کرتی پہنچتی۔
اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ سیّد ناصر علی نے نہ صرف اس کہانی کے اہم کردار کا حلیہ اپنے قاری کے سامنے کامیابی سے رکھ دیا ہے بلکہ کہانی کے صوتی اثرات سے بھی متعارف کرانے میں کامیاب رہے ہیں۔
اسی طرح ”پہلی ملاقات“ جس میں انہوں نے اپنے ایک دوست سے متعارف کرایا ہے، اسے ان کے شاہکار فن پاروں میں سے ایک شمار کیا جاسکتا ہے۔دوست کا یہ تعارف ایک بہترین خاکہ بھی ہے اور ایک جیتی جاگتی اور سچی کہانی بھی۔دیکھیے کس خوبصورتی سے ذہین عالم خاں سروہا کا حلیہ بیان کرتے ہیں۔
فرحان حسن نے ایک چھ فٹ اور دوانچ لمبے تڑنگے، کندھے جھکائے راہداری سے گزرتے ہوئے شخص کو اپنے کمرے سے- سیٹ پر بیٹھے بیٹھے -آواز دی۔۔۔ ان سے ملیے! یہ آپ کے نئے ڈائریکٹر ہیں۔ آواز سن کر وہ کمرے میں آئے مختصر تعارف کے بعد وہ مجھے یونیورسٹی کیمپس میں واقع فاطمہ ہسپتال کے ایک کونے میں واقع شعبہ تعلقات عامہ میں موجود دوساتھیوں سے ملوانے لے چلے۔ چلتے چلتے میں نے انہیں ان کے نام کی عجبیت کے بارے میں چھیڑ دیا پھر کیا تھا راستہ بھر اس بات پر زور رہا کہ میرے ماں باپ نے میرانام بہت سوچ سمجھ کر رکھا۔ یہ صرف نام نہیں ان کا دیاہواگل دستہ ہے جو میرے ذہن کو تازہ رکھتا ہے۔ یہی میری پہچان ہے۔ اس کا اثر
دیکھ لیجئے کہ میرے دشمن بھی مجھے ذہین کہتے ہیں۔
دل تو چاہتا ہے کہ ان کی اس کہانی کے ایک ایک بانکپن کو فن کی کسوٹی پرپر کھوں لیکن بخوفِ طوالت اختصارپسندی سے ہی کام لینا پڑے گا۔ ناصر علی نے اس کہانی میں جا بجا چٹکلوں سے اپنی تحریر کو شگفتہ بنایا ہے۔ذیل کے اقتباس سے میری اس رائے کی قطعی تصدیق ہو جائے گی۔
لڑکپن کے دن تھے۔ گوشت والے کی دکان پرگئے اور تین پاؤ قیمہ مانگا۔ قصائی نے آواز لگائی ”لڑکے صاحب کا قیمہ بنا دے“۔ بڑی سادگی اور معصومیت سے فرمایا،”کلو بھائی اپنے ہاتھ کا قیمہ دینا“۔ دوسرے گوشت والوں نے کلو کا ریکارڈ لگا دیا کہ لڑکے کی بات بھاری پڑ گئی۔
سیّدناصر کی اس تصنیف میں خاکے، کہانیوں کے علاوہ ایک اور صنفِ ادب ”مکتوب نگاری“کابھی ایک نمونہ موجود ہے۔
مکتوب نگاری بھی ایک فن ہے۔ اسداللہ غالب،مولوی نذیر احمد، ابوالکلام آزاد اور میرزا ادیب کے مکاتیب فن کی بلندیوں پرنظر آتے ہیں۔غالبؔ نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا۔ مولوی نذیر احمد نے اپنے خطوط کے ذریعے معاشرتی اقدار کو متعارف کرایا۔ آزاد نے اپنے مکاتیب میں انتہائی مشکل زبان استعمال کی جب کہ میرزا ادیب نے اپنے مکاتیب سے قاری کو سحر زدہ کردیا۔سیّد ناصر علی نے اس میدان میں بھی قدم رکھا اور مولوی نذیر احمد کے تتبع میں اپنی بیٹی کے نام ایک مکتوب لکھا؛جسے انہوں نے اپنی اس تصنیف میں بھی شامل کر لیا ہے۔یہ مراسلہ دراصل پند ونصائح کا مجموعہ ہے کہ موصوف کی بیٹی ہمیشہ کے لیے دیارِ غیر بسنے جارہی تھی؛ چنانچہ بیٹی کی محبت میں انہوں نے اسے بہت سی نصیحتیں کی ہیں۔ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
بہت سی نصیحتیں کی ہیں۔ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
