روس بنا ایک میزائل داغے جیت گیا
امریکہ اور دو مغربی ملکوں نے بزعم خود شام پر "فیصلہ کن" حملہ کیا۔ روس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرار داد مذمت پیش کی۔ سلامتی کونسل کے تین مستقنل اراکین ملکوں نے اس قرار داد کو ویٹو کر دیا ویسے بھی ان تینوں ملکوں نے یہ حملہ کیا تھا۔
دنیا نے حقائق کی بنیاد پر داغے جانے والے میزائلوں کی تعداد بھی گن لی ہے۔ 103 " ٹوما ہاک " میزائل داغے گئے، اور ہاں سچ تو یہ ہے کہ امریکہ کے صدرڈونالڈ ٹرمپ نے دعوٰی کیا تھا کہ میزائل " نئے اور سمارٹ" ہونگے۔ بات جھوٹ نکلی، اڑان بھری تو ازکاررفتہ " ٹوماہاک" میزائلوں نے جنہیں شام کے پرانے صد میزائل نظام نے تمام تزویراتی اہداف تک پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کر ڈالا، یاد رہے سوویت یونین نے یہ نظام "ٹوما ہاک " سے نمٹنے کے لیے ہی توضیع کیا تھا۔
برطانیہ نے آٹھ " سکیلپ " نام کے میزائل داغے، جن سے متعلق بی بی سی نے فخر سے بتایا کہ " ہر ایک کی لمبائی پانچ میٹر ہے "۔ وہ نسبتا" نئے بھی تھے کیونکہ وہ بیس برس پہلے ہی سامنے لائے گئے تھے۔
فرانس کی کارروائی تا حال ناقابل فہم ہے۔ فرانس کے بایقین ذرائع کے مطابق فرانس نے بھی آٹھ "سکیلپ" میزائل داغے۔ پانچ جنگی طیارے سے اور تین بحری جنگی جہاز سے۔ مگر روس کی فضائیہ نے بتایا ہے کہ شام کی فضا میں ایک بھی " رافالے " طیارہ اڑتا دکھائی نہیں دیا۔ یوں لگتا ہے کہ امریکہ کے اس اتحادی کو اخلاقی طور پر شامل رکھا گیا ہے کیونکہ اس نے اجتماعی عمل کی روح کی حمایت کی۔
نقصان کیا ہوا: بظاہر یہ میزائل حمس اور دمشق میں ویران عمارتوں پر گرے کیونکہ حقیقت میں بیشتر کو تو شام کی فضا میں ہی ناکارہ بنا دیا گیا تھا۔ روس کو تو خیر اس حملے سے متعلق مطلع ہی نہیں کیا گیا تھا جس کے بارے میں امریکہ نے کامیاب ہونے کا دعوٰی کیا ہے:
* ایک بھی شہری نہیں مارا گیا۔
* شام کی فوج کا ایک بھی سپاہی شہید نہیں ہوا۔
* شامی فضائیہ کا ایک بھی طیارہ یا ہیلی کاپٹر تباہ نہیں ہوا۔
* روس کے صد میزائل نظام کے احاطے میں ایک بھی میزائل اتفاق سے بھی داخل نہیں ہوا۔
* شام کی فوج کے زیر استعمال ایک بھی ہوائی اڈے کو نقصان نہیں پہنچا۔
* 103 میں سے 71 میزائل ضائع ہو گئے۔
اس حملے کا اثر ایک سال پیشتر شام کے فضائی اڈے شائرات پر ہوئے مغرب کے حملے سے کہیں کم رہا۔ تب 59 "ٹوما ہاک " داغے گئے تھے جن کے سبب شام کے کئی جنگی طیارے تباہ ہوئے تھے، رن وے کو نقصان پہنچا تھا، کئی گھنٹوں تک فضائی اڈہ استعمال کے قابل نہیں رہا تھا اور کئی شامی ہلاک ہوئے تھے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ کیمیائی ہتھیاروں کی مخالف بین الاقوامی تنظیم کے ماہرین کا وفد حملے کے چند گھنٹے بعد شام پہنچا جس نے کیمیائی ہتھیار کے استعمال کے بارے میں تفتیش کرنی ہے اور طے کرنا ہے کہ شہر دوما میں ہوا کیا تھا۔
یوں اصل معاملہ تو حملے کے بعد شروع ہوا ہے۔ روس والے پہلے ہی جانتے ہیں کہ جنگ کرنے کے لیے بہانے تراشے جاتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ، ٹیریزا مے اور ایمونیئل میکغواں نے یہ کارروائی انتقامی بنیاد پر طاقت کے زعم میں کی ہے۔ دوسرے وہ چاہتے ہیں کہ اپنے ملکوں کے لیے شام کے صدر بشارالاسد کو بلا بنا کر پیش کریں۔ تاکہ اگر وہ تھوڑی سی بھی پس و پیش کریں تو ایک بار پھر، روس کی تمام تر تشویش کے باوجود، میزائل برسا دیے جائیں اور کہہ دیا جائے کہ مذاکرات کا وقت گذر چکا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“