ادارہ، عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
سلسلہ غزل برائے تنقید
No 5
روبینہ میرکا منفرد شعری اسلوب
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری
عالمی تنقیدی پروگرام نمبر 210
اشک پیئے ہیں چُپکے چُپکے
زخم سیئے ہیں چُپکے چُپکے
کیسے کہیں کہ وقت نے کتنے
ظُلم کئے ہیں چُپکے چُپکے
جینے کی صورت تو نہیں تھی
پھر بھی جیئے ہیں چُپکےچُپکے
اُن پر جو اِلزام تھے ہم نے
خود پہ لیئے ہیں چُپکے چُپکے
دل میں چُھپا کر ہم ہر غم کو
کیسے جیئے ہیں چُپکے چُپکے
ہم نے روبینہ گھونٹ لہو کے
چُھپ کے پیئے ہیں چُپکے چُپکے
شاعر:
روبینہ میرکشمییر ۔ بھارت
گفتگو: محمد زبیر، گجرات، پاکستان
بظاہر سیدھے سادے پیمانے کے تحت بافتہ یہ غزل صوری اور معنوی اعتبار سے کثیر الجہت ہے۔
ردیف کی طوالت کے باعث دستیاب کم الفاظ میں تخیل کو سمو کر ابلاغ کے تقاضے پورے کردینا شاعرہ کی ہنرمندی کا کرشمہ لگتا ہے۔ قافیہ اور ردیف کا انتخاب شعوری طور پر یوں کیا گیا ہے کہ نغمگی اور موسیقیت کا تأثر قاری کو اپنے سحر میں اسیر سا کرلیتا ہے تاہم اس صوتی تأثر میں بھی متانت کے عنصر کو ملحوظ رکھا گیا ہے جو خاتون شاعرہ کی سرشت میں اعتدال و توازن کا عکاس ہے۔ قافیہ اور ردیف کا صوتی بہاٶ افقی محور میں ہے نہ کہ عمودی یا آبشاری محور میں جس کے باعث شور کی بجاٸے سکون اور ٹھہراٶ قاری کے اعصاب کو معتدل فرحت سے ہم کنار کرتا ہے۔
شاعرہ موصوفہ نے روایتی نسوانی دکھوں کا اظہار کیا ہے جو انہیں عاٸلی اور سماجی سطح پہ جھیلنا پڑتے ہیں۔ شاعرہ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے دکھوں کےا ظہار میں جارحیت اور احتجاج کو دخیل نہیں ہونے دیا بلکہ روایتی مشرقی عورت کی فطرت کے مطابق صبر و تحمل کے دامن کو تھاما ہے۔ دخترانِ مشرق کی نفسیات کے عین مطابق چپکے چپکے درد کے سہنے کے قرینہِ اظہار سے قاری شاعرہ کے جذبات و محسوسات کو چپکے چکے اپنی روح میں اترتا ہوا محسوس کرتا ہے اور اور اس عمل میں لفظی تعقید بھی مزاحم و حاٸل نہیں ہوتی۔
شاعرہ کے علم و فن میں فزونی کی دعا کے ساتھ
==========================
شاعرہ : روبینہ میر ۔جموں کشمیر ۔ بھارت
گفتگو : شیخ نور الحسن حفیظیؔ ، سری نگر ۔ جموں کشمیر
اشک پیئے ںیں چُپکے چُپکے
زخم سیئے ہیں چُپکے چُپکے
بہت خوب ۔ عمدہ مطلع ہے ۔ واہ
کیسے کہیں کہ وقت نے کتنے
ظُلم کئے ہیں چُپکے چُپکے
جس طرح پہ یکحرفی ہے اسی طرح کہ بھی یکحرفی ہی درست ہے ۔ اس قبیل میں نہ بھی آتا ہے جو یکحرفی ہے ۔ اس شعر میں چونکہ کہ دو حرفی نظم ہو گیا اس لیے مصرع خارج ۔۔۔۔ اسے یوں کِیا جا سکتا ہے۔
کیسے کہوں میں وقت نے کتنے
جینے کی صورت تو نہیں تھی
پھر بھی جیئے ہیں چُپکےچُپکے
یہاں ردیف یعنی چپکے چپکے ضائع ہو رہی ہے ۔ یہ بڑا عیب ہے جس گریز لازمی ہے ۔
اُن پر جو اِلزام تھے ہم نے
خود پہ لیئے ہیں چُپکے چُپکے
بہت خوب ، ایثار و محبت کا غماز شعر ۔ واہ
دل میں چُھپا کر ہم ہر غم کو
کیسے جیئے ہیں چُپکے چُپکے
یہاں بھی ردیف کما حقہُ کام نہیں کر رہی ہے ۔ کیسے جیے ہم پر بات ختم ہو گئی ۔
