گزشتہ سے پیوستہ۔۔۔
اسی سلسلے کے ایک اور اہم مضمون بعنوان”بقائی یونیورسٹی کی بیس سالہ خدمات“ میں انہوں نے ”بقائی ویژن“ کی اہمیت اجاگر کی ہے۔
ڈاکٹر فریدالدین بقائی اور ان کی بیگم ڈاکٹر زاہدہ بقائی کا ”خدمت۔ محنت۔محبت“ کا اپنا ایک فلسفہ ہے۔ انہوں نےاس فلسفے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک جامع ومربوط پروگرام بنایا جس کے تحت آج سے لگ بھگ ۶۳ برس پہلے”صحت۔تعلیم۔تخفیف غربت“ پر کام شروع کیا تھا جسے بعد ازاں ۹۹۹۱ء میں ”بقائی وژن۵۱۰۲ء“کا نام دیا گیا۔
اس کا مقصد اور ہدف پاکستان کے دیہی وپسماندہ لوگوں کو طبی سہولتیں، پرائمری تعلیم،خواتین کو گھریلو صنعتوں کی تربیت دے کر ان کے ذرائع آمدنی میں اضافہ اور خود کفالت کی منزل تک پہنچانا ہے۔ صحت کی سہولتیں،طبی تعلیم،بیماریوں کے خلاف آگہی،تحفظ، علاج کی آسانیاں بلاتفریق سب کو میسر ہوں یہاں تک کہ ہر بچہ فخر سے یہ کہہ سکے کہ ”اس کا اپنا اسکول ہے۔ اس کا اپنا ایک ڈاکٹر ہے“۔
”امن کا پیغام نوجوانوں کے نام“میں ایک نہایت موئثر انداز میں قوم کے معماروں کو اس بات کا احساس دلایا گیا ہے کہ وہ تین نسلیں جو کسی بھی زمانے کا حصہ ہوتی ہیں ان میں سے نوجوان نسل وہ طبقہ ہوتی ہے جوپوری قوم کی امیدوں کا محور ہوتی ہے۔ سیّد ناصر علی صاحب لکھتے ہیں:
ہر زمانہ میں بیک وقت تین نسلیں کام کررہی ہوتی ہیں۔ ایک نسل ادھیڑ عمر لوگوں کی، دوسری نوجوانوں کی اور تیسری بچوں کی۔ امن کے حصول میں ہمارا مرکز امید نوجوان ہیں۔ اس نسل میں ۶۱ سے ۵۲ سال کے افراد شامل ہیں جوعموماً کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم کے تکمیلی مراحل میں ہیں۔ کاروبار زندگی جلدہی ان کے ہاتھ آنے والا ہے۔ یہی نوجوان کسی بھی ملک اور قوم کا عظیم سرمایہ ہیں۔ ان میں تعلیم، ہنر، روشن خیالی اور قوت عمل کو ٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ نئے نئے تصورات اور کچھ کرگزرنے کی دھن ان کے راستے کی گرد ہوتی ہے۔ حصول امن کے لئے نوجوانوں
پر مشتمل ایک ایسا ہراول دستہ تیار کرنے کی ضرورت ہے جو دوغلے پن سے پاک ہو، مقصد کی سچائی جس کا شعار ہو،ٹھوس اور حقیقی منصوبہ بندی کے بعد اور عملی کام کے ذریعے ان کی پارہ صفت صلاحیت سے کام لیا جاسکتا ہے۔ پہلےانفرادی اور پھر اجتماعی انداز ایک فکری انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔
مضامین کے علاوہ ناصرعلی صاحب نے خاکے بھی لکھے ہیں۔مجھے ان کے تحریر کردہ خاکے پڑھنے کاموقع میسّر آیا ہے۔ ان خاکوں میں مجھے تصنوع کا عنصر بالکل نہیں ملا۔ وہ سیدھے سادے الفاظ میں ایسا مرقع کھینچتے ہیں کہ شخصیت سامنے آ کھڑی ہوتی ہے۔سیّد محمد ناصر علی کے بقول، ”لفظی خاکے کے معنی لفظی پیمانہ پیش ہے۔ آپ کی رائے قلم کو مہمیز لگاسکتی ہے۔میں نے تو مائیکل انجیلو کے کہنے کے مطابق صرف فالتو پتھر ہٹائے ہیں۔ “گویا جن شخصیات کے خاکے اور کہانیاں انہوں نے تحریر کیے ہیں دوسرے لفظوں میں وہ ایسی ہی شخصیات تھیں اور ہیں جیسے ان کے مرقعے کھینچے گئے ہیں۔دیکھیے کس خوبصورتی سے وہ ”بوا“ کی شخصیت کو ہم سے متعارف کراتے ہیں۔