تمہاری پرورش اور تربیت کسی خود بخود اگنے والے پودے کی طرح نہیں ہوئی ہے؛بلکہ تمہیں باغ کے خوبصورت پودے کی طرح پروان چڑھایا گیا ہے۔ جنگل کی بے ربط جھاڑیوں اور درختوں کی مانند نہیں۔
نئے معاشرے کے اتار چڑھاؤ اور اس کی اچھائیوں برائیوں سے- اپنی دور اندیشی کے باعث -متنبہ کرتے ہوئے نصیحت کرتے ہیں اور ایک ناصح کے طور پر منصہ شہود پر جلوہ گر ہوتے ہیں۔لکھتے ہیں:
اس کے باوجود یہ مطلب نہیں ہے کہ بحیثیت مسلمان حرام اور حلال کا فرق محسوس نہ کرو۔ اللہ نے جو چیز حرام قراردی ہے ان کی سائنسی اور معاشرتی خرابیاں ظاہر ہوچکی ہیں۔ حلال اعمال کے اثرات بھی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تمہیں اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے۔تمہارا اہم فریضہ حیدر علی کی تعلیم اور تربیت مثبت انداز میں کرنا ہے۔ اس کی شخصیت کو مضبوط بنانا ہے۔ حرام، حلال، صحیح و غلط، جائز و ناجائز کی پہچان کرانے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا انسان اور اچھا مسلمان بنانا ہے۔ اس ملک میں اور وہاں کے ماحول میں یہ معمولی ذمہ داری نہیں ہے۔
الغرض ”خاکے کہانیاں‘جن خاکوں اور کہانیوں پر مشتمل ہے، ان پر روشنی ڈالتے ہوئے خود مصنف کا کہنا ہے:
ان میں وہ کردار ہیں جنہیں میں نے دیکھا۔ ان کے ساتھ رہا۔ان سے قربت قلبی بھی رہی۔ قربت ذہنی بھی۔
بعض کردار وہ ہیں جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ”تومن شدی۔من تو شدی“۔ اس ربط اور تعلق نے انکے بارے میں لکھنے پر اکسایا اور خاکہ وجود میں آگیا۔ ان خاکوں میں وہ شخصیات بھی شا مل ہیں جو میر ی محسن ہیں۔ انہوں نے بے حساب اور بے طلب محبتیں دی ہیں۔ توجہ دی ہے کچھ ایسے اصحاب ہیں جن سے قربتیں رہیں مگر وقت پڑنے پرہر چیز کو نظر انداز کرکے دوری اختیار کرلی۔ میں پھر بھی ان کا مقروض ہوں کہ ان کے رویوّں نے سیکھنے کا موقع دیااور اس قرض کو اتارنے کی ایک چھو ٹی سے کوشش ہے۔کسی کے بارے میں منفی اظہار کا مقصد دل شکنی نہیں بلکہ اس کردار کے عدم توازن کی طرف توجہ ضرور ہے۔46
میں سمجھتا ہوں کہ سیّد محمد ناصر علی صاحب نے کہانی اور خاکہ نویسی کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اس میں ایک باب کا اضافہ کیا ہے۔ان کے خاکے کہانیوں پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے محمد ذہین عالم سروہا کہتے ہیں:
فوٹو گرافی اور مصوری سے بلاواسطہ تعلق اور لگاؤ نے ان کی خاکہ نگاری کو پراثر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے عمیق مطالعہ اور وسیع حلقہ احباب نے ان میں انسانی خواص اور احساسات کو سمجھنے اوران کے قلم معجز رقم کی قوت اظہار نے خاکہ کی شخصیات کو قاری کے سامنے لا کھڑاکرنے کی صلاحیت اور قوت پید اکی۔ اپنے خاکوں میں سید محمدناصر علی نے اپنی بھرپور صلاحیتوں کے اظہار کے دوران کھلے ذہن اور کشادہ دلی کا بھی مظاہرہ کرتے ہوئے بے جا
تنقیداور تضحیک سے بھی گریز کیا ہے۔ میری رائے میں انہوں نے خاکہ نگاری میں کوئی اسلوب نہ بھی بنایا ہوتو یہ ضرور بہت سی نصیحتیں کی ہیں۔ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
