میرے درینہ دوست ایس ایم اظہرعالم مرحوم کے دو ناٹک “سلگتے چنار” اور “نمک کی گڑیا “کو انڈین نیٹ بک پرائیوٹ لمیٹڈ ، نوئیدا، بھارت سے شائع ہوئی ہے۔ اظہر عالم کے کیثر الجہت شخصیت تھے۔ وہ اداکار، ہدایت کار، ڈرامہ نویس اور معلم تھے۔ وہ نظریاتی طور پر بائین بازو کی تحریک اور رجحان سے جڑے ہوئے تھے۔ وہ 17 اپریل 1968 میں پیدا ہوئے اور ان کا انتقال 20اپریل 2021 میں کولکاتا، مغربی بنگال بھارت میں ہوا۔ وہ 1987 میں ڑرامے اور تھیٹر کے آفاق میں داخل ہوئے۔ “رنگ منچ” کی کوضوع پر انھوں نے اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا۔اور ” لٹل تھپسن” کے نام ایک تھیٹر اور ڈرامے کا ادارہ قائم کیا۔ انھون نے چالیس /40 سے زیادہ ڈرامے پیش کَئے اور ستر /ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ انھوں نے ایک فلم میں اداکاری بھی کی۔ اور اردو کی ادبی اور ڈرامائی صحافت کی تاریخ میں ۔ اپنا معروف جریدہ ” رنگ رس جاری کیا۔ { یہ جریدہ ” ریختہ” کی سائٹ پر موجود ہے} جس میں عالمی کلاسیکی اور جدید ڈراموں ، ڈراموں کے تراجم، اور ڈراموں پر تنقیدی ،محققانہ اور عالمانہ مضامین کے علاقہ دنیا کی عالمی تھیرٹیکل سرگرمیوں کو بھی جگہ دی جاتی تھی۔ ۔ انھوں نے ” روح” ، “نمک کی گڑیا”، چاک” اور سلگتے چناد” کے نام سے چار/4 ڈرامے لکھے۔ جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں اورفنکارانہ فطانت کا منہ بولا ثبوت ہے۔ اظہر عالم نے انگریزی سے ہندی اور اردو میں رومانیہ کے لایعنی ڈرامہ نگار آَینسکو کے ڈارمے ” گینڈا” اور امریکی ڈرامہ نگار ٹینسی ولیم کا یک ڈرامہ ” پرجت” { خزان} کے علاوہ ٹونی ڈیونی کا ڈرامہ چہرے کے نام سے ترجمہ کیا۔ اور پھر انھون نے اسمائیل چنارا کے “سوالیہ نشان ” کو ترجمہ کیا۔ ان کا پانچوان ترجمہ شدہ ڈرامہ لیو ٹالسٹائی کا ڈرامہ “پہلا شراب گر” کو ” راکشتی کوشتی” کے نام سے نیپالی زبان میں پیش کیا۔ { اس ڈرامے پر میری اظہر عالم سے بہت گفتگو رہی۔ اس ڈرامے پر اس خاکسار نے ان کے جریدے ” رنگ رس ” میں ایک طویل تنقیدی مقالہ بعنوان ” ٹالسٹائی کا ڈرامہ ” پہلا شراب گر”۔ حقیقت اور علامتی اسلوب کا امتزاج” لکھا تھا۔ حوالہ : ” رنگ رس ” دسرا شمارہ جولائی تا دسمبر 2015 کولکاتا مغربی بنگال ، بھارت صفہہ 15} اردو سے ہندی میں ” یادوں کے بچے ہوئے سویرے” کے نام سے بھی ایک ڈرامے کا ترجمہ کیا تھا۔ اظہر عالم نے این رشید کے اردو ڈرامے ” آبنوسی خیال” کو ہندی میں منتقل کیا۔ رابند ناتھ ٹیگور کے بنگلہ ڈرامے ” متھو دہارا ‘ { آزاد زمین} کا اردو ترجمہ کیا۔ اسی زمانے میں ان سے میں ٹیگور کے ” ڈاک بابو” کو اردو یا ہندی میں پیش کرنے کی بات کی تھی مگر ہمارا یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک نہ پنچ سکا ۔
