انڈیا میں بھائی بہنوں کے ساتھ پروان چڑھنے کے بجائے ، قسم قسم کے جانور میرے ساتھی تھے۔ان میں ایک بندر، ایک کچھوا، ایک سانپ اور عظیم بھارتی ہورن بل شامل تھے۔گھر پر اتنے جانور جمع کرنے کے ذمہ دار میرے نانا جان تھے۔کیوں کہ یہ ان کا اپنا گھر تھا ، لہذا خاندان کے دیگر افراد اتنے انواع و اقسام کے جانور پالنے پر اعتراض نہیں کر سکتے تھے۔ گو ان میں سے چند صدائے احتجاج ضرور بلند کرتے۔ کیوں کہ گھر میں زیادہ تر خواتین ہی ہوتیں، میری نانی، مہمان خالائیںاور کبھی کبھار کوئی سسرالی عزیز ( میرے والدین ان دنوں برما میں تھے)۔، تو انہیں پرسکون رکھنے کے لیے مجھے اور دادا کو نت نئے طریقے استعمال کرنے پڑتے۔نانا اور میں پالتو جانوروں کی نسبت مکمل اتفاق رائے رکھتے تھے۔ جب بھی نانی کو خیال آتا کہ اب کسی پالتو سے علیحدگی کا وقت آگیا ہے، مثلا کوئی پالتو سفید چوہا یا گلہری، تو میں انہیں کٹھل کے درخت میں موجود ایک سوراخ میں چھپا دیتا۔ لیکن میری خالاؤں کے مقابلے میں نانی نے پھر بھی اس مشغلے سے مفاہمت کرلی تھی، بلکہ اکثر پالتو جانوروں سے ان کا رویہ دوستانہ ہی رہتا۔
میرے نانا کا گھر اور ان کا یہ چڑیا گھر ڈہرہ میں تھا اور مجھے یاد ہے کہ میں تانگے میں بیٹھ کر وہاں جایا کرتا۔ یہ ابھی کوئی بیس سال پہلے ہی کی تو بات ہے، تو ان دنوں کاریں تو ہوا کرتی تھیں۔ لیکن ان اترائیوں پر تانگہ بھی اتنا ہی مستعد اور سبک تھا، اور پھر پتلے سے دریائے تونس کو عبور کرنے میں تو زیادہ قابل بھروسہ بھی۔ بارشوں کے زمانے میں جب دریا زیادہ منہ زور اور گہرا ہوجاتا، تو پھر سوائے رسی کے پلُ کے اسے عبور کرنا ناممکن ہوجاتا۔ لیکن خشک موسموں میں گھوڑا پانی کے چھینٹے اڑاتااور پہیے شفاف پہاڑی پانی کو چیرتے گزر جاتے جاتے۔ اگر گھوڑے کو دریا عبور کرنے میں دشواری ہوتی، تو ہم اپنے جوتے اتار دیتے، اسکرٹ کا دامن یا پتلون کے پائنچے موڑ لیتے اور باقی سفر پیدل طے ہوجاتا۔
اس صدی کے اوائل میں جب ناناا پہلی بار ڈہرہ ٹھہرنے گئے تھے تو اس زمانے میں محض ڈاک کے کوچ سے ہی وہاں پہنچا جاسکتا تھا۔ وہ بتاتے تھے کہ ڈاک گاڑی کے گھوڑے بہت منہ زور ہوتے تھے، ہمیشہ پلٹ کر مسافروں کے ساتھ گاڑی میں ہی بیٹھ جانے میں کوشاں رہتے۔وہ تو جب کوچوان آزادانہ چابک چلاتااور گھوڑے کی تین چار پشتوں کو لعن طعن کرتا تب وہ کہیں شرمندہ ہوکر قدم بڑھانے پر آمادہ ہوتے۔ اور ایک مرتبہ چل پڑتے تو انہیں روکنا دشوار ہوتا۔ پھر تو بس پہلی منزل تک ایک دوڑ ہوتی جہاں پہنچ کر کوچوان بگل بجاتا اور تازہ دم گھوڑا تبدیل کیا جاتا۔۔
اس سفر میں ایک مقام ایسا بھی تھا کہ جہاں ڈھول بجائے جاتے، اور اگر رات ہوتی تو جنگلی ہاتھیوں کو دور رکھنے کیے لیے مشعلیں روشن کی جاتیں۔ ہاتھی اس بے تکے کارواں کی مداخلت پر اپنی برہمی کا اظہار کرنے پر آمادہ ہوتے تو گھوڑوں کے اوسان خطا ہونے لگتے تھے۔
نانا تیار ہوکر باہر جانا پسند نہیں کرتے تھے، بلکہ وہ بخوشی سب کو خریداری کرنے یا سینیما دیکھنے بھیج دیتے تاکہ وہ خود بلا مداخلت اپنے پالتو جانوروں کی دیکھ بھال کرسکیں، اور اپنے باغ میں تنہا وقت گزار سکیں۔ڈہرہ کے چھوٹے سے سینیما گھر میں ہیرالڈ لائڈاور ایڈی کینٹر اس زمانے میں مقبول ترین تھے۔بہت سے جانوروں کو خوراک فراہم کرنی ہوتی تھی۔ کسی زمانے میں ان میں گریٹ ڈین کی ایک جوڑی بھی شامل تھی۔ یہ اتنے خوش خوراک تھے کہ مجبورا” ہمیں انہیں ایک زیادہ متمول خاندان کو دینا پڑا۔ یہ گریٹ ڈین بہت نرم طبیعت کے جانور تھے۔ اکثر میں ان میں سے ایک کی پشت پر سوار ہوکر باغ کا چکر لگاتا۔ اپنے حجم کے باوجود وہ بہت متوازن اور باوقار تھے، کبھی لوگوں یا کرسیوں سے ٹکرا کر انہیں بے وزن نہیں کرتے۔ ٹوٹو جیسا چھوٹا بندر بھی ان سے زیادہ نقصان پہنچاتا تھا۔