ہم نے روبینہ گھونٹ لہو کے
چُھپ کے پیئے ہیں چُپکے چُپکے
خوب ۔ اچھا مقطع ہے ۔ گرچہ مضمون پامال ہے تاہم لہجہ اچھا لگا
ضروری بات:
اس غزل میں ایک غلطی کئی بار دہرائی گئی ہے ۔ وہ عروض کی نہیں بلکہ املے کی ہے ۔ ملاحظہ ہو ۔۔
لیئے ۔۔۔۔ دیئے ۔۔۔ سیئے ۔۔۔۔ جیئے ۔۔۔ پیئے ۔۔۔۔۔ کیئے یہ سب غلط ہیں ۔ اس طرح لکھنے سے ان کا املا بھی غلط ہوگا اور وزن بھی فعلن کا ہو جائے گا ۔ ان سب میں ء زاید ہے ۔
لیے ۔۔۔ کیے ۔۔ جیے ۔۔ سِیے ۔۔۔ پیے دیے ۔۔ ان الفاظ کو یوں لکھنا چاہیے ۔
" ء کا استعمال " اس عنوان کے تحت اس کی تفصیل مل جائے گی کہ ء کہاں آنا چاہیے اور کہاں نہیں ۔
کہاں کوئی منزل ڈگر ہی ڈگر ہے
ازل سے ابد تک سفر ہی سفر ہے
اچھا مطلع ہے گو کہ مضمون پائمال ہے تاہم اندازِ بیاں نے اسے ندرت بخشی ۔
میرے دل کو تسکین ہو کیسے حاصل؟
سِتاروں سے آگے جو ٹھری نظر ہے
بہت خوب ، حوصلہ بخش شعر ۔ واہ
ہے طُوفاں کی زد میں میری یہ کشتی
میرے ناخُدا کو کہاں یہ خبر ہے؟
دونوں مصرعے خارج ۔ ثانی میں میرے کو مرے کیا جائے تو بحر پوری ہوگی اور اولیٰ میں طوفاں کو طوفان کرنا ہوگا۔ اس سے شعر بحر میں تو آجائے گا مگر میری یہ کشتی کا یہ حشو ہوگا ۔ اسے اس طرح کیا جائے تو شعر صاف ہو سکتا ہے
ہے طُوفان کی زد میں میرا سفینہ
مرے ناخُدا کو کہاں یہ خبر ہے
یہ کیسا سمندر ہے پلکوں کے پیچھے؟
جو رکھتا میری آنکھ کو تر بہ تر ہے !
خوب ، اچھا شعر ہے ۔ واہ
کٹے کیسے افسُردہ تاروں کی لو میں؟
بہت ہی بھیانک رُتوں کا سفر ہے
اولیٰ کی بہ نسبت ثانی کمزور ہوگیا ۔ بہت ہی کے ہی نے شعریت ختم کر دی۔
لہو سے ہے کی میں نے گو آبیاری
شجر آرزو کا مگر بے ثمر ہے
اولیٰ میں ہلکی سی تعقیدِ لفظی در آئی ہے تاہم اسے شعری ضرورت پر محمول کیا جاسکتا ہے ۔ درمیانہ شعر ہے ۔
اُسے فِکر تیری کیا ہو گی روبینہ
زمانہ تیرے حال سے بے خبر ہے
لفظ کیا کا اصل فع ہے جب کہ اس شعر میں '' کیا'' یک حرفی نظم ہو گیا اس لیے مصرع خارج ہے ۔ انہی الفاظ کے ساتھ تھوڑی سی نشست میں تبدیلی سی مصرع بحر میں آسکتا ہے
اسے فکر کیا تیری ہوگی روبینہ
تاثر : اوسط درجے کی غزل ہے تاہم تخلیق کار کی اہلیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ شاعرہ سے مستقبل میں اور بہتر کی توقع غلط نہیں ہوگی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
==========================
روبینہ میر صاحبہ کی تین غزلوں پر تبصرہ
گفتگو : افتخار راغب
روبینہ میر صاحبہ کی غزلیں نظر سے پہلے بھی گزرتی رہی ہیں۔ زیرِ بحث تینوں غزلیں بھی عام فہم زبان میں ہیں۔ اکثر اشعار استعارات و تشبیہات یا مشکل تراکیب وغیرہ کا سہارا لیے بغیر شاعرہ کے جذبات و احساسات و خیالات کی عکاسی کرتے پیں۔ ایک غزل پر میں نے تفصیلی گفتگو کی ہے دیگر دو غزلوں پر مختصر تاثر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ عام فہم سی دونوں غزلوں مندرجہ ذیل اشعار نے کچھ متاثر کیا دیگر عام اور پامال مضامین سے آراستہ عام سے اشعار ہیں:
یہ کیسا سمندر ہے پلکوں کے پیچھے؟
جو رکھتا میری آنکھ کو تر بہ تر ہے!