تمہاری پرورش اور تربیت کسی خود بخود اگنے والے پودے کی طرح نہیں ہوئی ہے؛بلکہ تمہیں باغ کے خوبصورت پودے کی طرح پروان چڑھایا گیا ہے۔ جنگل کی بے ربط جھاڑیوں اور درختوں کی مانند نہیں۔
نئے معاشرے کے اتار چڑھاؤ اور اس کی اچھائیوں برائیوں سے- اپنی دور اندیشی کے باعث -متنبہ کرتے ہوئے نصیحت کرتے ہیں اور ایک ناصح کے طور پر منصہ شہود پر جلوہ گر ہوتے ہیں۔لکھتے ہیں:
اس کے باوجود یہ مطلب نہیں ہے کہ بحیثیت مسلمان حرام اور حلال کا فرق محسوس نہ کرو۔ اللہ نے جو چیز حرام قراردی ہے ان کی سائنسی اور معاشرتی خرابیاں ظاہر ہوچکی ہیں۔ حلال اعمال کے اثرات بھی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تمہیں اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے۔تمہارا اہم فریضہ حیدر علی کی تعلیم اور تربیت مثبت انداز میں کرنا ہے۔ اس کی شخصیت کو مضبوط بنانا ہے۔ حرام، حلال، صحیح و غلط، جائز و ناجائز کی پہچان کرانے کے ساتھ ساتھ ایک اچھا انسان اور اچھا مسلمان بنانا ہے۔ اس ملک میں اور وہاں کے ماحول میں یہ معمولی ذمہ داری نہیں ہے۔
الغرض ”خاکے کہانیاں‘جن خاکوں اور کہانیوں پر مشتمل ہے، ان پر روشنی ڈالتے ہوئے خود مصنف کا کہنا ہے:
ان میں وہ کردار ہیں جنہیں میں نے دیکھا۔ ان کے ساتھ رہا۔ان سے قربت قلبی بھی رہی۔ قربت ذہنی بھی۔
بعض کردار وہ ہیں جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ”تومن شدی۔من تو شدی“۔ اس ربط اور تعلق نے انکے بارے میں لکھنے پر اکسایا اور خاکہ وجود میں آگیا۔ ان خاکوں میں وہ شخصیات بھی شا مل ہیں جو میر ی محسن ہیں۔ انہوں نے بے حساب اور بے طلب محبتیں دی ہیں۔ توجہ دی ہے کچھ ایسے اصحاب ہیں جن سے قربتیں رہیں مگر وقت پڑنے پرہر چیز کو نظر انداز کرکے دوری اختیار کرلی۔ میں پھر بھی ان کا مقروض ہوں کہ ان کے رویوّں نے سیکھنے کا موقع دیااور اس قرض کو اتارنے کی ایک چھو ٹی سے کوشش ہے۔کسی کے بارے میں منفی اظہار کا مقصد دل شکنی نہیں بلکہ اس کردار کے عدم توازن کی طرف توجہ ضرور ہے۔46
میں سمجھتا ہوں کہ سیّد محمد ناصر علی صاحب نے کہانی اور خاکہ نویسی کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اس میں ایک باب کا اضافہ کیا ہے۔ان کے خاکے کہانیوں پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے محمد ذہین عالم سروہا کہتے ہیں:
فوٹو گرافی اور مصوری سے بلاواسطہ تعلق اور لگاؤ نے ان کی خاکہ نگاری کو پراثر بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے عمیق مطالعہ اور وسیع حلقہ احباب نے ان میں انسانی خواص اور احساسات کو سمجھنے اوران کے قلم معجز رقم کی قوت اظہار نے خاکہ کی شخصیات کو قاری کے سامنے لا کھڑاکرنے کی صلاحیت اور قوت پید اکی۔ اپنے خاکوں میں سید محمدناصر علی نے اپنی بھرپور صلاحیتوں کے اظہار کے دوران کھلے ذہن اور کشادہ دلی کا بھی مظاہرہ کرتے ہوئے بے جا
تنقیداور تضحیک سے بھی گریز کیا ہے۔ میری رائے میں انہوں نے خاکہ نگاری میں کوئی اسلوب نہ بھی بنایا ہوتو یہ ضرور ہے کہ انہوں نے خاکہ نگاری کا حق ادا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے جس کے لئے وہ ستائش کے سزاوار ہیں۔47