نانا نے ٹوٹو کو ایک تانگے والے سے پانچ روپے میں خریدا تھا۔ تانگے والا اس سرخ بندر کو اس کے کھانے کے برتن سے باندھے رکھتا۔ ٹوٹو وہاں بہت مضحکہ خیز لگتا، جیسے وہ خود اپنے وجود پر شرمندہ ہو۔ نانا نے فورا” اسے خرید کر اپنے چڑیا گھر میں شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
ٹوٹو واقعی ایک خوبصورت چھوٹا سا بندر تھا۔ اس کی گہری بھنوئوں کے سائے میں اس کی آنکھوں میں ہمیشہ شرارت رقصاں رہتی۔ وہ اپنے موتی ایسے سفید دانت ہمیشہ ایسے نکوسے رہتا جس سے بوڑھی اینگلو انڈین عورتوں کی جان نکلتی۔اس کے ہاتھ طالولہ بینک ہیڈ (نانا کی اکلوتی پسندیدہ اداکارہ) کی مانند نرم و نازک تو نہیں تھے بلکہ ایسے جھریوں بھرے اور سوکھے ہوئے تھے جیسے سالوں انہیں دھوپ میں مصالحہ لگا کر اچار کے لیے رکھا گیا ہو۔۔ لیکن اس کی انگلیاں پھرتیلی اور بے قرار تھیں۔ اور اس کی دم، وہ اس کی خوبصورتی میں تو اضافہ کرتی ہی، نانا ہمیشہ کہتے تھے کہ دم کسی کی بھی خوبصورتی میں اضافہ کرسکتی ہے، وہ اکثر ایک تیسرے ہاتھ کے فرائض بھی انجام دیتی۔وہ اس کے بل پر شاخ سے لٹک جایا کرتا۔کوئی اشتہا انگیز غذا جو اس کے ہاتھوں کی پہنچ سے دور ہو، دم کی دسترس سے باہر نہ ہوتی۔
رشتہ داروں کی چیخ و پکار کی وجہ سے نانا جب بھی کوئی جانور یا پرندہ گھر لاتے تو نانی ہمیشہ معترض ہوتیں۔۔ لہذا شروع میں کافی عرصے تک ٹوٹو کی موجودگی کو خفیہ رکھنے کے لیے ہم نے اسے میرے کمرے کی ایک الماری میں چھپا دیا۔ لیکن چند ہی گھنٹوں میں اس نے نانی کے دیدہ زیب وال پیپر اور میرے اسکول کے بلیزر کے بخیے ادھیڑ دیے۔ اب اسے ایک دو دن کے لیے اصطبل منتقل کردیا گیا۔ نانا کو اپنی ریلوے پنشن وصول کرنے سہارنپور جانا تھاتو ٹوٹو کو مزید مشکلات سے بچانے کے لیے انہوں نے اسے ساتھ لے جانے کا فیصلہ کیا۔
بد قسمتی سے میں اس سفر میں نانا کے ساتھ نہ جاسکا۔ مگر واپس آکر انہوں نے مجھے اس سفر کی روداد سنائی۔
ٹوٹو کے لیے ایک کالا تھیلا بنایا گیا تھا۔ جب اس تھیلے کے منہ کو ڈوری سے باندھا گیا تو اندر سے باہر آنے کا رستہ مفقود ہو گیا۔تھیلے کا کینوس اتنا مضبوط تھا کہ ٹوٹو اسے چبا کر باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ باہر نکلنے کی اس کی ابتدائی کوششوں سے وہ تھیلا فرش پر لڑھکنے لگتا، یا کبھی فضا میں اچھل جاتا۔ اس مظاہرے سے لطف اندوز ہونے کے لیے ڈہرہ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر تماشائیوں کا مجمع اکٹھا ہو گیا۔
سہارنپور تک ٹوٹو تھیلے میں ہی رہا۔لیکن جب دروازے پر نانا اپنا ٹکٹ دکھانے لگے تو ٹوٹو نے کسی طرح تھیلے سے اپنے ہاتھ باہر نکال لیے۔ اس نے گرہ کھولی اور اچانک ٹوٹو کا سر تھیلے سے باہر نکل آیا۔
وہ غریب ٹکٹ کلکٹر واضح طور پر گڑبڑا گیا۔ لیکن پھر بھی حاضر دماغی سے اس نے نانا کی طبع خاطر پر گراں گزرنے والا سوال کیا “کہ اگر آپ کے ساتھ یہ کتا بھی ہے تو آپ کو اس کا ٹکٹ بھی لینا پڑے گا!”
