روم کی گلیوں میں 1576 میں ایک مفلوک الحال بوڑھا پھرا کرتا تھا۔ بے ڈھنگی چال، عجیب لباس۔ کبھی کسی پر چیختا، کبھی کسی سے بات کرتا۔ کوئی اس کی بات پر توجہ نہیں دیتا تھا۔ ایک وقت میں یورپ بھر میں مشہور، یونیورسٹی آف پاویا میں میڈیسن کے شعبے کا سابق سربراہ، جس نے ریاضی، سائنس، میڈیسن اور فلسفے پر 131 کتابیں لکھی تھیں۔ ایجادات کی تھیں۔ جن میں سے کمبی نیشن لاک اور یونیورسل جوائنٹ بھی تھے (یہ آج گاڑیوں میں استعمال ہوتا ہے)۔ شاندار ماضی والے اس شخص کا کوئی مستقبل نہیں تھا۔ صرف مفلسی اور بے حالی تھی۔ اس سال گرمییوں کے موسم میں اس نے اپنے آخری الفاظ لکھے تھے۔ یہ اپنے پسندیدہ بڑے بیٹے کی یاد میں لکھی گئی تحریر تھی۔ اس بیٹے کا سولہ سال پہلے سر قلم کر دیا گیا تھا۔ 20 ستمبر 1576 کو اس بوڑھے کا انتقال ہو گیا۔ تین بچوں میں سے ایک ہی بیٹا زندہ تھا۔ اس بیٹے کے پاس حکومت کی ملازمت تھی۔ بڑا اہم اور عزت والا عہدہ تھا۔ قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے اور جلاد کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ یہ اعلیٰ ملازمت اپنے والد کے خلاف گواہی دینے کے انعام کے طور پر ملی تھی۔ (یورپ میں جبر و استبداد کی تاریکی اپنے آخری دور میں تھی)۔
جیرولامو کارڈانو نے اپنی موت سے قبل 170 مسودے نذرِ آتش کر دئے تھے۔ ان کی باقی ماندہ چیزوں میں سے 111 بچے کھچے ملے۔ ان میں سے ایک، جو انہوں نے کئی دہائیاں پہلے لکھا تھا اور برسوں تک اس کو بہتر بناتے رہے تھے، بتیس مختصر ابواب پر مشتمل دستاویز تھی۔ اس کا نام “امکانات کے کھیل” تھا اور یہ دنیا میں رینڈم نس کی تھیوری پر لکھی پہلی کتاب ہے۔
کارڈانو جب ٹین ایجر تھے، تو ان کے ایک دوست کا انتقال ہوا۔ کچھ مہینوں کے بعد کارڈانو نے نوٹ کیا کہ اب اس کو سب بھول چکے ہیں، کوئی اس کا نام بھی نہیں لیتا۔ اس سوچ نے ان پر گہرا اثر چھوڑا۔ اپنی آپ بیتی میں انہوں نے اس واقعے کا ذکر کیا کہ اس کو دیکھ کر انہوں نے عزم کیا کہ وہ دنیا میں کچھ ایسا کر کے جائیں گے کہ اس قدر جلد ان کو نہ بھلایا جا سکے۔ اپنی میڈیکل ڈگری مکمل کرنے کے بعد اس انتہائی باصلاحیت نوجوان کا پہلا نشان ایک کتاب تھی جو “ڈاکٹروں کے طریقے” پر تھی جس میں اس فیلڈ کی بڑی کمزوریوں کا ذکر کیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے شہر میلان میں ان کے میڈیکل پریکٹس کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔ نئی جگہ کا انتخاب کرنے کے لئے انہوں نے پرابیبلٹی کی بنیاد پر ایک جگہ کا انتخاب کیا جو پیوڈی ساکیو کا قصبہ تھا۔
اس قصبے میں بیماروں کی بہتات تھی اور ڈاکٹر کوئی نہ تھا۔ کسی ڈاکٹر کے لئے پریکٹس کرنے کے لئے اس سے بہتر اور کونسی جگہ ہو سکتی ہے؟ لیکن وہ ایک بڑی غلطی کر گئے تھے اور ایک ویری ایبل کو نظرانداز کر دیا تھا۔ یہاں کے لوگ ڈاکٹری پر یقین ہی نہیں رکھتے تھے اور اپنا علاج جادوگروں اور عاملوں سے کرواتے تھے۔ یہاں پر انہوں نے اپنے فارغ وقت میں “امکانات کے کھیل” کی کتاب پر کام کیا اور ان “علاجوں” کے طریقے سیکھے۔ “چاند کی روشنی سے بچو”، “تین بار چھینک کر لکڑی کو ہاتھ لگاوٗ” جیسے طریقے اور آمدنی کے لئے امکانات والی کھیلیں کھیلنا شروع کیں اور پہلی مرتبہ پرابیبلٹی سپیس کا تصور دیکھ کر اس کو ریاضی میں ڈھال لیا۔
امکانات کا ہم ہمیشہ سامنا کرتے آئے ہیں۔ اس میں فیصلے لیتے آئے ہیں۔ کیا صحرا پار کر لیا جائے، کہیں پیاس سے مر تو نیہں جائیں گے؟ زلزلے میں کیا دوڑ لگائی جائے یا چٹان کے نیچے پناہ لی جائے؟ وہ دوشیزہ جو دیکھ کر مسکرائی ہے، کیا وہ مجھ میں دلچسپی رکھتی ہے؟ لیکن اسطرح کی چیزوں کو بھی ریاضی میں بتایا جا سکتا ہے؟ یہ ایک نیا تصور تھا۔ کسی بھی نئے شعبے میں کئے گئے پہلے کام کی طرح کارڈانو کے کام میں بھی بہت کمزوریاں تھیں لیکن ایک اصول جو انہوں نے وضع کیا، وہ پرابیلیٹی کا بنیادی اصول ہے۔ “کسی مطلوب ایونٹ کے ہونے کا امکان نکالنے کے لئے تمام ممکنہ ایونٹس دیکھے جائیں اور ان میں وہ ایونٹ کتنی بار آیا ہے، اس کو گن لیا جائے تو اس ایونٹ کے اگلی بار ہونے کا امکان نکل آئے گا۔”
اگر کسی شخص کے چار بچے ہیں تو اس بات کا کتنا امکان ہے کہ وہ چاروں لڑکیاں ہوں گی؟
اگر کسی شخص کے تین بچے ہیں اور تمام لڑکیاں ہیں تو اس بات کا کتنا امکان ہے کہ چوتھی بھی لڑکی ہو گی؟
اس بالکل سادہ سے سوال تک پر بھی کئی لوگ غلط فہمی کا شکار ہوتے رہے ہیں۔ (اگر اس پر بھی کوئی کنفیوز ہو جائے، تو اب اس کو پرابیبلٹی سپیس بنا کر آسانی سے جواب دیکھ سکتا ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کارڈانو کی کتاب ان کی وفات کے تقریبا سو سال بعد 1662 میں شائع ہوئی۔ اس وقت تک اس موضوع پر دوسری کتابیں بھی آ چکیں تھیں۔ کارڈانو کو ان کی اپنی زندگی کے آخری برسوں میں فراموش کر دیا گیا تھا لیکن انہوں نے دنیا میں اتنے نشان چھوڑے ہیں کہ ان کی وفات کے ساڑھے چار سو سال بھی انہیں نہیں بھلایا گیا۔