کیسے کہیں کہ وقت نے کتنے
ظُلم کئے ہیں چُپکے چُپکے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
==========================
گفتگو : غلام مصطفی اعوان دائم پاکستان
کہاں کوٸی منزل ڈگر ہی ڈگر ہے
ازل سے ابد تک سفر ہی سفر ہے
میرے دل کو تسکین ہو کیسے حاصل؟
سِتاروں سے آگے جو ٹھری نظر ہے
ہے طُوفاں کی زد میں میری یہ کشتی
میرے ناخُدا کو کہاں یہ خبر ہے؟
یہ کیسا سمندر ہے پلکوں کے پیچھے؟
جو رکھتا میری آنکھ کو تر بہ تر ہے!
کٹے کیسے افسُردہ تاروں کی لو میں؟
بہت ہی بھیانک رُتوں کا سفر ہے
لہو سے ہے کی میں نے گو آبیاری
شجر آرزو کا مگر بے ثمر ہے
اُسے فِکر تیری کیا ہو گی روبینہ
زمانہ تیرے حال سے بے خبر ہے
⛧ ⛧ ⛧
یہ بزمِ دل سجانا چاہتی ہوں
زرا سا مُسکرانا چاہتی ہوں
کرے جو میرے ہر غم کا مداوا
میں غم اُس کو دکھانا چاہتی ہوں
اگر دے حال خوشیوں کی ضمانت
میں ماضی کو بُھلانا چاہتی ہوں
جو میری روح کو تسکین بخشے
لبوں پہ وہ ترانہ چاہتی ہوں
جو میری زندگی کو کر دے روشن
دیا ایسا جلانا چاہتی ہوں
روبینہ چھیڑ مت ماضی کی باتیں
میں جن کو بھول جانا چاہتی ہوں
⛧ ⛧ ⛧
اشک پیئے ںیں چُپکے چُپکے
زخم سیئے ہیں چُپکے چُپکے
کیسے کہیں کہ وقت نے کتنے
ظُلم کئے ہیں چُپکے چُپکے
جینے کی صورت تو نہیں تھی
پھر بھی جیئے ہیں چُپکےچُپکے
اُن پر جو اِلزام تھے ہم نے
خود پہ لیئے ہیں چُپکے چُپکے
دل میں چُھپا کر ہم ہر غم کو
کیسے جیئے ہیں چُپکے چُپکے
ہم نے روبینہ گھونٹ لہو کے
چُھپ کے پیئے ہیں چُپکے چُپکے
—–
روبینہ میرکا منفرد شعری اسلوب
ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا ’’عظیم شاعری روایت سے جُڑی ہوتی ہے‘‘ روایت تہذیبی و ثقافتی عوامل کے زیرِ اثر ہوتی ہے۔ جس میں جغرافیائی خصوصیات بھی شامل ہوتی ہیں۔ تخلیق کار کا اپنی دھرتی سے تعلق مضبوط بنیادوں پر قائم ہوتا ہے۔ اس لئے اس کی تخلیقات میں اپنی دھرتی کے رنگ ہوتے ہیں اور اس کی بوباس رچی بسی ہوتی ہے۔ روبینہ میر کے اس رجحان کو ملاحظہ فرمائیں :
ہے طُوفاں کی زد میں میری یہ کشتی
میرے ناخُدا کو کہاں یہ خبر ہے؟
کشتی وطن سے استعارہ ہے۔ اور کس قدر خوب صورت انداز میں روایت سے جوڑ کر کہا گیا شعر ہے۔
اگر کسی سخن گستر کا روایت سے کوئی تعلق نہیں تو اس کا مطلب ہے کہ اُس کے افکار و خیالات بنیاد سے محروم ہیں اور اُسے ہم فطری شاعر نہیں کہہ سکتے کیونکہ روایت کسی بھی سخنور کے کلام میں فطری طور پر رچی بسی ہوتی ہے۔ بہت سے شعراء و شاعرات جدت کے زعم میں اپنے کلام کو لایعنی خیالات کا پلندہ بنا لیتے ہیں۔ لیکن روبینہ میر کے ہاں ایسا بالکل بھی نہیں۔ بلکہ اس کا متضاد ضرور ہوگا۔ مثلاً یہ دیکھیں کہ :
یہ بزمِ دل سجانا چاہتی ہوں
زرا سا مُسکرانا چاہتی ہوں
اور
کرے جو میرے ہر غم کا مداوا
میں غم اُس کو دکھانا چاہتی ہوں
اور یہ شعر بالخصوص توجہ کے لائق ہے کہ :
اگر دے حال خوشیوں کی ضمانت
میں ماضی کو بُھلانا چاہتی ہوں
یہ شعر بھی :
جو میری روح کو تسکین بخشے
لبوں پر وہ ترانہ چاہتی ہوں