یہ دکھانے کے لیے کہ تھیلے میں کوئی کتا بلکہ کسی بھی قسم کا کوئی چوپایہ نہیں، نانا نے ٹوٹو کو مکمل تھیلے سے باہر نکال لیا۔ اب ٹکٹ کلکٹر کی ناراضگی اور بڑھ گئی۔ وہ ٹوٹو کو کتے ہی کی نسل میں شمار کر کے تین روپے اور چار آنے کا طلبگار ہوا۔ اس پر نانا نے جل بھن کر اپنی جیب سے ایک کچھوا نکالا اور بولے “کیوں کہ تم ہر جانور پر ٹکٹ لگانے پر تلے ہوئے ہو، تو اس کا کتنا کرایہ ادا کرنا ہوگا؟”
ٹکٹ کلکٹر ایک دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ پھر ذرا احتیاط سے دوبارہ آگے بڑھا۔ اس نے بہت عالمانہ انداز میں کچھوے کا بہت قریب سے معائنہ کیا:
“اس کے لیے ٹکٹ ضروری نہیں جناب” بالآخر وہ بولا، “کیڑوں مکوڑوں پر کوئی ٹکٹ نہیں ہوتا”۔
جب ہمیں یہ معلوم ہوا کہ فارغ اوقات میں ٹوٹو کا مشغلہ چوہوں کا شکار ہے تو ہم نانی کو اس بات پر رضامند کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ ٹوٹو کو رکھ لیا جائے۔ کسی خطرے سے بے خبر چوہے رات کو اپنے بل سے نکلتے کہ شاید گھوڑوں سے کچھ دانہ بچ گیا ہو۔ لیکن وہاں تک پہنچنے کے لیے انہیں ٹوٹو کے حصہ اصطبل میں موت کی وادی سے گزرنا پڑتا۔ ٹوٹو اس بات سے باخبر تھا لیکن بظاہر وہ سوتا بن جاتا، گو اس کی ایک آنکھ کھلی رہتی۔ چوہا دانے کی سمت دوڑتا لیکن ناکام رہتا۔وہ چوہے کو کسی بلی کی سی پھرتی سے اپنے ہاتھوں میں جکڑ لیتا۔ نانی نے اس کی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی خاطر ایک رات اسے اناج کے گودام میں باندھ دیا۔ جہاں گوریلا صفت چوہوں کے ایک گروہ نے ہنگامہ کیا ہوا تھا۔
ٹوٹو کو اصطبل میں اس کے آرامدہ پیال سے اٹھا کر گودام میں مزیدار جام اور دوسری لذیذ غذائی اشیا کے شیلف کے نیچے باندھ دیاگیا۔ٹوٹو کے لیے یہ ایک طویل ، تکلیف دہ رات رہی ہوگی۔ اس نے یقینا سوچا ہوگا کہ اسے کن گناہوں کی سزا دی گئی ہے۔ چوہے آزادنہ پھرتے رہے۔ وہ سوپ کے ایک بڑے پیالے میں سمٹا، نیند کی تمنا کرتا رہا۔صبح ہوتے ہی چوہے اپنے بلوں میں گھس گئے۔ ٹوٹو اپنا جسم کھجاتا بیدار ہوا اور سوپ کے پیالے سے باہر نکلا، اور کچھ کھانے کے لیے تلاش کرنے لگا۔ جام کے ڈبوں نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی، جلد ہی وہ ان کا ڈھکنا کھولنے میں بھی کامیاب ہوگیا۔نانی کے دل پسند جام، ان میں سے زیادہ تر انہوں نے خود تیار کیے تھے، کتنی مختصر مدت میں غائب ہوگئے۔ جب انہوں نے یہ دیکھنے کے لیے کہ ٹوٹو نے کتنے چوہے ہلاک کیے ہیں گودام کا دروازہ کھولا تو میں وہیں موجود تھا۔ بارش کی دیوی اندرا بھی کسی طوفان کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے اتنی خوفناک نہیں لگتی ہوگی۔ جو مغلظات نانی نے ٹوٹو کی شان میں بیان کیں، وہ کسی ایسے فرد کے منہ سے حیرت انگیز لگ رہی تھیں جو بہت شریفانہ وکٹورین ماحول میں پروان چڑھا ہو۔
بعد میں یہ بندر نانی کی نگاہوں میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ سردیوں کی خنک شاموں میں اس کے لیے سب سے بہترین تحفہ گرم پانی کی وہ بالٹی ہوتی جونانی اسے نہانے کے لیے فراہم کرتیں۔ وہ خود ہی نہاتا تھا۔ پہلے اپنی انگلیوں سے پانی کا درجہ حرارت معلوم کرتا۔ پھر وہ ایک شان سے پہلے ایک قدم اور پھر دوسرا قدم نہانے کے برتن میں اتارتا، جیسا کہ وہ مجھے کرتا دیکھ چکا تھا۔ یہاں تک کہ وہ مکمل اس میں بیٹھ جاتا۔ ایک دفعہ آرام سے بیٹھنے کے بعد وہ اپنے ہاتھ یا پائوں سے صابن پکڑ کر اپنے جسم پر ملتا۔ جب پانی ٹھنڈا ہونے لگتا تو وہ بالٹی سے نکل کر آگ کی جانب بھاگتا اور وہاں اپنا جسم سکھاتا۔ اگر اس تمام ڈرامے میں کوئی ہنس پڑتا تو وہ بے حد ناراض ہوتااور غسل کی تکمیل سے نکار کردیتا۔
