آج روس کے نامور شاعر، ناول نگار، افسانہ نگار مضمون نگار، مترجم، افسانہ نگار، سوانح نگار، مصنف، صحافی، اور فلسفی فیودر دوستوئیفسکی کا یوم پیدائش ہے، اس موقع پر تارڑ صاحب کی کتاب " ماسکو کی سفید راتیں " سے ایک انتخاب احباب کی نظر :
••••
قیصہ یہ تھا کہ سرخ چوک میں یہ وہ جگہ تھی جہاں زار کے مخالفین کے سر قلم کیے جاتے تھے۔۔۔ اور روانہ کیے جاتے تھے۔۔
کمر تک آنے والی چار دیواری اس لیے تھی کی قتل کیے جانے والوں کا خون اسکے اندر رہے۔۔۔ سرخ چوک کے پتھروں کو آلودہ نہ کرے۔۔ مجرموں کے سر ایک ٹوکری میں جمع کر لیے جاتے اور دھڑا زار کے سپاہی اٹھا کر شاید دریائے ماسکو میں پھینک دیتے یا کہیں دفن کر دیتے۔۔۔
اس روز دھوپ کڑی تھی۔۔۔۔
کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اس چبوترے کے اندر جو فرش ہے وہ کبھی لہو کی سرخی میں پوشیدہ ہوجاتا ہوگا۔۔۔
اور معا مجھے ایک ایسے شخص کی یاد آئی جو انہی دو چار سیڑھیوں پر قدم رکھتا مقتل کی قربت میں ہوا تھا۔۔۔ اور یہ " فیوڈور دوستووسکی " تھا۔۔۔ جس کا ناول
" بردرز کرمازوو " پڑھتے ہوئے ٹالسٹائی نے اسکے ایک صحفے پر نشان لگایا تھا کہ یہاں تک پڑھ لیا ہے اور پھر اپنی حویلی سے ایسا نکلا کہ مردہ ہو کر واپس آیا تھا۔۔۔
دوستووسکی کو زرا کے خلاف ستمبر منصوبے میں ملوث ہونے کے جرم میں گرفتار کیا گیا اور اسے موت کی سزا سنائی گئی۔۔
اسی چبوترے کے اندر گلوٹین نصب تھی۔۔۔
یہ جو معصوم سا تھڑا نظر آرہا تھا یہ اس گلوٹین کا ایک حصہ تھا۔۔۔
جلاد مجرم کے بال پکڑ کر اس کا سر گلوٹین کے بیچ میں اس ٹھڑے پر رکھتا اور پھر اوپر سے ایک تیز دھار گنڈاسا اسکی گردن پر گرتا اور اسکا حیران کھلی آنکھوں والا سر۔۔۔ دھڑ سے کٹ کر نیچے ٹوکری میں جاگرتا۔۔
روایت ہے کہ زار کے ان مخالفین کے سر دھڑا دھڑا۔۔ جو ابھی انکے ساتھ تھے اور ڈھڑ سے کٹ کر گرتے تھے۔۔۔ جو ستمبر کے سازش میں شریک تھے۔۔ انہیں قتل کیا جا رہا تھا اور ان مجرمین کی ایک طویل قطار تھی جو سرخ چوک کے درمیان تک چلی جاتی تھی اور اس قطار میں دوستووسکی بھی شامل تھا۔۔۔
ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے اور زار کے سپاہی اسے دھکیلتے ہوئے۔۔ کہا جاتا ہے کہ جب دوستووسکی کے آگے چوتھے نمبر پر جو شخص تھا اسکا سر کٹ کر گرا۔۔۔
اور جو شخص تیسری جگہ پر تھا جلاد نے اسکی گردن پکڑ کر گلوٹین پر رکھی اور اس پر وہ تیز دھار گنڈاسا گرنے کو تھا تو سرخ چوک میں کچھ شور و غل سا ہوگیا۔۔ گھوڑوں کی ٹاپیں سنائی دیں اور یہ زار روس کے ہر کارے تھے جو یہ حکم نامہ لے کر آئے تھے کہ ستمبر کی سازش کے تمام مجرموں کو معاف کیا جاتا ہے۔۔۔ کہا جاتا ہے کہ جس شخص کا سر جلاد گلوٹین کے نیچے رکھ چکا تھا جب اسے آزاد کر دیا گیا تو وہ پاگل ہوگیا۔۔ اسکے پیچھے جو مجرم اپنی باری کا منتظر تھا اسکا کچھ سراغ نہ ملا کہ وہ زندگی دوبارہ پا کر کدھر چلا گیا۔۔۔
اور ان دونوں کے پیچھے دوستووسکی کھڑا تھا۔۔۔
چند لمحوں بعد موت کا منتظر۔۔۔ اپنی گردن پر اس تیز دھار گنڈاسے کے بلیڈ کو ابھی سے محسوس کرتا ہوا اور وہ بھی آزاد کر دیا گیا۔۔
دوستووسکی نے اپنے تمام بڑے ناول موت سے اس ملاقات کے بعد تحریر کیے۔۔۔
وہ بھی پاگل ہوگیا پر اسکے پاگل پن نے ناولوں کے کرداروں کا روپ اختیار کیا۔۔۔
ایسے کردار جو زندگی اور موت سے آگاہ ہوکر نڈر ہو چکے تھے۔۔۔
" میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی ادیب جب تک موت کی قربت کے سرد سانس محسوس نہ کرے ایک لازوال تحریر نہیں لکھ سکتا۔۔۔
یہ صرف موت ہے جو چھوٹے اور بڑے کو الگ کرتی ہے۔۔۔
موت سے جدا ہوکر محض زندگی کا تجربہ نہایت کھوکھلا اور بنجر ہوتا ہے۔۔۔
اور ہاں یہ صرف حقیقت ہی نہیں ایک ادیب کی قوت متخیلہ بھی موت کی قربت کو محسوس کر سکتی ہے۔۔۔"
•••••