جن کی فکر اور اُن کا اسلوب جاذبیت کی دولت سے یکسر محروم ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو عظیم جدت پسند کہلوانے کے زعم میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وہ شعری لطافتوں اور نزاکتوں سے یکسر نابلد ہوتے ہیں۔ اُن کے پاس لطیف جذبات و احساسات کا فقدان ہوتا ہے۔ وہ ایک بے جان اور بے روح قسم کا کلام تخلیق کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ سپاٹ قسم کے اسلوب کے ساتھ ساتھ اپنی فکر کو بھی سپاٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ جو سخن دان صحیح معنوں میں جدت و ندرت کے حامل ہوتے ہیں وہ انھیں اپنی فہرست کے آخری سیریل پر بھی برداشت کرنے کے رودار نہیں ہوتے۔ اُس شاعری کو معیاری کلام نہیں کہا جا سکتا۔ جدت کی بنیاد روایت ہے اور جس جدت کی بنیاد ہی نہ ہو چہ معنی دارد؟ روبینہ میر کی شعری اسلوبیات ایسی جدت سے کوسوں دور ہے۔ وہ تہذیبی بانکپن کے تھپیڑوں ہی میں رہنا چاہتی ہیں :
ہے طُوفاں کی زد میں میری یہ کشتی
میرے ناخُدا کو کہاں یہ خبر ہے؟
یہ کیسا سمندر ہے پلکوں کے پیچھے؟
جو رکھتا میری آنکھ کو تر بہ تر ہے!
یہ شعر بالخصوص اہم ہیں :
کٹے کیسے افسُردہ تاروں کی لو میں؟
بہت ہی بھیانک رُتوں کا سفر ہے
لہو سے ہے کی میں نے گو آبیاری
شجر آرزو کا مگر بے ثمر ہے
روبینہ میر کے ہاں حزنیہ جذبات و احساسات بھی کثرت سے پائے جاتے ہیں اور وہ بھی لطیف انداز میں ہیں۔ وہ اپنی فکر کو کرب انگیز نہیں ہونے دیتے، بس غم کی ہلکی سی آنچ محسوس ہوتی ہے۔ مصرعہ سازی کا عمل خوبصورت قرینے سے طے پاتا ہے۔ مصرعوں کے درو بست میں ایک جاذبیت کا پہلو پنہاں ہوتا ہے۔ کہیں کہیں معاملہ بندی بھی ایک حسن پیدا کرنے لگتی ہے۔ اسی حوالے سے اُن کے چند اشعار ملاحظہ ہوں کہ جہاں روایت اور جدت ساتھ ساتھ ہیں :
روبینہ چھیڑ مت ماضی کی باتیں
میں جن کو بھول جانا چاہتی ہوں
اور
دل میں چُھپا کر ہم ہر غم کو
کیسے جیئے ہیں چُپکے چُپکے
ہم نے روبینہ گھونٹ لہو کے
چُھپ کے پیئے ہیں چُپکے چُپکے
اور
کٹے کیسے افسُردہ تاروں کی لو میں؟
بہت ہی بھیانک رُتوں کا سفر ہے
اور
لہو سے ہے کی میں نے گو آبیاری
شجر آرزو کا مگر بے ثمر ہے
=========================
سب پر نقد و نظر ہو گئی
ادارہ ،عالمی بیسٹ اردو پوئیٹری
کی جانب سے پیش کرتے ہیں
عالمی تنقیدی پروگرام نمبر189
بعنوان: در صنعت ضرب الامثال
مناجات
اب تو ایسا وصال دے یا رب
جان مردے میں ڈال دے یارب
میرا ظاہر حسیں بنایا ہے
میرا باطن اُجال دے یا رب
جس کی خوشبو سے تن بدن مہکے
اتنا اعلٰی خیال دے یا رب
ایسا کردار تو عطا کر دے
ایک دنیا مثال دے یا رب
ایک فکرِ رسا عطا کر کے
اس کو لفظوں میں ڈھال دے یا رب
جس پہ تازہ گلاب کھلتے ہوں
ایسی شاخِ نہال دے یا رب
جس میں حصہ ہو سب غریبوں کا
ایسے مال و منال دے یارب
جو بھی سوچوں دعا میں ڈھل جائے
سوچ کو وہ کمال دے یا رب
احمد منیب
بسم اللہ
مناجات سے آغاز کیا گیا… قوافی جس طرح خود جاندار تھے، ویسے ہی ان کا استعمال بھی نہایت طرفگی سے کیا گیا…. ایک دو مقامات پر اداتِ ضروریہ کی کَمی محسوس ہوئی، منجملہ اشعار اچھے ہیں اور شاعر کی پُختگی اور ضبطِ کلام پر دلالت کرتے ہیں
غلام مصطفی اعوان دائم پاکستان
=========================
بادشاہی میں مسلّم عاجزی ہے آپکی
صبحِ روشن سے بھی بڑھ کر زندگی ہے آپکی
آپ جیسا ہادیء اعظم کوئی دیکھا نہیں
فوزِ اکبر کی ضمانت آگہی ہے آپ کی
جامعیت,اکملیت آپ کو بخشی گئی
ہر حوالے سے مکمل زندگی ہے آپ کی
تذکرہ کتبِ سماوی میں ہوا ہے آپکا
سب رسولوں پر مقدم,رہبری ہے آپ کی