ایک دفعہ تو ٹوٹو نے اپنے آپ کو ابال کر مارلینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔
باورچی خانے کی بڑی پتیلی چائے بنانے کے لیے چولہے پر چڑھی ہوئی تھی۔ ٹوٹو نے چند منٹ کے لیے اپنے آپ کو اس کے ساتھ تنہا پایاتو اس نے ڈھکنا کھول کر تحقیق کرنا کا فیصلہ کیا۔پانی کو گرم دیکھ کر اسے فورا نہانے کی سوجھی۔ وہ کیتلی میں اس طرح بیٹھ گیا کہ صرف اس کا سر باہر نکلا ہوا تھا۔ کچھ دیر تو اسے بہت مزہ آیا لیکن پھر پانی زیادہ گرم ہونے لگا۔ ٹوٹو نے اپنے آپ کو بلند کیا لیکن باہر کی سردی محسوس کرکے دوبارہ بیٹھ گیا۔ کچھ دیر وہ ایسے ہی اٹھتا اور بیٹھتا رہا، لیکن باہر کی ٹھنڈی ہوا میں اسے باہر نکلنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اگر نانی وقت پر نہ پہنچ جاتیں تو اس روز وہ زندہ ہی جل کر مر جاتا۔
اگر دماغ کا کوئی حصہ شرارت کے لیے مخصوص ہے، تو یقینا ٹوٹو کے دماغ کا وہ حصہ بہت بڑا ہوگا۔ وہ ہمیشہ چیزوں کے چیتھڑے کرنے میں مصروف رہتا۔ جب بھی میری کوئی خالہ اس کے قریب سے گزرتیں تو وہ پوری کوشش کرتا کہ ان کا لباس پکڑ کر اس میں سوراخ کردے۔ میری بہت سی خالائیں نانا، نانی کے پاس ٹھہرنے آتیں۔ لیکن ٹوٹو کی موجودگی میں وہ ایک دو دن سے زیادہ نہیں ٹھہرتیں۔ یہ بات نانا کے لیے تو اطمینان کا سبب بنتی، لیکن نانی اس سے بہت ناراض ہوتیں۔
نانی کے ہاتھوں اکثر پٹنے کے باوجودٹوٹونانی سے بہت مانوس ہوگیا۔ جب بھی وہ اسے موقع دیتیں تو وہ خاموشی سے ان کی گود میں لیٹ جاتا، جب کہ دوسروں کے تو وہ سر پر سوار رہتا۔
ٹوٹو ہمارے ساتھ ایک سال سے زیادہ رہا۔ لیکن اگلی سردیوں میں بہت زیادہ نہانے کی وجہ سے اسے نمونیہ ہوگیا۔ نانی نے اسے فلالین میں لپیٹ دیا ،نانا نے اسے مرغی کی یخنی اور آئرش اسٹیو کھلایا، مگر ٹوٹو جانبر نہ ہوسکا۔ اسے باغ میں اس کے پسندیدہ آم کے درخت کے نیچے دفن کردیا گیا۔
شاید اچھا ہی ہوا کہ جب نانا سانپ گھر لائے تو ٹوٹو زندہ نہیں رہا تھا، ورنہ اس کی موت شاید اتنی روایتی نہ ہوتی۔چھوٹے بندر بڑے سانپوں کی پسندیدہ غذا ہیں۔
چڑیوں اور جانوروں تک تو نانی برداشت کرلیتیں، لیکن رینگنے والے جانوروں پر انہوں نے ممانعت کی حد لگا دی تھی۔ وہ کہتی تھیں انہیں دیکھ کر ان کا خون خشک ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک خوبصورت، خوش مزاج گرگٹ بھی واپس کرنا پڑا۔ نانا کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ انہیں اتنا بڑا سانپ رکھنے کی اجازت نہیں ملے گی۔ یہ کوئی چار فٹ لمبا تھا، جب کہ ابھی تو اس کا لڑکپن ہی تھا۔ نانا نے اسے چھ روپے میں ایک سپیرے سے خریدا تھا۔ اسے کندھے کے گرد لپیٹ کر وہ گھر کی جانب چل دیے تو سارا بازار ششدر رہ گیا۔ اس سانپ کو نانا کی گردن کے گرد لپٹا دیکھ کر نانی کی تو جان ہی نکل گئی تھی۔
“تمھارا دم گھٹ جائے گا”، وہ چلائیں، “دفع کرو اسے فورا”
“کیا حماقت ہے؟ “نانا بولے، “ابھی بچہ ہے جلد ہی ہم لوگوں سے مانوس ہوجائے گا”
“یقیناـایسا ہی ہوگا”، نانی بولیں،” لیکن میرا اس سے مانوس ہونے کا کوئی ارادہ نہیں۔ تمھیں معلوم ہے کہ تمھاری کزن میبل کل ہمارے ساتھ ٹھہرنے آرہی ہے۔ اگر اسے معلوم ہوا کہ گھر میں سانپ ہے تو وہ چند منٹ بھی نہیں ٹھہرے گی”۔