’بوا‘ پرانی تہذیب و معاشرت کی علم بردار۔۔۔ خوش لباس، خوش شکل۔۔۔گھر میں ہمیشہ سفید غرارہ قمیض پہنتیں اورتقریبات میں رنگین غرارہ سوٹ ان کا پسندیدہ لباس ہوتا۔۔۔ شخصیت سنجیدہ اور وضع داری کا مرقع۔۔۔چہرے پر ٹھیک ناک کے نیچے نتھنے کے قریب موٹا سا مسہّ ان کی شخصیت کو منفرد بناتاتھا۔۔۔
سرخی پوڈر اور میک اپ سے بے نیاز بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ان کو اس قسم کے کسی مصنوعی حسن کے سہارے کی جوانی اور بڑھاپے میں ضرورت نہیں پڑی۔۔۔ قدرت نے خود ہی انہیں جاذبیت اور کشش سے نوازاتھا۔
سیّد محمدناصرعلی کے خاکے ”بوا“ میں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ایک خوب صورت خاکہ تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی ساتھ ہماری توجہ تقسیمِ ہند کے نامساعد حالات و واقعات کی طرف بھی مبذول کراتاہے گویا اس خاکے میں انہوں نے ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں۔یہ کسی بھی صاحبِ تحریر کا ہنر ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہنر سے قاری کو نہ صرف تحریر میں گم کردے بلکہ اس کے لیے معلومات کے خزینوں کے در بھی وا کر دے۔ میرے خیال میں ناصر ہر دو طرح سے کامیاب ہیں اور یہی ان کا اصل فن ہے۔
تقسیم برصغیر کے بعد ہجرت کی تکالیف خاندان کے بہت سے افراد نے جھیلیں۔پاکستان کے لئے آسودہ زندگی کو خیر باد کہا اور ناآسودگی کے پہاڑ عبور کئے۔ زمین،جائیداد،دولت سب کچھ پیچھے چھوڑ دیا۔ البتہ جنہوں نے تعلیم کو اپنا زیور سمجھا ان کے ہاں آسودگی،کشادگی رزق اور خوشحالی نے بھی اپنا روپ خوب دکھایا۔ یوں ’بوا‘ کی بات سچ ثابت ہوئی کہ تعلیم ایسی دولت ہے جسے کوئی نہیں چھین سکتا۔ جتنی تقسیم کرو اس میں اتنا ہی اضافہ ہوتاہے۔
”فرد فرید__فریدالدین “میں سیّد ناصر علی نے جس مہارت سے ڈاکٹر فریدالدین بقائی کا خاکہ تحریر کیا ہے وہ انہیں اپنے عہد کے خاکہ نگاروں میں ممتاز بناتا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
گول چہرہ۔۔۔ کشادہ پیشانی۔۔۔ سرمائی۔۔۔ بال سلیقہ سے بنے ہوئے۔۔۔ متوسط قد۔۔۔ سادہ لباس۔۔۔ پرکشش شخصیت۔۔۔ نپے تلے قدموں کی چال کے ساتھ ڈاکٹر بقائی آگئے۔ انہوں نے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے کمرے کے باہربینچ پر بیٹھے منتظر لوگوں پر ایک طائرانہ نظر دوڑائی اور مجھے اشارے سے کہا کہ پہلے آپ آیئے۔۔۔ اسے قیافہ شناسی کہوں۔۔۔ یا اپنانصیب۔۔۔ یا ان کی مروم شناسی۔۔۔آپ اسے کوئی بھی نام دے سکتے ہیں۔ چونکہ سیّد صاحب نے پروفیسر ڈاکٹر فریدالدین بقائی کے ساتھ کم و بیش ایک عشرہ پر محیط وقت گزارا چنانچہ ان کا جو وقت ڈاکٹر بقائی کی معیّت میں گزرا تو میرے خیال میں یقینا اس دوران میں انہیں اُن کو پرکھنے، جاننے اور سمجھنے کے بھر پور مواقع میّسر آئے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر بقائی کے خاکے میں ہمیں جہاں ان کی شخصیت کے بارے علم ہوتا ہے وہاں ان کے عام لوگوں کے ساتھ رویے پر بھی روشنی پڑتی ہے۔