چند سالوں پر نہیں موقوف ذکرِ مصطفے
مختصر قصہ ہے یہ کہ ہر صدی ہے آپ کی
پیروئ اسوۂ احمد سعادت ہے جمیل
اس لئے سب کو اطاعت لازمی ہے آپ کی
میاں جمیل احمد
بسم اللہ
ماقبل آخر شعر میں ایک لفظ "کہ" کو دو بطورِ سببِ خفیف باندھا گیا ہے، جو کہ جمیع اساتذہ کے نزدیک درست نہیں… باقی نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم جس عقیدت و احترام سے کہی گئی ہے وہ عیاں ہے، حسنِ مصطفیٰ کی ضوء سے جب تک عشق کا دامن مملو نہ ہو، وہ خود تکمیل کو نہیں پہنچتا، شاعر کی محبتِ رسول واضح ہے، کلام میں سوز بھی ہے اور گداز بھی، معنویت سے سبھی اشعار پُر ہیں.. قوافی میں حرفِ روی "یائے معروف" رکھی گئی، اگرچہ تمام قوافی درست ہیں لیکن محتاط اساتذہ اس طرح کے قوافی سے گریز کو مستحسن سمجھتے ہیں
غلام مصطفی اعوان دائم پاکستان
=========================
نــعــت نبــی صــلی اللــہ عـلیہ وسلم
مـــــرتـــــــــــبـہ اللـــہ اکـــــــبر آپ کا
مـدح خـواں ہــے ہــر پـــیـمبـــر آپ کا
ہــر گھـــڑی پچھلی سے بــہتر آپ کی
ہــر ســمــاں پــچھلا سے بــہتر آپ کا
جــــس نــے دیــکھا آپ کو وہ ہــو گیا
یــا رســـــول اللـــــہ ثنــا گـــــر آپ کا
آپ کا ثانی نـــــہیں دوجــــــہ کــوئی
جـســــم ہے سایہ سے اطــــــہر آپ کا
یوں تو بعثت میں موخـــــــر آپ ہیں
ہــے مــــقــــدم نام ســــــــــرور آپ کا
بے خـــبر نـــجدی نہ جــــانے بـات یـہ
جـــیتا ہـے دیـــوانہ مــــر کــــر آپ کا
نیــند آئــے ہی نـــہیں مجھ کــو مـگر
اک قـــصیدہ شاہ لــــکھ کــــــر آپ کا
دیـــکھتے رہ جائیں اعدا حشــــر میں
تھــام لــوں دامن میں بــڑھ کر آپ کا
سر کی ، اس کاغذ کو دے زیـنت قرار
نام احسؔـــــن لکـھــے جــس پـر آپ کا
وســـــــــیم احـســـــــــؔن
جـامـعـہ نـوریـہ شـمـس الـعـلـوم
ٹھـــاکــــرگـنـج کـشـن گـنـج بـــہــــار
بسم اللہ
نعت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس عقیدت سے لکھی گئی، وہ اس کے الفاظ سے ظاہر و باہر ہے، نعت کی اصل متاع ہی احترام و محبت ہے، جو کلام فی نفسہٖ محبت و عقیدت کیلے جذبات سے تہی داماں ہو، وہ اصطلاح میں تو نعت کہی جا سکتی یے لیکن عملی طور پر وہ نعت نہیں ہوگی بلکہ فَقَط قافیہ پیمائی ہی کہلائے گی…
موصوف کی نعت ان کی قلبی وارفتگی پر شاہد ہے، ایک دو مقامات ہر فنی، ترکیبی و تشکیلی اغلاط ہیں.. مثلاً مطلع میں ایطاء خفی ہے، مطلع میں حرفِ روی "ب" مفتوح متعین ہو چکا، لیکن باقی قوافی میں یہ روی برقرار نہیں…
دوسرے شعر میں "پچھلا" غالباً کتابت کی غَلَطی ہے، ایک دماور جگہ دیکھئیے کہ "دوجہ" کوئی لفظ نہیں، اسی شعر کا دوسرا مصرعہ معنوی تعقید سے اٹا پڑا ہے،….. ان کے علاوہ بھی کچھ مقامات ہر تسامحات واقع ہوئے ہیں، شاعر سے نظر ثانی کی درخواست ہے……
غلام مصطفی اعوان دائم پاکستان
=========================
پروگرام نمبر 189 درصنعت محاورہ و ضرب الامثال
ہاتھ رکھتا ہے تو ہر زخم صدا دیتا ہے
یہ مسیحا ہے جو شعلوں کو ہوا دیتا ہے
کانچ ہاتھوں میں اٹھا رکھے ہیں پتھر اس نے
مجھ کو ہر موڑ پہ وہ شوخ دغا دیتا ہے
****
سر مرے چڑھ کے بولتا جادو
آپ کی گفتگو کا نشہ ہے
جل گئی بل نہیں گیا پھر بھی
جستجو، آرزو کا نشہ ہے
نازکی وہ بھی ان کے لب جیسی!