“اوہ، پھر تو ہمیں اسے آتے ہی سانپ کا دیدار کرا دینا چاہیے”،نانا بولے۔ میری طرح وہ بھی بدمزاج میبل آنٹی کی آمد سے زیادہ خوش نہیں تھے
“تم ایسا کچھ نہیں کرو گے”،نانی نے تنبیہ کی
“بھئی اب میں اسے باغ میں آزاد تو نہیں چھوڑ سکتا”، نانا بہت معصومیت سے بولے۔ “اگر وہ مرغی خانے میں گھس گیا تو ہمارا کیا ہوگا؟”
“افوہ، تم کس قدر تکلیف دہ ہو”، نانی بولیں۔” اسے غسل خانے میں بند کردو۔ بازار جاکر اس شخص کو تلاش کرو جس سے اسے خریدا تھا اور اس سے کہو واپس لے جائے”۔
میرے حیران وجود کی موجودگی میںنانا سانپ کو غسل خانے لے گئے، یہاں انہوں نے اسے ایک گہرے ٹب میں چھوڑ دیا۔ پھر وہ جلدی سے بازار اس سپیرے کی تلاش میں نکل گئے جس سے سانپ خریدا تھا، جب کہ نانی بے چینی سے برآمدے میں ٹہلنے لگیں۔جب وہ مایوسی چہرے پر لٹکائے واپس لوٹے تو ہم سمجھ گئے کہ وہ انہیں نہیں ملا۔
“بہتر یہی ہے کہ اب تم خود اسے لے کر جائو”، نانی کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی، “اور جنگل کے اس پار دریا میں چھوڑ آئو”
“ٹھیک ہے، لیکن پہلے اسے کچھ کھلا دوں”، نانا بولے اور ایک پر نچی مرغی لے کر غسل خانے کی جانب بڑھے۔ ان کے پیچھے ایک قطار میں، میں نانی، ایک متجسس باورچی اور مالی۔
نانا غسل خانے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئے۔ میں ان کی ٹانگوں کے درمیان سے جھانکنے لگا، جب کہ باقی لوگ خاصے پیچھے منتظر تھے۔ ہمیں سانپ کہیں نظر نہ آیا
“وہ جاچکا ہے”، نانا نے اعلان کیا۔” وہ یقیناـبھوکا رہا ہوگا”
“مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ بہت زیادہ بھوکا بھی نہ ہو”۔
“ہم نے یہ کھڑکی کھلی ہی چھوڑ دی تھی”، نانا شرمندگی سے بولے
بہت باریک بینی سے سارے گھر، باورچی خانے، باغ، اصطبل اور مرغی خانے میں تلاش کرنے کے باوجودسانپ کا کہیں سراغ نہ ملا۔
“اب تک تو وہ بہت دور جاچکا ہوگا”، نانا نے یقین دہانی کرائی
“میری بھی یہی دعا ہے”، نانی بے چینی و اضطراب کی کسی درمیانی کیفیت میں بولیں۔
آنٹی میبل دوسرے روز اپنے تین ہفتوں کے دورے پر پہنچ گئیں۔ اگلے چند روز میں اور نانا اسی خوف میں مبتلا رہے کہ کہیں وہ سانپ اچانک دوبارہ نہ نکل آئے۔ لیکن جب وہ تیسرے دن بھی نمودار نہ ہوا تو ہمیں اطمینان ہوگیا کہ وہ ہمیشہ کے لیے جاچکا ہے۔
لیکن پھر شام سے ذرا پہلے باغ سے ابھرتی ایک چیخ نے ہمیں حیران کردیا۔ ایک لمحے میں ہی آنٹی میبل برآمدے کی سیڑھیاں پھلانگتی آپہنچیں۔ ان کا چہرا ایسا سفید تھا جیسے انہوں نے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔
“وہاں امرود کے درخت میں”، ان کی سانس پھولی ہوئی تھی۔ “میں ایک امرود توڑ رہی تھی، جب میں نے اسے گھورتے دیکھا۔ اف اس کی آنکھیں، لگتا تھا مجھے سالم نگل لے گا”۔
“ذرا سکون سے میری جان”، نانی نے ان پر یوڈی کلون چھڑکتے ہوئے کہا۔” اب سکون سے ہمیں بتائو کہ تم نے کیا دیکھا تھا”۔
“ایک سانپ”، آنٹی میبل سسکنے لگیں۔ “ایک بہت بڑااژدھا، کم از کم بیس فٹ لمبا تو رہا ہوگا، وہاں امرود کے درخت پر، اس کی آنکھیں اتنی دہشتناک تھیں۔ اس نے میری طرف اتنی عجیب نظروں سے دیکھا”۔۔۔۔ـ
نانا اور نانی نے معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ نانا بولے” میں باہر جاکر اسے مار دیتا ہوں”۔ کچھ جھینپتے ہوئے انہوں نے ایک چھتری اٹھائی اور جلدی سے باغ میں نکل گئے۔ لیکن جب وہ امرود کے درخت تک پہنچے تو وہ جا چکا تھا۔
