روپیہ پیسہ اور انسانیت
انسان ذاتی سطح پر جذبات اور عقل کو برابر اِستعمال کرنے پر قادر ہوتا ہے لیکن ایک عام انسان اپنے معاشرے کا عکاس یا نمائندہ بھی ہوتا ہے۔ یہ معاشرتی عکاسی چاہے اچھی ہو یا بری اس معاشرے کے عظیم لوگوں میں بھی نظر آتی ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ جانوروں کی کھال پر معاشرتی تہذیب کی چھاپ اسے عام جانوروں سے ممتاز کرکے اشرف المخلوقات بناتی ہے۔زمین پر مختلف تہذیبیں پائی جاتی ہیں یہ تہذیبیں بحیثیت انسان انفرادی و مجموعی اپنے معاشرے کے ساتھ باہم تعلق قائم رکھتی ہیں۔یہ باہمی تعلق کئی رشتوں پر استوار ہوتے ہیں بنیادی طور پر روپیہ پیسہ اور انسانی اخلاق میں بندھی ہوتی ہے یہ دولت ہی تو ہے جو انسانی رویوں کو متعین کرتی ہے اس کی تقسیم کاری لوگوں کے سماجی رویوں کے انتخاب کی ضامن بھی ہے کئی تہذیبوں میں یہ مختلف رائج ہوتی ہے
1….پہلی ترجیح روپیہ پیسہ اور دوسری ترجیح انسانیت
2….پہلی ترجیح انسانیت اور دوسری ترجیح روپیہ پیسہ
3….پہلی ترجیح روپیہ پیسہ اور دوسری ترجیح شخصیت پرستی
مال و دولت اور ملکیت سے انسان کو بہت پیار ہے ایک انگریز کا قول ہے کہ اگر انسان کو ریت کا مالک بنا دیا جائے تو کچھ وقت کے بعد اُسے سونا بنادے گا۔ اگر انسان کو سونے کی ملکیت سے ہٹا دیا جائے تو وہ سونے کو ریت بنا دیتا ہے ۔ بارٹر سسٹم سے نقدی اور اب نقدی سے بینک کی جمع پونجی کے ہندسوں تک سفر جارہی ہے۔ کچھ لوگوں کیلیے یہ گنتی کے ہندسے ہوتے ہیں اور کچھ لوگوں کیلیے زندگی موت کا مسئلہ ہوتا ہے کیونکہ اُن لوگوں کا دنیاؤی وسائل پر قبضہ ہے حالانکہ رقم کی گردش کا مقصد انسانیت کی سہولت تھا وہ کچھ لوگوں کی ملکیت بننے اور دنیاؤی وسائل پر قبضہ کرنے کا سبب بن گیا
ہمارے ملک پاکستان میں تیسری طرح کی ترتیب پائی جاتی ہے جو مجموعی طور پر جمود کا شکارہوچکی ہے اور ذاتی طور پر عدم تحفظ کا شکار ہے مندرجہ بالا پہلی اور دوسری ریاستوں میں ترقی کی نوعیت کے لحاظ سے انسان کے حق میں ہیں کچھ کچھ فائدے اور نقصانات دونوں میں برابر کے پائے جاتے ہیں جنکی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ جیسے پہلی دنیا کے لوگ سائنس، ٹیکنالوجی اور مادی دنیا سے فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ دوسری دنیا کے لوگ باہم مادی اشتراکیت سے معاشرے کی تشکیل کرتے ہیں تیسری دنیا کے لوگ پیسے کے پیچھے اندھا دُھند بھاگتے ہیں پر دوسرے کو بے وقوف بنا کر مال و دولت اکٹھی کرتے ہیں اِن کو اندازہ نہیں ہے کہ دولت سے مکان خرید سکتے ہیں پر گھر نہیں۔گھڑی خرید سکتے ہیں پر وقت نہیں۔نرم بستر خرید سکتے ہیں پر نیند نہیں۔ کتابیں خرید سکتے ہیں پر علم نہیں۔ ڈاکٹر کی خدمات لے سکتے ہیں پر صحت نہیں۔عہدہ لے سکتے ہیں پر عزت نہیں۔خون خرید سکتے ہیں پر زندگی نہیں۔پیسہ بہت کچھ ہوتا ہے لیکن سب کچھ نہیں ہوسکتا۔ یہاں کئی درجات اور معیارات کی چیزیں دستیاب ہیں جن میں دودھ، آٹا، چینی، دالیں اور دوسرے معاشرتی انتظامات جیسے قانون نافذ کرنے والے ادارے، تعلیمی ادارے ، سیاسی و عدلیہ بہتری ان سے کوسوں دور ہے یعنی ان لوگوں کی سماجی ذہانت افراتفری کی رغبت رکھتی ہے اور وقت آنے پر اپنا ایمان بیچ دیتے ہیں ایک قسم کا سماجی فتنہ بھی کہہ سکتے ہیں
یہاں اس بات کا تصور کرنا کہ ماحولیاتی اثرات انسانی زندگیوں پر کیسے مرتب ہوتے ہیں جیسے مشینوں کا شور، دھواں، کیمیائی تحاملات، آلودگی وغیرہ جن کی قیمت ماحول میں موجود لوگوں کو ادا کرنی ہوتی ہے لیکن مالیاتی فائدہ مشینوں کے مالکوں کو ہوتا ہے اس میں چاہے پہلی، دوسری یا تیسری دنیاکے لوگ ہوں سب کا ایک ہی ماننا ہے کہ کم سرمایے میں زیادہ منافع کماناہے چاہے اس میں نقصان کسی اپنے کا ہو یا انسانیت کا سب برابر ہیں وقتی فائدہ کیلیے وہ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں رشوت بھی دے دیتے ہیں جہاں سے سماجی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ ملائیت کی پیدائش نے ذات پات کی دین،شہری و دیہی زندگی، عبادتوں میں مصروف بنا کر مفید احمق بنا رہے ہیں ۔ کچھ وقت بعد اسکے نقصانات پوری انسانیت پر اثر انداز ہونگے ایک سماجی تباہی کے دور کی ابتداءکررہے ہیں
ہمیں کسی ہیرو کی تلاش نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس ہیرو کے سارے کام لوگ مل کر ادا کریں تاکہ سب کی شمولیت ممکن رہے ناکہ ایک بندے پر سارا بجھ ڈالا جائے۔ جیسے کچھ لوگ دفاتر میں کام کرتے ہیں آفسرانِ بالا دستخط کرتے ہیں۔ وہاں کوئی پیشہ وارانہ صلاحیتیں پروان نہیں چڑھی ہوتی۔ وہ اس لیے معاشرے کی بنیاد ہی بے وقوفی پر استوار کی گئی ہوتی ہے
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“