پھول کو ہُو بہ ہُو کا نشہ ہے
*****
وہ حسیں جس کو بھی جمیل کرے
یوسف و یونس و خلیل کرے
جس کا چاہے نشاں مٹا دے وہ
کوئی اب اس میں کیا دلیل کرے؟
جس کو چاہے عطا کرے شاہی
جس کو چاہے خدا ذلیل کرے
احمدمنیب
تنقید
پہلے شعر ہی ہر واااہ کہنے کو جی چاہا، نہایت خوب صورت اشعار اور ان میں محاورہ و ضرب الامثال کا شمول نہایت فنکارانہ طور پر کیا گیا، شاعر کی فنی پختگی لفظوں ستمے عیاں ہے….
مجموعی طور پر ضرب الامثال اور محاوروں کا استعمال نہایت چابک دستی سے کیا گیا اور نہایت عمدگی سے کہ شاعر کی فن پر گرفت واضح ہوتی ہے
غلام مصطفی اعوان دائم پاکستان
=========================
غزل
ضرب المثل
غم میں کیسے کروں بیاں اپنا
بات ہے یہ بڑی تو منہ چھوٹا
اپنی قسمت میں ہے یہی شاید
جیسا کرنا ہے ویسا ہے بھرنا
کچھ بھی کر کے دکھانا ہے پہلے
لڈو کہنے سے منہ نہیں میٹھا
پہلے دل میں یقین پیدا کر
سب کو گھی یہ ہضم نہیں ہوتا
چین سے رہ رہا تھا جو اصغر
آگ لگنے پہ اک کواں کھودا
اصغر شمیم
متفرق ضرب المثل اشعار
اچھی بیوی بھی کیا مصیبت ہے
"جس نے ڈالی بری نظر ڈالی"
اے ہوا تو بجھا نہیں سکتی
"روشنی تو دیے کے اندر ہے"
کوئی پیچھے پڑا ہے برسوں سے
"حادثہ ایک دم نہیں ہوتا"
حال دل لکھ دیا ہے چہرے پر
"پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی"
غم ہی اصغر ہے جو کہ دنیا میں
"ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں"
اصغر شمیم، کولکاتا،انڈیا
تنقید
محاوروں کا درست استعمال ہی اصل میں انھیں جاویداں کرتا ہے، جملے یا مصرعے میں ساخت میں ضرب المثل یا محاورے کو سمونا آسان کام نہیں لیکن موصوف کافی حد تک اس میں سرفراز نظر آئے ہیں….
لفظِ "ہضم" کا تلفظ درست نہیں… ایک نظر دیکھ لیجیے
لفظِ "کنواں" کو "کواں" لکھا گیا یے، الفاظ کی ملفوظی حالت کا انطباق مکتوبی پر کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ سراسر نا انصافی… اس لیے جو لفظ جیسے اردو املا میں رائج ہے، اسے ویسا ہی لکھنا چاہیے…
اگلے حصے میں ہر شعر کا ایک مکمل مصرعہ ضرب المثل یا محاورۂ عام پر مشتمل ہے، اور ان کا استعمال بھی کمال فنی چابک دستی سے کیا گیا ہے….