“لگتا ہے میبل آنٹی نے اسے ڈرا کے بھگا دیا”، میں نے کہا
“شش”، نانا بولے۔” تمھاری آنٹی کے متعلق ہمیں ایسی گفتگو نہیں کرنی چاہیے”، لیکن ان کی آنکھوں میں مسکراہٹ جھانک رہی تھی۔
اس واقع کے بعد سانپ وقتاـفوقتاـ نمودار ہوتا رہا، بالکل غیر متوقع جگہوں پر۔ آنٹی میبل اس وقت دوبارہ ہیجان کا شکار ہوگئیںجب انہوں نے سانپ کو کشن کے نیچے سے گھورتے دیکھا۔ انہوں نے اپنا سامان باندھ لیا، اور نانی نے ہمیں اس کی تلاش میں زیادہ پرجوش ہونے پر مجبور کردیا۔
اگلی صبح میں نے سانپ کو سنگھار دان پر بیٹھے آئنے میں اپنا عکس دیکھتے پایا۔میں نانا کو بلانے گیا، مگر جب تک ہم پہنچتے ، وہ غائب ہوچکا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ دوبارہ باغ میں نظر آیا۔اور پھر دوبارہ سنگھار میز پر چڑھ کر آئنے میں اپنا روپ دیکھ کر شرمانے لگا۔ ظاہر ہے کہ وہ خود اپنے عکس کے سحر میں گرفتار ہوچکا تھا۔نانا کا خیال تھا کہ شاید ہر طرف سے اتنی توجہ ملنے پر وہ ذرا مغرور ہوگیا ہے۔
“وہ آنٹی میبل کی خاطر ذرا بن سنور رہا ہے”، یہ فقرہ کہتے ہی میں شرمندہ ہوگیاکیوں کہ یہ نانی کے کانوں میں پڑ گیا تھا، اور ان کے ہاتھ کی چھاپ میں نے اپنے سر کی پشت پر فوراـمحسوس کی۔
“چلو اس بہانے ہمیں اس کی ایک کمزوری تو معلوم ہوگئی”، نانا بولے
“کیا تمھیں بھی بہت مذاق سوجھ رہا ہے؟ “نانی کا لہجہ بہت خطرناک تھا
“میرا مطلب تو صرف یہ ہے کہ وہ بہت اترا رہا ہے”، نانا جلدی سے بولے۔” اب اسے پکڑنا شاید آسان ہوگا”۔
وہ ایک بڑا پنجرہ بنانے میں لگ گئے جس کے ایک کونے پر ایک آئنہ نصب تھا۔ اس پنجرے میں انہوں نے ایک مرغی اور کچھ دوسری مزیدار غذا رکھ دی، پنجرے کے دروازے پر ایک کھٹکے دار پھندے کا دروازہ نصب کردیا۔ جب تک ہم یہ پھندہ تیار کرتے میبل آنٹی جاچکی تھیں۔ لیکن ہمیں یہ کام مکمل تو کرنا ہی تھا، کیوں کہ سانپ کو اس طرح گھر میں پھرتا تو نہیں چھوڑ سکتے تھے۔
چند دنوں تک کچھ نہ ہوا۔اور پھر ایک صبح جب میں اسکول جا رہا تھا تو میں نے سانپ کو پنجرے میں کنڈلی مارے دیکھا۔ اپنے لیے رکھی تمام غذا وہ ختم کر چکا تھا اور اب آئنے کے سامنے محو استراحت تھا۔ اس کے چہرے پر یقینا مسکراہٹ نما کوئی چیز سجی ہوئی تھی، اگر آپ سانپ کی مسکراہٹ تصور کرسکتے ہیں تو۔۔میں نے آہستگی سے پھندے کا دروازہ بند کیا، لیکن سانپ نے اسے بالکل نظر انداز کردیا۔وہ اپنے خوبصورت عکس کے عشق میں گرفتار تھا۔ نانا اور مالی نے یہ پنجرہ تانگے میں رکھا اور دریا کے اس پار لے گئے، اور وہاں اس کا دروازہ کھلا چھوڑ کر اسے وہیں رکھ آئے
“اس نے باہر نکلنے کی کوئی کوشش نہیں کی”، نانا نے بعد میں بتایا۔ “آئنہ ہٹادینے پر میری طبیعت راضی نہیں ہوئی۔ میں نے پہلی بار کسی سانپ کو گرفتار محبت دیکھا تھا”۔
اگر مینڈک کیچڑ میں اپنا پسندیدہ راگ الاپ چکے ہیں۔۔۔ورجل کا یہ جملہ نانا کو بہت پسند تھا۔ جب بھی وہ گھر کے عقب میں بارش کے تالاب کا دورہ کرتے تو اسے ضرور دہراتے۔ وہاں خاصی تعداد میں مٹی، مینڈک اور کبھی کبھار بھینس بھی پائے جاتے۔ ایک دفعہ نانا کئی مینڈک بھی گھر کے اندر لے آئے تھے۔وہ مینڈک بھی ایک کھڑکی کی منڈیر پر شیشے کی بوتل میں رکھ کر بھول گئے۔دوسری صبح کوئی چار بجے پورا گھر ایک زوردار اور خوفزدہ کرنے والی آواز سے بیدار ہوگیا۔ نانی اور کئی گھبرائے ہوئے عزیز اپنے شب خوابی کے لباس میں ہی بر آمدے میں جمع ہوگئے۔ان کی گھبراہٹ اس وقت غصے میں بدل گئی جب یہ انکشاف ہوا کہ یہ آواز ناناکے مینڈکوں کی رہین منت ہے۔ صبح نمودار ہوتے دیکھ کر تمام مینڈکوں نے ایک ساتھ ٹرانا شروع کردیا تھا۔
