17 ستمبر کی رات شام میں لاذقیہ کے نزدیک بحیرہ روم کے اوپر روس کا ایک جنگی ٹرانسپورٹ طیارہ ایل 20، شام کے ضد میزائیل نظام سے داغے گئے میزائیل کی زد میں آ کر تباہ ہو کر بحیرہ روم میں جا گرا تھا۔ طیارے میں موجود عملے کے پندرہ فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ ان کی لاشوں اور تباہ شدہ طیارے کے ملبے کی تلاش تا حال جاری ہے۔
یہ سانحہ تب ہوا جب اسرائیل کے چار ایف 16 جنگی طیاروں نے لاذقیہ پر بمباری کرنے کے بعد خود کو ضد میزائل نظام سے بچانے کی خاطر، فضا میں موجود روس کے جنگی ٹرانسپورٹ طیارے کو " ڈھال " کے طور پر استعمال کرنے کی غرض سے اپنے چلن سے اس طیارے کو ایسی سطح پر آنے پر مجبور کیا تھا جو شام کے ضد میزائیل نظام کا ہدف بنتا تھا۔
اس سانحے کے بعد روس کی شام میں فوج کے ترجمان میجر جنرل ایگر کوناشینکو نے جہاں ایک طرف اس حیرت کا اظہار کیا تھا کہ روس کو اسرائیل سے یہ توقع نہیں تھی، وہاں یہ بھی کہا تھا کہ روس جواب میں اسرائیل کے خلاف مناسب اقدام لے گا۔ تاہم 18 ستمبر کو صدر پوتن نے صحافیوں کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ یہ ایک اتفاقی سانحہ ہے جو غلطی سے ہوا ہے اور اس کی اس واقعے سے مماثلت نہیں، جب شام کے علاقے میں ترکی کے ایک جنگی طیارے نے روس کے ایک جنگی طیارے کو نشانہ بنایا تھا۔
اس واقعے کے بعد ترکی کو روس کی جانب سے عائد کی گئی تجارتی پابندیوں کی وجہ سے نہ صرف بھاری مالی نقصان اٹھانا پڑا تھا بلکہ جیسا کہ صدر روس پوتن نے عہد کیا تھا کہ اردوگان کو معافی مانگنی ہوگی اور زر تلافی بھی ادا کرنا ہوگا، ویسے ہی اردوگان کو معافی مانگنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ زرتلافی کا معاملہ تاحال زیرغور ہے۔
مگر آج 23 ستمبر کو مکمل تحقیق کے بعد شام میں روس کی فوج کے ترجمان میجر جنرل ایگر کوناشینکو نے ایک تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے اس سانحے کا یکسر ذمہ دار اسرائیل کی فضائیہ کو قرار دیا ہے۔ یہ بھی کہا ہے کہ روس کے اسرائیل پر بہت زیادہ احسانات ہیں، جس کا صلہ اسرائیل کی فضائیہ نے یا تو کلی عدم پیشہ ور ہونے کے سبب یا ارادتا" ایسے دیا ہے کہ ہمارے پندرہ فوجی مارے گئے ہیں۔
بتایا گیا کہ اسرائیل نے گذشتہ عرصے میں شام کی سرزمین پر 200 سے زائد بار فضائی وار کیے ہیں مگر روس کی فوج کو اس سے متعلق صرف پچیس بار مطلع کیا۔ حالیہ جنگی کارروائی سے متعلق اسرائیل نے روس کو مطلع کیا تھا کہ اس کی فضائیہ شام کے شمالی خطے کو نشانہ بنائے گی جب کہ اس کے برعکس بمباری لاذقیہ پر کی گئی جو شام کا مغربی خطہ ہے۔ پھر مطلع کرنے کا وقت اتنا کم تھا کہ روس اپنے طیارے کو نہ تو محفوظ فضائی حصے میں بھیج سکتا تھا اور نہ ہی اسے اتارا جا سکتا تھا۔
اسرائیل کے جنگی پائلٹوں کو علم تھا کہ ایل 20 اور ایف 16 ایک ہی بلندی پر پرواز کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ شام کا ضد میزائل نظام فعال ہوتا، اسرائیل کے ایک ایف 16 کے پائلٹ نے ایسا موڑ لیا تھا کہ روس کا طیارہ ان کے پہلو میں آنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ نشانہ بننے کے بعد پائلٹ نے کمال مہارت سے جہاز کو بہت نیچے کیا تھا مگر اس سے پہلے کہ ہنگامی لینڈنگ کرے طیارہ سمندر میں جا گرا تھا۔
روس مشرق وسطٰی میں قیام امن کی خاطر سوویت عہد سے لے کر اب تک اہم کردار ادا کرتا چلا آ رہا ہے۔ حالیہ شامی جنگ میں روس کی فوج نے داعش کے علاقے سے اسرائیلی فوجیوں کی لاشوں کو جان جوکھم میں ڈال کر نکالا۔ گولان کی پہاڑیوں کے گرد علاقے کو داعش سے پاک کروایا۔ اس کاروائی کو ایران کے پاسدار سرانجام دینا چاہتے تھے مگر روس نے حالات کشیدہ ہونے سے بچانے کی خاطر یہ ذمہ داری اپنے سر لی۔ ویسے بھی روس ایران کو اسرائیل کے خلاف جنگی کارروائی کرنے سے مسلسل باز رکھتا چلا آ رہا ہے۔
علاوہ ازیں اسرائیل کی ایک چوتھائی آبادی سوویت یونین اور بعد میں روس سے گئے ہوئے شہریوں پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے روس کی اسرائیل کی جانب ہمدردی ہے۔ روس وہاں موجود بزرگ سابق سوویت/ روسی شہریوں کو پنشن بھی دیتا ہے۔
اسرائیل کی فضائیہ اور وزارت دفاع نے اس سانحے کی ذمہ داری مکمل طور پر شام پر عائد کرکے خود کو جرم سے عہدہ برآء قرار دیا ہے۔ اور تو اور اسرائیل کی وزارت دفاع نے اس سانحے پر افسوس کا اظہار تک نہیں کیا عذر خواہی تو دور کی بات۔ مگر اب روس نے اس سانحے کا اسرائیل کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے، اسرائیل کی وزارت دفاع کو روس کے ساتھ اسرائیل کے معاہدوں اور بین الاقوامی قوانین توڑنے کا مجرم قرار دیا ہے۔
روس اسرائیل سے اس سانحے کی تلافی کیونکر کروائے گا، اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر امکان ہے کہ روس اسرائیل کے حق میں ایران پر دباؤ ضرور کم کر دے گا۔ بہر حال اسرائیل کو اب روس کے پندرہ فوجی مارنے کی جوابدہی بہر طور کرنی ہوگی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...