اس کہانی کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ انسانی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ دوسرا اس سے بالکل الٹ۔ یہ افریقہ کے ملک روانڈا کی کہانی ہے۔
اگر آپ نے روانڈا کا نام سنا ہو گا تو شاید یہاں پر ہونے والے بدترین قتلِ عام کے حوالے سے جو بہت دیر تک عالمی شہہ سرخیوں میں رہا۔ کہانی کا پہلا حصہ اس پر۔ 6 اپریل 1994 کو روانڈا کے صدر کے طیارے کو اینٹی ائرکرافٹ میزائل سے اڑا دیا گیا۔ یہ معلوم نہیں کہ یہ کیا کس نے تھا۔ روانڈا میں دو قبائل آباد تھے۔ ہوتو جو اکثریت میں تھے اور ٹوٹسی جو اقلیت میں۔ صدر کا تعلق اکثریتی قبیلے سے تھا اور فوجی کمان کا بھی۔ اس قتل کا الزام ٹوٹسی قبیلے پر لگا۔ ان کے درمیان پہلے ہی کشیدگی تھی۔ ان کو میڈیا میں “کاکروچ” کہا جاتا تھا۔ ان میں سے کئی ہمسایہ ممالک میں پناہ گزین تھے۔ تعصب کیا کچھ کر سکتا ہے؟ یہ کسی نے سوچا بھی نہ ہو گا۔ ریڈیو پر ان “کاکروچوں” کو مار ڈالنے کے پیغامات نشر ہوئے۔ روانڈا کی فوج نے ہوتو میں ڈنڈے تقسیم کئے کہ جہاں مخالف قبیلے کے افراد نظر آئیں، ان کو قتل کر دیا جائے۔ جو رحم دکھائے گا، وہ بھی غدار کہلائے گا۔ لوگوں نے اپنے ہمسائیوں اور یہاں تک کہ مخالف قبیلے سے تعلق رکھنے والی اپنی بیویوں کو بھی ڈنڈوں اور چاقووٗں سے قتل کیا۔ اگلے سو روز میں دس لاکھ افراد یعنی روانڈا کی بیس فیصد آبادی اس طریقے سے قتل کی گئی۔
ہوتو اور ٹوٹسی اس قدر نفرت کیوں رکھتے تھے؟ کیا یہ ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے؟ نہیں۔ افریقہ کے بہت سے ممالک میں کئی طرح کے کلچر اور قومیں ایک ملک میں رہتی ہیں۔ مثال کے طور پر جنوبی افریقہ میں نو سرکاری زبانیں ہیں اور یوگینڈا میں پندرہ۔ لیکن روانڈا میں اس طرح کے فرق نہیں، صدیوں سے لوگ اکٹھے رہتے آئے ہیں۔ ایک ہی زبان ہے، ایک ہی کلچر۔ بیسویں صدی میں جب بلجیم نے اس کو کالونی بنایا تو لوگوں کی شناخت کے لئے بنائے گئے کارڈ میں قبیلے کا اضافہ کر دیا۔ یہ قبائلی لحاظ سے شناخت کا آغاز تھا۔ شروع میں ٹوٹسی قبیلے کو اس دور میں اہم حکومتی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ پھر ٹوٹسی کی طرف سے آزادی کا مطالبہ سامنے آیا اور یہ ذمہ داریاں ہوتو کے پاس چلی گئیں۔ یہ اب شناخت کی بنیاد پر کشیدگی کا آغاز تھا۔ جب روانڈا کو 1962 میں آزادی ملی، ٹوٹسی اور ہوتو ایک دوسرے کے دشمن بن چکے تھے۔ ٹوٹسی قبائل میں سے کئی لوگوں کو ہمسایہ ممالک کی طرف فرار ہونا پڑا۔ ان میں سے ایک شخص پال کاگامے تھے۔ ان کا نام یاد رکھئے گا کیونکہ یہ ہماری کہانی کے دوسرے حصے کے اہم کردار ہیں۔ کاگامے یوگینڈا میں رہنے والے مہاجر کیمپ میں بڑے ہوئے۔ اسی کی دہائی میں یوگینڈا خانہ جنگی کا شکار تھا۔ کاگامے نے اس خانہ جنگی میں حصہ لیا اور یوگینڈا کی حکومت کے خلاف فتح حاصل کی۔ اس جنگ کے ہیرو کے طور پر شہرت پائی۔ نوے کی دہائی میں انہوں نے روانڈا کی ہوتو حکومت کے خلاف حملوں میں حصہ لیا۔ سو روز کے خوفناک قتلِ عام کے بعد کاگامے نے روانڈا کے دارلحکومت پر ڈھائی ہزار فوجیوں کے ساتھ حملہ کیا اور بہتر جنگی حکمتِ عملی کی وجہ سے فتح حاصل کی۔ صلح کا معاہدہ کیا، قبلِ عام ختم ہوا۔ نئی مصالحاتی حکومت میں آ گئی، کاگامے نائب صدر بنے۔
روانڈا دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے تھا۔ قبلِ عام کے گہرے زخموں سے چُور ایسا ملک جہاں ہمسائیوں نے ہمسائیوں کو قتل کیا تھا، دوستوں نے دوستوں کو۔ کوئی قدرتی وسائل نہ تھے اور یہ نئی حکومت کرپشن اور انسانی حقوق میں حوالے سے ایک بدترین حکومت تھی۔ اگلے ایک سال میں اس حکومت نے بدلہ لینے کے لئے نظامِ انصاف کی دھجیاں بکھیریں۔ محض سنی سنائی باتوں پر بھی موت کی سزائیں سنائیں۔ جو تھوڑا بہت پیسہ روانڈا کے پاس تھا، اس سے نئی مصالحتی حکومت کے وزیروں نے اپنی جیبیں بھریں۔ ان کو کوئی روکنے والی ہی نہ تھا۔
یہاں سے کہانی کا دوسرا حصہ شروع ہوتا ہے۔ کاگامے اسی نظام سے ابھرے۔ مارچ 2000 میں ہوتو صدر کے استعفے کے بعد انہوں نے اقتدار سنبھال لیا۔ ان کے سامنے دو واضح مقاصد تھے۔ تلخ ماضی کو دفن کرنا اور معیشت۔ اس دوسرے مقصد کے لئے انہوں نے کیا کیا؟ سفر۔ بہت سا سفر۔ ان کی مشاوراتی ٹیم اس وقت کے ابھرتے ممالک چین، تھائی لینڈ اور سنگاپور جیسے ممالک میں گئی۔ یہ ملک اس دور میں معاشی ترقی کے زور پر غربت کے چکر سے نکلے تھے۔ کاگامے انکے سیاستدانوں، ماہرینِ معیشت، سول سرونٹس سے ملتے رہے۔ ان ملاقاتوں سے اپنے خیالات نوٹ بک پر لکھتے رہتے۔ یہ نوٹ بُک نئے روانڈا کی بنیاد بنی۔ اس کا آئین اس کی بنیاد پر لکھا گیا اور اس سے ویژن 2020 بنا۔ یہ ترقیاتی پروگرام تھا جو عام سیاستدانوں کے الفاظ جیسا نہیں تھا۔ یہ ایسے چوالیس واضح مقاصد پر مشتمل تھا جن کی پیمائش کی جا سکتی تھی اور حقیقت کی بنیاد پر تھے۔ مثال کے طور پر بیس سالوں میں تیس فیصد روانڈا کے شہریوں تک بجلی کی فراہمی۔ ان مقاصد کے حصول کی مسلسل پیمائش کے لئے سرکاری اور نجی کنسلٹ رکھے گئے۔
ان میں سے ایک مقصد صنفی امتیاز کا خاتمہ تھا۔ اس کے حصول کے لئے روانڈا کے آئین میں اقدامات کی فہرست ہے۔ اس کا ایک نتیجہ: دنیا کی وہ کونسی پارلیمنٹ ہے جہاں پر خواتین کا تناسب سب سے زیادہ ہے؟ خواتین اور مردوں کی آمدنی کا فرق دنیا میں سب سے کم کہاں ہے؟ ان دونوں کا جواب ڈنمارک وغیرہ نہیں، روانڈا ہے۔ نوجوان خواتین کی طرف سے کھولے گئے نئے کاروبار اس وقت معیشت کو بھی لیڈ کر رہے ہیں۔