نانی ان مینڈکوں کو بوتل سمیت کھڑکی سے باہر پھینک دینا چاہتی تھیں۔ لیکن نانا نے کہا کہ اگر وہ بوتل کو خوب اچھی طرح ہلائیں گے تو مینڈک خاموش ہوجائیں گے۔ باقی رات وہ جاگتے رہے تاکہ جب بھی مینڈک ٹرانے کا ارادہ کریں تو وہ بوتل کو ہلا سکیں۔ سب متاثرہ افراد کی خوش قسمتی تھی کہ اگلے روز ایک نوکرنے یہ دریافت کرنے کے لیے کہ بوتل کے اندر کیا ہے، اس کا ڈھکنا کھول دیا۔ اندر بہت سے بڑے مینڈکوں کو موجود دیکھ کروہ اتنا حیران ہوا کہ ڈھکنا بند کیے بغیر ہی بھاگ گیا۔ مینڈک چھلانگ لگا کر باہر نکل آئے اور انہوں نے غالبا تالاب کا راستہ ڈھونڈ نکالا۔ میری عادت بن گئی کہ میں تالاب کی گہرائی اور اس کے کناروں کا جائزہ لینے کی خاطر اکثر اکیلا اس کی سیر کیا کرتا۔ جوتے اتار کر اس کے گدلے پانی میں گٹھنوں تک اتر جایا کرتاتاکہ پانی کی سطح پر تیرتے کنول توڑ سکوں۔
ایک روز میں نے تالاب کو بھینسوں کی آماجگاہ پایا۔ ان کا رکھوالا مجھ سے عمر میں ذرا ہی بڑا رہاہوگا، وہ ان کے ساتھ تیر رہا تھا۔بجائے اس کے کہ وہ کنارے پر باہر نکل آتا، وہ کسی بھینس کی پشت پر سوار ہوجاتا۔وہ اپنا گیلا بدن جانور کی چمکدار جلد پر پھیلا دیتا، اور کوئی گیت الاپنا شروع کردیتا۔
جب اس نے مجھے تالاب کے کنارے سے اپنی سمت دیکھتے پایاتو وہ مسکرادیا۔اس کے سفید دانت، اس کے سیاہ ،سورج سے جلے چہرے سے باہر جھانکنے لگے۔اس نے مجھے بھی تیراکی کی دعوت دی۔جب میں نے اسے بتایا کہ مجھے تیرنا نہیں آتا تو اس نے مجھے سکھانے کا وعدہ کیا۔ میں جھجک رہا تھا، مجھے معلوم تھا کہ گائوں کے لڑکوں سے میل ملاپ کے معاملے میں نانی سخت فرسودہ خیالات رکھتی ہیں۔ لیکن پھر یہ سوچ کر کہ نانا جو کبھی کبھار چھپ کر حقہ بھی پی لیا کرتے تھے، کسی بھی قسم کے نتائج سے مجھے بچا لیں گے، میں نے اس لڑکے کی دعوت قبول کرنے کا جرات آمیز قدم اٹھالیا۔ لیکن ایک بار فیصلہ کرلینے کے بعد یہ ایسا خاص جرات آمیز قدم لگا بھی نہیں۔
بھینس کی پشت سے چھلانگ لگا کر وہ میری سمت تیرنے لگا۔ میں جو اپنے کپڑے اتار چکا تھااس کی ہدایات پر عمل کرنے لگا، یہاں تک کہ میں کنول کے پھولوں کے درمیان تیرنے لگا۔اس کا نام رامو تھا اور اس نے مجھے ہر دوپہر تیراکی سکھانے کا وعدہ کیا۔ تو یہ اس دوپہر اور پھر گرمیوں کی ہر دوپہر کہ جب سب سو رہے ہوتے تھے ہم عموما ملتے۔ جلد ہی میں بھی تیر کر کسی مطمئن بھینس کی پیٹھ تک جانے لگا اور اس پر سوار رامو سے ملنے لگا۔ وہ عظیم الجثہ جانور کسی گدلے سمندر کے وسط میں موجود جزیرے کی مانند نظر آرہا تھا۔
اکثر ہم بھینسوں کی پشت پر سوار ہوکر انہیں دوڑانے کی کوشش کرتے۔ لیکن یہ فطری طور پر تساہل پسند جانور ہیں اور ایک آرامدہ مقام صرف اس لیے چھوڑتے کہ کوئی دوسرا آرامدہ مقام تلاش کرسکیں۔ یا اگر وہ بھینسیں بالکل اس کھیل کے موڈ میں نہیں ہوتیں، تو کروٹ بدل لیتیں، اور اپنے ساتھ ہمیں بھی تالاب کی مٹی اور کائی میں لپیٹ دیتیں۔ سبز و خاکی رنگت میں لپٹا ، میں غسل خانے کے راستے گھر میں داخل ہوتا، اور نلکے کے نیچے کپڑے بدلتا۔