شاعر کے لیے بہت دی داد
غلام مصطفی اعوان دائم پاکستان
=========================
پروگرام نمبر 189
درصنعت ضرب الامثال
صابر جاذب لیہ پاکستان
کبھی تو دست_زلیخا کی مثل بڑھ تو سہی
میں کوئی دامن_یوسف تو نہیں کہ سل نہ سکوں
===================
تمھاری یاد تو ناخن دراز ہے،بے شک
ستم تو یہ ہے کہ زخم_فراق چھل نہ سکوں
===================
بھلا وہ کیسا بشر ہے صابر
کہ سانپ جس سے ڈسا ہوا ہے
===================
ہر بار ہوس ذہن کو کر دیتی ہے مفلوج
ہے مثل کہ نو نقد نہ تیرہ پہ جھپٹنا
===================
سینکڑوں لوگ قصر ظلمت میں
چند لوگوں کو چار چاند لگے
===================
یہ زمانہ ہے مکر کا خوگر
ایک کے دس وصول کرتا ہے
===================
ہم حقیقت کی جانچ کرتے ہیں
آپ کیوں تین پانچ کرتے ہیں
جب بھی آئیں بہار کے جھونکے
گلستاں تیز آنچ کرتے ہیں
ان سے ہوتے ہیں سرخرو رستے
پاوں زخمی جو کانچ کرتے ہیں
و ہی کرتے ہیں زندگی روشن
خوں سے روشن جو سانچ کرتے ہیں
آج ہیں آئینہ بکف صابر
اپنے چہرے کی جانچ کرتے ہیں
تنقید
جست کے رنگ میں آج کَل جو گُلکاریاں ہو رہی ہیں، سبھی اس سے بخوبی واقف ہیں، جدیدیت کے نام پر ادب کا بیڑا غرق کیا جا رہا ہے، لیکن موصوف شاعر کے اشعار اگرچہ جدیدیت کے رنگ میں گُندھے ہوئے ہیں لیکن کلاسیکل ادب کی پرچھائی صاف محسوس ہوتی ہے، اشعار میں الفاظ کی گھڑت، محاورات کی بُنت اور استعمال اور ضرب الامثال کی پیوند کاری، الغرض سبھی لاجواب…
اس قدر خوب صورت اشعار پر بیحد داد و تحسین ملاحظہ فرمائیں
غلام مصطفی اعوان دائم پاکستان
=========================
عالمی تنقیدی پروگرام نمبر 189 در صعنت ضرب الامثال
آئینہ انکو دیکھایا تو برا مان گئے
عیب چپکے سے بتایا تو برا مان گئے
چاند پر تھوکا تو آئے گا پلٹ کر واپس
قول جب انکو سنایا تو برا مان گئے
زندگی بھر وہ بناتے رہے ہم کو الو
ہم نے اک بار بنایا تو برا مان گئے
رہ کے پانی میں مگر مچھ سے عداوت کیسی
ہاتھ دشمن سے ملایا تو برا مان گئے
اپنے منہ سے میاں مٹھو نہیں بننا اچھا
ہنس کے یہ ہم نے جتایا تو برا مان گئے
ٹھیک حالانکہ نشانے پہ لگا تھا جاکر
تیر اندھیرے میں چلایا تو برا مان گئے
انکی تحضیک کا پہلو تھا بتاوْ کوئی
دیپ سورج کو دکھا یا تو برا مان گئے
اخلادالحسن اخلاد جھنگ
تنقید
شعر کی مجموعی فضا روایتی ساخت و تشکیل کے کُہر سے معمور ہے، کتابت کی اغلاط بہت ہیں…. کچھ جگہوں پر الفاظ سرے سے غَلَط ہیں مثلاً لفظِ تحضیک… دیکھایا….