روانڈا کی حکومتی آمدنی زیادہ نہیں لیکن یہ اس کو عقلمندی سے استعمال کر رہا ہے۔ ورلڈ بینک سے قرضے اور اپنے ٹیکس ریوینیو کو سڑکوں اور پاور جنریشن کے پراجیکٹس پر خرچ کیا ہے جنہوں نے زراعت اور تجارت کی بڑی مدد کی ہے۔ اس وقت روانڈا زرعی اجناس اپنے ہمسائیوں کو برآمد کر رہا ہے۔ قتلِ عام کے چوبیس برس بعد روانڈا کی معیشت کا گروتھ ریٹ اب آٹھ فیصد سالانہ ہے جو چین اور ویت نام جیسے ممالک کے برابر ہے۔
جن سڑکوں پر کبھی موت کا رقص تھا، اب نئے بزنس کھل رہے ہیں۔ مثال کے طور پر روانڈا موٹر سائیکل کمپنی جو امریکی سرمایہ کاری سے پچھلے سال کھولی گئی۔ سرمایہ کاری اور بزنس بہت آسان ہے۔ اگر آپ روانڈا میں کاروبار شروع کرنا چاہیں تو کسی بھی ملک سے تعلق رکھتے ہوں، پورے پراسس میں صرف دو روز لگتے ہیں۔ اس سے بہت سے سرمایہ کار یہاں پر پہنچے ہیں، خاص طور پر چین اور امریکہ سے۔
روانڈا نے ماضی کو کیسے دفن کیا؟ بندوق کے زور پر قائم کی گئی رواداری سے۔ ہوتو اور ٹوٹسی کی شناخت زبردستی ختم کر دی گئی۔ کوئی اس لیبل سے اپنی شناخت نہیں کروا سکتا۔ یہ اصطلاح ہی آئینی طور پر منع ہو گئی۔ نفرت پھیلانے والی گفتگو قابلِ قبول نہیں۔ اس حوالے سے میڈیا یا کسی اور ادارے پر کڑی پابندی ہے۔ پرانے زخم کھولنے یا کریدنے کی اجازت نہیں۔ (اس کی تاریک سائیڈ یہ ہے کہ حکومت پر کسی بھی تنقید کی اجازت بھی نہیں)۔ پال کاگامے ملک میں بہت مقبول صدر ہیں اور افریقہ میں بھی ان کی بہت عزت کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ فیس بُک، ٹوئٹر اور یوٹیوب پر خاصے ایکٹو بھی ہیں۔
روانڈا کا ماڈل تین ستونوں پر قائم ہے۔ سرمایہ کاری اور کاروبار میں آسانی، انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اور سخت گیر حکومت جس کی ترجیح حفاظت اور رواداری ہے خواہ انسانی حقوق کی قیمت پر ہی ہو۔ یہ ماڈل اس وقت روانڈا میں کامیابی سے کام کر رہا ہے اور نتائج دکھا رہا ہے۔ پچھلے سترہ برس میں یہاں پر غربت کی شرح مسلسل گر رہی ہے اور قومی آمدنی تین گنا ہو چکی ہے۔
روانڈا ابھی بھی غریب ملک ہے جو کئی طرح کے مسائل کا شکار ہے لیکن صرف چوبیس سال پہلے ہونے والے انسانی تاریخ کے سیاہ ترین باب کی ہیڈلائنز سے فائننشل میگزینز کی ہیڈلائن تک۔ غریب ترین ملک سے دنیا کی تیز ترین بڑھتی معیشتوں تک (جو بغیر قدرتی وسائل کے ہے) ابھی تک افریقہ کے وسط میں اندھیرے سے ہوتی صبح کی کہانی ہے۔