سیّدناصر صاحب کے خاکوں کا ایک اور خاص وصف جو دورانِ مطالعہ مجھے محسوس ہوا اور جس سے میں خوب محظوظ ہوا اور مجھے یقین ہے کہ ان کا قاری بھی اس سے محظوظ ہوئے بغیر نہ رہ سکے گا وہ ہے مزاح کا عنصر۔ بظاہر سیّد ناصر علی ایک سنجیدہ انسان دکھائی دیتے ہیں،مگر ان کی تحریروں میں شگفتگی کا پہلو بھی نمایاں نظر آتا ہے۔”N/A – Sim“میں آئیے آپ کو ان کے مزاح اور شگفتگی کی ایک ہلکی سی جھلک دکھاتا چلوں:
صبح کے ۲۱ بجے نسیم صبح خیز کا ایک جھونکا آیا۔ مشام جان کو چھوا۔مطلب کہ۔۔۔ چھونے کا وقت تو گزر گیاتھا اس لئے جان سے لپٹ گیا۔ یوں سمجھئے کہ چمٹ گیا۔۔۔ مطلب کہ۔۔۔ہم نے بھی اسے خود دل وجان سمجھ کر چمٹا لیا۔۔۔ غلط نہ سمجھئے گا!چمٹا وہ نہیں جو خواتین باورچی خانہ میں کھانا پکاتے وقت استعمال کرتی ہیں؛ بلکہ بوقت ضرورت اپنے دفاع اور بلاضرورت چمٹنے والے کو دور رکھنے کی غرض سے حملے کے لئے بھی استعمال کرتی ہیں مطلب کہ ہم نے انہیں گلے لگالیا خوش آمدید کہنا ہماری عادت بھی ہے اور آبا کی روایت بھی یہ معاشرتی قدر تو ہے ہی۔ اس قدر کی قدر کرنا ہماری پہلی دوسری بلکہ تیسری غلطی بن گئی۔
دیکھئے ایک اور جگہ کس خوب صورتی سے اپنی پیدائش کا ذکر ظریفانہ انداز میں کرتے ہیں:
میری پیدائش نے کوئی تاریخی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ کوئی ہلچل نہیں مچائی __ بس چند ماہ بعد دنیا میں امن قائم ہوگیا۔ جنگ عظیم دوم ایک معاہدہ کے تحت اختتام پذیر ہوئی۔ جرمن شکست کھاگئے۔ دنیا میں امن اور کسادبازاری کا دور شروع ہوا۔ میری پیدائش یکم جنوری ۵۴۹۱ء کو ہوئی اور جنگ عظیم دوم بند کرنے کا معاہدہ مئی ۵۴۹۱ء کو ہوا۔یقین کریں کہ جنگ کے آغاز اور اختتام میں میرا کوئی ہاتھ یا عمل دخل نہیں تھا۔ پانچ ماہ کا بچہ کیا کردار اداکرسکتا تھا۔
سیّد محمد ناصر علی جس مہارت سے دوسری شخصیات کے خاکے ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں کچھ اسی طرح کے فن کا مظاہرہ وہ اپنی شخصیت کو متعارف کرانے کے لیے بھی کرتے ہیں۔جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ سیّد ناصرعلی ایک تہذیب یافتہ اور رکھ رکھاؤ والے انسان ہیں۔میرے اس بیان پر انہی کی وہ تحریر مہر ثبت کرتی ہے،جس میں انہوں نے اپنی شخصیت اور اپنی رول ماڈل فیملی کا تذکرہ کیا ہے۔ موصوف ”کس نمی پر سد“ میں لکھتے ہیں:
میں یہ جانتا ہوں ویسا ہی کہ بس میں ہوں۔ جیسا مجھے ہونا چاہیے۔۔۔میں ایک بیٹا ہوں جسے ذمہ داری کا احساس ہے۔۔۔ایک متوازن شوہر۔۔۔شفیق باپ اور مختلف اداروں میں کام کرتے کرتے باعزت مقام تک پہنچنے والا۔۔۔اپنے کام سے غیر مشروط لگاؤ رکھنے والا۔۔۔صرف محنت سے اور کرم الٰہی سے صاف اور سیدھا راستہ طے کرتا ہوا اس بلندی ئشکر پر پہنچا ہو ں۔۔۔ربِّ ذولجلال کے خاص کرم سے زندگی خوب نہیں بہت خوب گزری ہے۔۔۔باقی ہر بات ملتوی کرکے۔۔۔داستان حال کا آغاز کرتا ہوں۔