ایک دن مجھے اور رامو کو کیچڑ میں ایک چھوٹا کچھوا ملا، ایک سوراخ پر بیٹھا جس میں اس نے کئی انڈے دیے ہوئے تھے۔ رامو نے وہ انڈے اپنے عشائیے کے لیے رکھ لیے، جب کہ میں نے وہ کچھوا اپنے نانا کو پیش کیا۔ کچھوے ان کی کمزوری تھے۔ وہ اسے پاکر بہت خوش ہوئے، اور فوراـاسے اپنے چڑیا گھر میں شامل کرلیا۔ پانی سے بھرا ایک ٹب جس کے وسط میں پتھر کسی جزیرے کی مانند جمع تھے، تنہا اس کی رہائش کے لیے منتخب ہوا۔ لیکن کچھوا ہمیشہ اس ٹب سے باہر نکل کر گھر بھر میں مٹر گشت کیا کرتا۔ ہمیں جب محسوس ہوا کہ وہ اپنا خیال خود رکھ سکتا ہے تو ہم نے بھی عدم مداخلت پر کمر کس لی۔اگر کوئی کتا اس سے زیادہ چھیڑ خانی کرتا، تو وہ اپنا سر اور پائوں اپنے خول میں سمیٹ لیٹا، اور ان کے جارحانہ کھیل کو نظر انداز کردیتا۔
رامو کا تعلق زر خرید مزدوروں کے خاندان سے تھا، اور اس نے کبھی اسکول کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی۔ لیکن اسے بہت سی لوک کہانیاں یاد تھیں ، اور جانوروں ، پرندوں کے متعلق بھی خاصی معلومات رکھتا تھا۔
ـ”بہت سے پرندے مقدس ہوتے ہیں”، ایک نیل کنٹھ کو جھپٹا مار کے پیپل کے درخت سے ٹڈا لپکتے دیکھ کر رامو بولا۔ اس نے مجھے بتایا کہ نیل کنٹھ اور دیوتا شیوا دونوں کو نیل کنٹھ کہتے ہیں۔ پرندے کی مانند شیوا جی کی گردن کا رنگ بھی نیلا تھا۔کیوں کہ انسانوں سے محبت میں انہوں نے وہ مہلک زہر پی لیا تھاجو دنیا کے خاتمے کے لیے بنا تھا۔یہ زہر انہوں نے اپنے گلے میں ہی رکھ کر اسے بے اثر کردیا۔
“کوئی گلہری بھی مقدس ہوتی ہے؟ “میں نے ایک گلہری کو پیپل کے درخت سے اتر کر بھاگتے دیکھ کر پوچھا
“ہاں، کرشنا جی کو گلہریوں سے بہت محبت تھی۔وہ انہیں اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر اپنی لمبی انگلیوں سے ان کی پشت سہلاتے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی پشت پر سر سے دم تک چار گہری سیاہ لکیریں کھنچی ہوئی ہیں۔ کرشنا جی بہت سیاہ فام تھے اور یہ لکیریں ان کی انگلیوں کے نشان ہیں”۔
رامو اورنانا ، دونوں کا خیال تھا کہ ہمیں پرندوں اور جانوروں دونوں کے ساتھ زیادہ رحمدلی کا سلوک کرنا چاہیے، اور انہیں اتنی بڑی تعداد میں ہلاک نہیں کرنا چاہیے۔
“یہ بھی ضروری ہے کہ ہم ان کی عزت کریں” نانا بولے۔ “ہمیں ان کے حقوق کا احترام کرنا چاہیے۔ ہر جگہ جانوروں اور پرندوں کے لیے زندگی زیادہ دشوار ہوتی جا رہی ہے، کیوں کہ ہم انہیں اور جنگلات دونوں کو ختم کر رہے ہیں۔ درخت کم ہونے سے وہ مستقل نقل مکانی میں ہی مصروف رہتے ہیں”۔
ڈہرہ کے نزدیک جنگل کے بارے میں تو یہ بالخصوص سچ تھا۔یہاں چیتے، تیتر اور چتکبرے ہرن اب غائب ہورہے تھے۔ رامو اور میں نے گرمیوں کی کئی طویل دوپہریں تالاب کے کنارے اکٹھی گزاریں۔ گو میںنے اسے ڈہرہ دون چھوڑنے کے بعد دوبارہ پھر نہیں دیکھا ، وہ مجھے اب بھی اکثر یاد آتا ہے۔۔ وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا لہذا ہم خط و کتابت سے بھی رابطہ نہ رکھ سکے۔۔ نہ اس کے لوگ ،نہ ہی میرے لوگ، ہماری دوستی سے واقف تھے۔ صرف بھینس اور مینڈک ہی ہمارے اس راز میں شریک تھے۔ انہوں نے ہمیں اپنی دنیا، اس گدلے لیکن آرامدہ تالاب میں قبول کرلیا تھا۔ جب میں نے ڈہرہ چھوڑا تو انہیں اور رامو دونوں کو یقین رہا ہوگا کہ پرندوں کی مانند میں بھی ایک دن ضرور لوٹ آؤں گا۔
Original Title : ALL CREATURES GREAT AND SMALL
Written by:
Ruskin Bond (born on 19 May 1934) is an Indian author of British descent.
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...