میں نے جب سے ادباء اور شعراء کا تعارفی سلسلہ شروع کیا ہے تب سے مجھے اس بات کا احساس اور زیادہ ہوا ہے کہ میں کیسی کیسی نابغہ روزگار ادبی شخصیات کے تعارف کا اعزاز حاصل کر رہا ہوں ۔ یہ ان تمام شخصیات کا بڑاپن ہےکہ وہ وہ مجھ ناچیز کے لئے اپنا قیمتی وقت نکال کر مجھے اپنے تعارف سے نوازتے ہیں ۔
رخسانہ فیض صاحبہ بنیادی طور پر ادیبہ اور محققہ ہیں لیکن وہ شعر و شاعری کا شغل بھی فرما رہی ہیں ان کا کہنا ہے کہ میں تک بندی کی شاعری کر رہی ہوں باقاعدہ شاعرہ نہیں ہوں البتہ شاعری کا شوق بہت ہے ۔۔ لیکن میرے خیال میں وہ جب بھی نظم یا غزل لکھتی ہیں بہت ہی کمال کی لکھتی ہیں جن کو پڑھ اور سن کر کوئی بھی شخص بھرپور داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ ان کی شاعری کا کمال یہ ہے کہ وہ ذہن میں یاد رہ جانے والی شاعری لکھتی ہیں جو قاری اور سامع کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہے ۔
رخسانہ صاحبہ 29دسمبر 1978 کو ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل پرائو میں پیدا ہوئیں ۔ ان کے والد صاحب کا نام فیض محمد ہے ۔ انہوں نے ایف اے تک گورنمنٹ گرلز کالج ڈیرہ اسماعیل خان سے حاصل کی سی ٹی کا کورس گورنمنٹ ایلیمنٹری کالج کوئٹہ سے کیا ۔ بی اے اور ایم اے کراچی یونیورسٹی سے کیا اور ایف جی ڈپارٹمنٹ میں ٹیچر تعینات ہو گئیں لیکن انہوں نے تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا لاہور کی منہاج یونیورسٹی سے ایم فل کیا ۔ 2018میں منہاج یونیورسٹی کے ایک مقابلے کی شاعری کے سلسلے میں حصہ لیا جس کے بعد انہوں نے شاعری بھی شروع کر دی جس میں اپنے دل کی کیفیت اور جذبات کو سمونے لگیں ۔ ان کی شاعری میں ایسی تاثیر ہے کہ قاری اور سامع اس میں کھو جاتا ہے ۔ ان کے الفاظ کا چناؤ بہت خوب ہے ۔ وہ خود تو ان الفاظ میں الجھ جاتی ہی ہیں مگر قارئین کو بھی الجھن میں ڈال دیتی ہیں اور یہیں سے خود کو اور لفظوں کی گتھیوں کو سلجھانے کا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ ان سے ہونے والی گفتگو میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ عجز و انکساری کا پیکر ہیں وہ خود کو ادیبہ، محققہ اور شاعرہ کہلانے کی مستحق نہیں سمجھتیں ۔
رخسانہ صاحبہ نثر میں اپنا نام رخسانہ فیض لکھتی ہیں تو شاعری میں سمن کا تخلص استعمال کرتےہوئے رخسانہ سمن لکھتی ہیں ۔ اس لیئے ان کا تعارف لکھتے ہوئے میں اس الجھن میں پڑ گیا کہ ٹائیٹل میں ان کا نام رخسانہ فیض لکھوں یا رخسانہ سمن ۔ انہوں نے ملک کے چاروں صوبوں سے تعلیم حاصل کی ہے ایف اے خیبر پختون خواہ سے سی ٹی کی ڈگری کوئٹہ بلوچستان سے بی اے اور ایم اے کراچی سندھ سے اور ایم فل منہاج یونیورسٹی لاہور پنجاب سے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا کس طرح ممکن ہوا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کہ ان کی شادی ایک فوجی جوان محمد اقبال صاحب سے ہوئی اس کا تبادلہ ہوتا رہا تو رخسانہ صاحبہ بھی ساتھ ساتھ رہیں ۔ شاید آپ میری طرح یہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ وہ ڈیرہ اسماعیل خان کی ہیں تو ان کی مادری زبان پشتو ہوگی مگر ایسی کوئی بات نہیں ان کی مادری زبان سرائیکی ہے اور ان کی 2 بیٹیاں ہیں جو ان کی سہیلیاں بھی ہیں بڑی بیٹی مائیکرو بیالوجی اور چھوٹی بیٹی آئی کام کر رہی ہیں ۔
رخسانہ صاحبہ نے اپنے استاد اور علم و ادب کی دنیا کی نامور شخصیت پروفیسر ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب کی علمی و ادبی اور تعلیمی خدمات سے متاثر ہو کر * مطالعات تاریخ و ادب* کے موضوع پر ڈاکٹر معین الدین عقیل کی منفرد تصنیفی خدمات پر ایک تحقیقی کی کتاب لکھی جس کو ، رنگ ادب پبلیکیشنز کراچی نے بلا معاوضہ اگست 2019 میں شائع کیا جو ان کے لیئے باعث اعزاز ہے ۔ یہ کتاب 240 صفحات پر مشتمل ہے ۔ واضح رہے کہ کہ ڈاکٹر معین الدین عقیل صاحب 80 کتابوں کے مصنف ہیں اور 400 کے لگ بھگ ان کے تحقیقی مقالے ہیں ۔ رخسانہ صاحبہ کی تصنیف 4 ابواب پر مشتمل ہے جس میں ڈاکٹر عقیل صاحب کی برصغیر پاک و ہند اور جنوبی ایشیا میں اسلامی سلطنت کے قیام ،پاکستانی زبان و ادب تحریک آزادی میں اردو کا حصہ اور یہاں کی زبان اور تہذیب و ثقافت اور اقبال و جدید اردو ادب کا جائزہ بھی لیا گیا ہے ۔ یعنی یہ تصنیف اردو زبان و ادب اور مسلم حکمرانوں کی کارکردگی اور طرز حکومت کا احاطہ کیئے ہوئے ہے ۔
آخر میں رخسانہ صاحبہ کی خوب صورت شاعری سے 2 منتخب غزلیں آپ کے ذوق کی نذر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسی عجیب بات میں الجھی ہوئی ہوں میں
میں کیا ہوں اپنی ذات میں الجھی ہوئی ہوں میں
تم نے تو تھک کے دشت ٹھکانہ ہی کر لیا
اور شہر خواہشات میں الجھی ہوئی ہوں میں
دیوانہ وار پیار کا اظہار اب کہاں
سنگین حیات میں الجھی ہوئی ہوں میں
یہ ہجر و وصل کیا ہیں ، معانی ہیں ان کے کیا
کیوں ان کی کیفیات میں الجھی ہوئی ہوں میں
اس حسن لاجواب کو کیا لفظ دوں سمن
جن کی تجلیات میں الجھی ہوئی ہوں میں
۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔
اسے بے رنگ ہوئے سر و سمن بانہوں میں
جیسے پڑتی ہی نہیں کوئی کرن باغوں میں
خانہ جنگی ہے الگ جسم کے دربانوں میں
روح اپنی ہے قفس میں تو بدن باغوں میں
بارشوں میں بھی کوئی تازگی دیکھی نہ گئی
چھوڑ آیا ہے کوئی اپنی تھکن باغوں میں
سلسلے خاروں سے پھولوں نے کیئے ہیں قائم
آنے والا ہے کوئی غنچہ دہن باغوں میں
وہ نہیں ساتھ عجب رنگ ہے محرومی کا
جیسے آ رہے ہوں میری ہار کے بن باغوں میں
درد ایسا ہے کہ ہم ہجر کے ماروں کے لئے
شاخ گل ہوتی گئی دارو رسن باغوں میں
میرے اندر کسی وحشت کو جگاتا ہے سمن
زرد پتوں سے ہوائوں کا سخن باغوں میں
رخسانہ سمن