ادب اور ادیب کے بارے راقم الحروف کا ایک نظریہ ہے کہ ایسا ادب تخلیق ہونا چاہئے جس سے معاشرے کے سدھرنے کا کوئی پہلو نکلتا ہو اور جس میں انسانیت اور اس کی قدروں کا تذکرہ ہو، جس سے ہماری آنے والی نسلوں کو اپنی شناخت میں دشواری نہ ہو؛ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی نقاد مجھے اِس تحریک یا اُس تحریک کا پیرو قرار دے۔ سیّد محمد ناصر علی کے خاکے اورکہانیاں پڑھ کر ایک اطمنان تو ہوا کہ یہ طبع زاد ہیں اور پھر ان سے کسی کی دل آزاری یا معاشرے کے بگاڑ کا کوئی پہلو نہیں نکلتا۔
سیّد صاحب کی کہانیوں کی ایک نمایاں خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے دوستوں اور محسنوں کو کبھی فراموش نہیں کرتے۔اگرچہ اس کا ذکر پہلے بھی ہو چکا ہے لیکن جس طرح انہوں نے ”یہی مختصر سا قصہ ہے__میری زندگی کا حصّہ ہے“میں ڈاکٹر فرید الدین بقائی مرحوم کا کیا ہے، کم ہی لوگ ایسا کرتے ہیں۔ کسی کی زندگی میں کسی کی اچھائی بیان کرنا کبھی کبھار خوشامد کے زمرے میں آجاتا ہے؛ لیکن جب کوئی کسی ایسے شخص کی بابت مثبت رائے کا اظہار کرے جو اس دارِ فانی سے کوچ کر چکا ہو تو تحسین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور سیّد ناصر نے یہ ذمہ داری خوب نبھائی ہے۔
پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جو اپنی محنت کی کمائی فروغِ تعلیم‘بحالی ئ صحت کے لئے اپنے وسائل استعمال کررہے ہیں۔ ان کی دولت نہ ان کے صحیح کام آرہی ہے نہ ہی قوم کے مسائل کے حل کرنے میں استعمال ہورہی ہے۔ ڈاکٹر بقائی اور ان کی بیگم کار خیرمیں دولت جس جذبہ سے صرف کررہے ہیں وہ مثال ہے۔
ان کی زندگی بہت سادہ ہے جبکہ وہ بہت پر تعیش زندگی گزارسکتے ہیں۔
جو لوگ سیّد ناصر علی کو جانتے ہیں وہ اس بات سے یقینا آگاہ ہیں ان کا تعلق صحافت کے شعبہ سے بھی بہت گہرا رہا ہے؛چنانچہ اپنے مرقعاتی مضمون ”چند دن خالد علیگ کے ساتھ“ میں انہوں نے اپنی پہلی ملاقات اور پھر ان کے ساتھ گزارے اپنے ایّام کا ذکر جس کمال خوبی سے کیا ہے وہ ایک باکمال ادیب ہی کر سکتا ہے۔
”عزیز دوست کا زندگی نامہ“ میں مصنف نے شرق الاوسط میں ملازمت کے لیے آنے والے دو احباب”معروف“ اور ”معین“ کا تذکرہ جس ایمانداری اور خوب صورتی سے کیا ہے وہ واقعی قابلِ داد ہے۔ انہوں نے معین کے کردار کو تو بطور مہمان خاکے کا حصہ بنایا؛ لیکن معروف کی زندگی اور شخصیت کا جس طرح خاکہ بیان کیا ہے، وہ خاکہ نگاری کی چند اعلیٰ مثالوں میں سے ایک ہے۔اسی طرح انہوں نے ”کھو کھر سا ہم کو یار ملا“ میں اپنے دوست اشرف کھوکھرکا خاکہ بھی نہایت مہارت سے کھینچا ہے۔
”عزیز دوست کا زندگی نامہ“ میں مصنف نے شرق الاوسط میں ملازمت کے لیے آنے والے دو احباب”معروف“ اور ”معین“ کا تذکرہ جس ایمانداری اور خوب صورتی سے کیا ہے وہ واقعی قابلِ داد ہے۔ انہوں نے معین کے کردار کو تو بطور مہمان خاکے کا حصہ بنایا؛ لیکن معروف کی زندگی اور شخصیت کا جس طرح خاکہ بیان کیا ہے، وہ خاکہ نگاری کی چند اعلیٰ مثالوں میں سے ایک ہے۔اسی طرح انہوں نے ”کھو کھر سا ہم کو یار ملا“ میں اپنے دوست اشرف کھوکھرکا خاکہ بھی نہایت مہارت سے کھینچا ہے۔