سال 2017ء میں سیّد ناصرعلی نے اپنی مرتب کردہ دو کتابوں کو شائع کرایا جن پر وہ خاموشی سے گزشتہ ایک عشرے سے کام کررہے تھے۔ ان تالیفات کا تعلق بقائی میڈیکل یونیورسٹی سے براہِ راست جڑا ہوا ہے؛کیونکہ ان دونوں کتب میں انہوں نے ڈاکٹر بقائی مرحوم اور ڈاکٹر زاہدہ بقائی کے انٹرویوز جو انہوں نے مختلف اخبارات، رسائل وجرائد کو دیے، ان کا کھوج لگا کر انہیں مرتب کیا، جو بلا شک و شبہ ایک تحقیقی اور تاریخی کام ہے۔ اگرچہ ڈاکٹر بقائی مرحوم اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن اپنے کام کی بدولت ہمیشہ زندہ و پایندہ رہیں گے۔ سیّد محمد ناصر علی کے اس تحقیقی کام نے ڈاکٹر بقائی اور ڈاکٹر زاہدہ بقائی کے تاریخی اقدامات اور ان کے ویژن کو ایک جگہ مجتمع کر دیا ہے جسے بالعموم پاکستان کی تاریخ میں اور بالخصوص بقائی یونیورسٹی کی تاریخ میں مستقبل میں ایک سند کے طور پر دیکھا جائے گا۔”ہمارے خواب ہمارا عزم“ کے پیشِ لفظ میں سیّد صاحب لکھتے ہیں:
کسی شخص کے انٹرویو کا بنیادی مقصد عوام الناس کو اس سے اور اس کے کام، خیالات، کارگزاری اور کارکردگی کو متعارف کرانا ہوتاہے تاکہ عوام اسکی شخصیت اور کارناموں کو جانیں اور ان میں بھی اچھے کام کرنے کا جذبہ ابھرے۔ رائے
عامہ ہموار کرنے میں پرنٹ میڈیا بطور خاص اہم کردار ادا کرتا ہے ––– اس کا اثر دیرپا ہوتاہے کیونکہ اس سے بعد میں بھی رجوع کیا جاسکتاہے۔ پرنٹ میڈیا کا صحت اور تعلیم کے فروغ اور اصلاح میں اہم کردار ہے۔
اسی پیش لفظ وہ انٹرویو کی مختلف صورتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے جب وہ یہ کہتے ہیں کہ اس کی تین صورتیں ہوتی ہیں تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ انہیں صحافتی اکائیوں کا مطالعہ بھی ہے اور اس کا درست استعمال کرنا بھی جانتے ہیں۔ دیکھئے کس سہل انداز سے انہوں نے انٹرویو کی ان تین صورتوں کو اپنے قاری کے سامنے رکھ دیا ہے۔
ایک صورت یہ ہے کہ موضوع کی اعتبار سے انٹرویو دینے والے کی خواہش کے مطابق سوالات تیار کئے جاتے ہیں۔
اس رسمی سوال و جواب کی نشست کا مقصد اس شخص کے بارے میں زیادہ سے زیادہ وہ معلومات قاری تک پہنچانا ہوتاہے جس میں انٹرویو دینے والے کا نقطہ نظر واضح ہو۔ یہ Unstructured انٹرویو ہے۔
دوسری صورت میں انٹرویو کرنے والا اپنی جانب سے سوال تیار کرکے انٹرویو دینے والے کے حوالے کرتا ہے۔ اس کی روشنی میں وہ اپنے جوابات کے لئے اپنے ذہن کو تیار کرتا ہے پھرمطلوبہ معلومات و مسائل وغیرہ انٹرویو کی شکل میں قاری تک پہنچاتا ہے۔ یہ رسمی و جامد Structured انٹرویو ہے۔
تیسری صورت یہ ہوتی ہے انٹرویو لینے والا اپنے طور پر معلومات حاصل کرتا ہے پھر ان معلومات کی تصدیق سوالات کے ذریعے کرتاہے۔ کچھ باتیں وضاحت طلب ہوں تو انہیں بھی معلوم کرتاہے۔ انٹرویو دینے والے کو تصدیق اور تردید کا حق استعمال کرنے کا موقعہ ملتاہے اورابلاغ کا فرض بہترین طریقے سے ادا ہوجاتاہے۔
سیّد ناصر علی بقائی جوڑے کے ویژن پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں۔