*** {احمد سہیل}***
📘📕📜🖋🎥🎭🎤
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
::: एसएम अजहर आलम के दो नाटक “लगते चिनार” और नमक की गुड़िया “::
*** अहमद सोहेल ***
मेरे प्रिय मित्र एस.एम. अजहर आलम के दो नाटक “सालगते चिनार” और “नमक की गुड़िया का” इंडियन नेटबुक प्राइवेट लिमिटेड, नोएडा, भारत द्वारा प्रकाशित किए गए हैं। अजहर आलम के कई पहलू थे। वह एक अभिनेता, निर्देशक, नाटककार और शिक्षक थे। वे वैचारिक रूप से वामपंथी आंदोलन और प्रवृत्ति से जुड़े थे। उनका जन्म 17 अप्रैल 1968 को हुआ था और 20 अप्रैल 2021 को कोलकाता, पश्चिम बंगाल, भारत में उनका निधन हो गया। उन्होंने 1987 में नाटक और रंगमंच की दुनिया में प्रवेश किया। उन्होंने “रिंग मंच” पर अपना डॉक्टरेट शोध प्रबंध लिखा और “लिटिल थॉप्सन” नामक एक थिएटर और नाटक संस्थान की स्थापना की। उन्होंने 40 से अधिक नाटकों में अभिनय किया और 70 नाटकों में अपने अभिनय का सार दिखाया। उन्होंने एक फिल्म में अभिनय भी किया। और उर्दू साहित्यिक और नाटकीय पत्रकारिता के इतिहास में। इसकी प्रसिद्ध पत्रिका “रंग रास” का विमोचन किया। यह “रेखता” पत्रिका की साइट पर उपलब्ध है जिसमें विश्व शास्त्रीय और आधुनिक नाटक, नाटकों के अनुवाद और नाटकों पर आलोचनात्मक, शोध और विद्वानों के लेख शामिल हैं। उन्होंने चार नाटक भी लिखे, शीर्षक “सोल”, “सॉल्ट डॉल”, “चॉक” और “सालगते चनाड”, जो उनकी रचनात्मकता और कलात्मक सरलता का एक वसीयतनामा है। रोमानियाई नाटककार आइंस्को के नाटक “राइनोसेरोस” और अमेरिकी नाटककार टेनेसी विलियम द्वारा अंग्रेजी से हिंदी और उर्दू में अनुवादित नाटक “प्रजात” “खज़ान”, साथ ही साथ टोनी डेवी का नाटक “चेहरा”। चिनारा के “प्रश्न चिह्न” का अनुवाद किया। उनका पाँचवाँ अनुवादित नाटक, लियो टॉल्स्टॉय का नाटक “द फर्स्ट ड्रंकर्ड” नेपाली में “रक्षा कुश्ती” शीर्षक के तहत प्रस्तुत किया गया था। इस नाटक पर, खाकसर ने अपनी पत्रिका “रिंग रस” में एक लंबा आलोचनात्मक निबंध लिखा, जिसका शीर्षक था “टॉल्स्टॉय का नाटक” फर्स्ट ड्रिंक “। वास्तविकता और प्रतीकात्मक शैली का संयोजन “संदर्भ:” रंग रास “दूसरा अंक जुलाई-दिसंबर 2015 कोलकाता पश्चिम बंगाल, भारत पृष्ठ 15 अजहर आलम ने एन. राशिद के उर्दू नाटक “अब नोसी ख्याल” का हिंदी में अनुवाद किया। साथ ही, मैंने उन्हें टैगोर के “डाक बाबू” को उर्दू या हिंदी में प्रस्तुत करने के लिए कहा था, लेकिन हमारी योजना अमल में नहीं आई।
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...