سیّد محمدناصر علی کا طرّہ امتیاز یہ ہے کہ ان کا دل پاکستان کے ۰۷فی صد اس طبقے کے لیے بے چین رہتا ہے جنہیں زندگی کی بنیادیں ضرورتیں تو دور کی بات دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے رہتے ہیں۔ ان کا قلم ان کمزور اور معاشرے کے ستائے ہوئے لوگوں کی جیسے آواز بن کر مسندِ اقتدار پر بیٹھے لوگوں کے ضمیر کو جھنجوڑنا چاہتا ہو اور انہیں اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ابدی زندگی کی ایک ہلکی سی جھلک دکھا نا چاہتا ہو۔ سیّد ناصر کا دل بھی شاید ناصر کاظمی کی طر ح کسی اداس دنیا میں گم ہو جاتا ہے۔لیکن سیّد ناصر کا قلم اسی احساس اور جذبے کو ”تضاد۔۔۔شاد باد“ میں اس طرح قرطاسِ ابیض پر بکھیرتا ہے کہ دل بھی اداس ہو تا ہے اور آنکھیں بھی پر نم ہوجاتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
دیہی علاقوں میں زمینداروجاگیردار کے پاس اپنی ضرورت سے زیادہ غلہ ہے۔ پڑے پڑے کیٹروں کی غذابن کر خراب ہوجاتا ہے۔۔۔ زیادہ دور کیوں جائیں۔تھر میں رہنے والے غذا،دوا تو چھوڑئیے۔ زندگی کی بنیادپانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں۔ ان کے لئے امدادی سامان صاحب کی اجازت کے بغیر تقسیم نہیں ہوسکتا۔ صاحب اختیار کے نشے میں مست محفل رنداں میں غم غلط کرنے میں مشغول ہیں۔ نہ چھیڑاے نکہت باد بہاری ہم مشغول ہیں۔
اور پھر جب ان کا دل دردوغم کے سمندر سے باہر نکلتا ہے تو ان کا قلم سیاست دانوں کی ناانصافیوں کو باور کرانے کے لیے کہیں کہیں طنز کے نشتربھی چبوتا ہے۔ اسی خاکے میں جس کا ذکر سطورِ بالا میں ہو ا ہے،لکھتے ہیں:
قوم کی خدمت کرتا ہوں۔ میری صحت بھی تو رات دن قومی کام بھگتاتے ہوئے خراب ہوئی۔ قوم کو میری صحت کا خیال کرنا چاہئے۔ علاج کا خرچ قومی خزانہ سے ادا ہونا ہے کسی غریب کی جیب سے نہیں!غریب کا خزانے سے کیا مطلب۔ اس نے کون سا ٹیکس ادا کیا ہے؟ اس کا حق بنتا ہی نہیں ہے۔ اس کو سوچنا چاہئے وہ غریب کیوں پیدا ہوا؟ اگر علاج کے اخراجات برداشت کرنے کی سکت نہیں تو بیمار کیوں پڑتا ہے؟ روٹی نہیں ملتی تو ہمارا قومی لیڈر بولتا ہے کہ ”کیک کھائے“ ہمارے آرام وآسائش کو نظر نہ لگائے۔ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونا میرا مقدر تھا۔
”میر کا عکس مرے آئینہ ئادراک میں ہے“ کہنے کو ایک عام سی کہانی ہے لیکن اس میں بھی سیّد محمد ناصر علی نے جس طرح اپنے دوست کا ذکر کیا ہے وہ قابل دید ہی نہیں قابلِ ستائش بھی ہے:
عمران میر کے ساتھ زندگی کے پچاس سے زیادہ سال گزرے۔ ان بیتے برسوں میں زندگی کے سب ہی رنگ ہونے کے باوجود ہر رنگ اچھوتا ہے۔ساتھ گزاراوقت تو بیت گیا۔ یادوں کا ہجوم ذہن کے پردہ پر تیزی سے ابھرتا اور ڈوبتا ہے۔ عمران میر اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ یادیں اور باتیں حرماں نصیبوں کے لئے چھوڑ گئے۔