عید کی چھٹیوں کے بعد اسکول کھلنے پر بچوں میں عید کی موج مستیوں اور مخصوص ڈشوں کا تذکرہ چل رہاتھا
کہ اسی بیچ ہادیہ فریال کی زبان پر ایک سوال آیا۔
سوال ہی اتنا دل چسپ تھا کہ اس نے ہربچے کو اپنی طرف چاروناچار آسانی سے متوجہ کرلیا۔
ہادیہ فریال اپنے ساتھیوں سے کہہ رہی تھی کہ
آج ٩/شوال المکرم ہے۔ عید الفطر کوگذرے بخیر وعافیت آٹھ دن گذر چکے ہیں
میرے سامنے اپنی اکثر سہیلیوں کی
زبانی ایک مشترک سوال سامنے پیش آیا۔
کہ اب یاتوسویاں اپنے قدیم اور قدرتی مٹھاس ہی کھوچکی ہیں یاان کی طرف لوگوں کی رغبت نہیں رہی۔
کہ اکثر رشتے داروں اور دوستوں کے دسترخوان پرمجھے سویوں کے ڈونگے تو نظر آتے مگران کی طرف نہ آنے والے مہمان کی کوئی خاص رغبت تھی اور نہ ہی اس طرف مہمان کو متوجہ کرنے کے لئے میزبان کی دلچسپی ۔
میں عید کے روز ہی سے یہ سوچنے پر مجبور ہوں
کہ عید الفطر کے موقع پر سویّوں کی خاص اور پرلطف ڈش تو ہمارے معاشرے اور کلچر کی خاص پہچان تھی یہ کیاہورہاہے کہ ھم اپنی موروثی اور قدیم روایتوں کو بھولتے چلے جارہے ہیں۔
ہمارے بابا بتاتے ہیں کہ وہ ایک بار رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ایک روز بینک گئے توبینک منیجر مسٹربنرجی جن کا تعلق کولکتہ سے تھا ۔
کام کرتے کرتے عید الفطر کی سویوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بولے
“میاں جی! اب تو آپ کی عید آنے والی ہے
کیاکہنے عید کی سویوں کے؟
کولکتہ میں ہمارے ایک دوست تھے جو بڑے اہتمام سے میرے لئے اپنے گھر سے عید کی سویاں لایا کرتے تھے
کیا بتاؤں؟
ان عید کی سویوں کامزا سال بھر تک یاد رہتا تھا
اور اب بھی برسوں بعد جا ان کا ذائقہ یادآجاتاہے تو منہ میں پانی آنے لگتا ہے ۔”
بابابتاتے ہیں
کہ میں نے ان کا اشتیاق دیکھ کر بنرجی کو عید پر اپنے گھرآنے کی دعوت دی ۔
جس کو انہوں نے بخوشی قبول کر لیا
اور اپنے وعدے کو نبھایا بھی۔
ہادیہ کہہ رہی تھی
آخر اس کی وجہ کیا ہے؟کہ یہ روایتی ڈش اب لوگوں کو اپنے طرف راغب نہیں کرپارہی ہے؟
چونکہ وردہ فلورہ، ہادیہ سے عمر میں کچھ بڑی تھی اور اس کا تجربہ بھی زیادہ تھا اس لیے اس نے ہادیہ کے ساتھ تمام سہیلیوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا:
دیکھو!بات در اصل یہ ہے کہ آج وقت کے ساتھ ساتھ کھانوں کی ڈشیز کی بہتات اور لوگوں کی پسند کا پیمانہ تبدیل ہوچکا ہے۔
اس لیے لوگوں کی نظروں میں سویوں کی قدر ہلکی پڑگیی ہے۔
جیسا کہ میں نے بذات خود اپنے کچھ رشتے دار وں کے یہاں سویوں کے ساتھ دسترخوان پر برگر، پزا ،چزا پیسٹری اورکسٹرڈ وغیرہ مختلف قسم کی ویسٹرن ڈشیز دیکھیں ۔
اسی طرح کچھ لوگوں کے یہاں شیر خورمہ، شامی کباب، رشین کباب،چکن پکوڑے، سموسے،چنے چھولی، بریانی اور قورمہ وغیرہ بھی دیکھے ۔
جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وقت اور حالات کے تحت میزبانوں اور مہمان دونوں ہی کے رسم و رواج اور ذوقوں میں بدلاؤ آیا ہے جس کا یہ اثر ظاہر ہوا ہے ۔
اسی کے ساتھ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا ہے
کہ پہلے زمانے کے مقابلے سبھی طبقات کا معیار زندگی بھی بدلا اور خوش حالی آئی ہے
جو کہ اگلی نسلوں کے لئے ایک نیک فال اور خوش آئند علامت ہے ۔
ہماری دادی جان بتاتی ہیں کہ ان کے زمانے میں تو اکثر گھروں میں سویوں کے ساتھ کھانا بھی نہیں بنتا تھا ،بلکہ دوپہر کے وقت کھانے کے بدلے بھی صرف ایک ہی قسم کی میٹھی سویوں ہی پر گذران کرنی پڑتی تھی۔
وہ یہ بھی بتاتی تھیں کہ میٹھی عیدکے موقع پر اکثر گھروں میں صرف چھوٹے بچوں کے لئے نئے کپڑے سلواتے تھے۔
اور بقرہ عید تو نئے کپڑوں کا کوئی تصور ہی نہیں تھا ۔ سب پرانے ہی پہنتے تھے
اس کے علاوہ پچاس فیصدلوگ اپنے پرانے کپڑوں میں سے سب سے اچھے جوڑے کو دھوبی سے دھلواکر اس پر استری کروالیا کرتے تھے۔
جبکہ آج کے دور میں ایک ایک آدمی الوداع کے جمعہ کے لئے علاحدہ اور عید کی نماز کے لیے جداگانہ جوڑاسلاتاہے۔
وردہ کی ان قیمتی اور پرنصیحت باتوں کو سبھی سہیلیوں نے بڑی دلچسپی سے سنا اور اس کی معلومات اور ذہانت پر سبھی نے اس کو خوب داد دی۔
(ڈاکٹر راحت مظاہری)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...