شعری مضامین سے نو آموزی جھلک رہی ہے، مطالعہ کا فقدان اور تجربۂ فَن کی آمیزش سے دامنِ غزل تہی ہے، اشعار کی بندش سست روی کا شکار ہے، کسی تیکھی اور نادر تشبیہ و استعارے سے تقریباً سبھی اشعار خالی ہیں…
ہاں! محاورات و ضرب الامثال کا استعمال سبھی جگہوں پر بَرمحَل لایا گیا ہے اور یہ شعوری کوشش نہایت طرفگی کی حامل نظر آئی…
شاعر کے لیے نیک خواہشات اور بہت بہت داد
غلام مصطفی اعوان دائم پاکستان
=========================
بعنوان:——— درصنعت ضرب المثال
مُتَفَرق اشعار
رہگزر کا نام جب گھر رکھ لیا
میں نے اپنے دِل پہ پتھر رکھ لیا
تیری خاطر ہزار ہا میں نے
آنکھوں آنکھوں میں رات کاٹی ہے
مل کے رہے گا وہ ، جو لکھا ہے نصیب میں
در در کی خاک اس لۓ ہم چھا نتے نہیں
جتنی ہواٸیں تیز ہوں روبینہ ہونے دو
حق کا چراغ پھر بھی بُجھایا نہ جاۓ گا
تُم مُسافر ہو روبینہ یہ سفر طجاری رکھو
اُنگلیاں تو اُٹھتی رہتی ہیں یہاں فنکار پر
روبینہ میر انڈیا جموں و ککشمیر
تنقید
متفرق اشعار میں محاورات کا جو کشت زار لہلہا رہا ہے، اس کی نکہت سے فضائے سُخَن میں عطر بیز جھونکے رقص کناں ہیں…. مضبوط محاورات اور بندش کی چُستی نے مضمون و خیال و بندش و ترکیب و ضلع کو جو حسن اور طرفگی کی ثروت سے بہرہ یاب کیا ہے، اس کی مثال خود اشعار سے واضح ہے…
نیک خواہشات اور خوب خوب داد
غلام مصطفی اعوان دائم پاکستان
=========================
ماورا سید
کراچی پاکستان
عالمی تنقیدی پروگرام
درصنعت_ضرب الامثال
غزل
بهت درود پڑھے تب دعا نے کار کیا
تمهارے کاٹے کا کس کس طرح اتار کیا
تمهارے کهنے سے پھلے اڑان خود روکی
یه پر جهاں بھی جلے اس کو حد شمار کیا
ھم ایک عمر سے بیٹھے تھے جال ڈالے ھوۓ
پھر ایک مچھلی نے آکر ھمیں شکار کیا
بتائیں کیسے تمهیں زندگی سے لڑتے ھوۓ
یه پل صراط_جهاں کس طرح سے پار کیا
________
فردیات
زخم کھولا گیا نئے سرے سے
ضبط تولا گیا نئے سرے سے
تلخ لهجے میں تلخیوں والا
شهد گھولا گیا نئے سرے سے ______
چھاچھ بھی پھونک پھونک پی اس نے
کام آئ نه دلبری مرے دل
_______
اس لئے لوگ بھی کم هی مجھے پهچانتے هیں
میں نے چھرے په کوئ چهره لگایا هی نهیں
طائر ساحل
تنقید
غزل اپنی مجموعی ہیئت میں ایک سحر لیے ہوئے ہے، تشکیلی بنیادوں پر اکملیت سے مملو تو نہیں لیکن عام کلاموں سے اوپر بلکہ بہت اوپر کا کلام ہے، شاعرہ کی نکتہ سنجی اور محاورہ بندی کا منہ بولتا ثبوت ہے….
فردیات میں بھی جو ادا اور نازکی ہے، وہ نظر آتی ہے.. اصل حسن کسی بھی شعر کا یہ ہوتا ہے کہ اس میں شعریت ہو، بندش کی چستی ہو، محاورہ بندی میں اہلِ زبان کی تقلید اور ساختیات میں روایت شکنی نہ ہو……. یہ عناصر شعر کو اعلیٰ سے اعلیٰ تر بناتے ہیں… شاعرہ نے جس خوب صورتی اور عمدگی سے یہ پہاڑ سَر کیا ہے، یقیناً اس کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا جاتا ہے…. بہت بہت داد
غلام مصطفی اعوان دائم پاکستان
=========================
درصنعت ضرب الامثال
ہیر یہ بولی، سن لو رانجھے۔۔۔
جس کا کام اسی کو ساجھے۔۔۔
یہی کیا ہے نصیحت ہمیں بزرگوں نے۔۔۔
زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔۔۔
تیرے اخلاص میں ریا بھی ہے۔۔۔
کھاری پانی سے دال گلتی نہیں۔۔۔
وہ ہے مجرم تو تم بھی مجرم ہو۔۔۔
تالی اک ہاتھ سے نہیں بجتی۔۔۔
کچھ ایسا ہی حال ہے تیرا۔۔۔
ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا۔۔۔
از قلم
شاہ رخ ساحل تلسی پوری
تنقید
لفظِ نصیحت بمعنیٰ پند یا وعظ، مؤنث ہے جبکہ آپ نے مؤنث باندھا….
اشعار کی بُنت میں تو چابک دستی واضح ہے، لیکن اداتِ شعریہ کی عَدَم موجودگی شعر کی شعریت کو گہنا رہی ہے….. متنوع محاورات کو جس عمدگی سے برتا گیا ہے، ضرور شاعر کی کاوش اور کوشش دونوں کا نتیجہ ہے……
شاعر کے لیے نیک خواہشات اور بہت سی داد
غلام مصطفی اعوان دائم پاکستان
=========================
غزل
ہوا ہے خون فلک پہ حسیں ستاروں کا
چمن میں آگ لگی ، ذکر ہے بہاروں کا
تیرے فریب نے چھینی ہے جن کی بینائی
نہ سبز باغ دکھا اب انہیں نظاروں کا
لگی ہے آگ چمن میں ستم کی بارش سے
دہک رہا ہے جگر آج سبزہ زاروں کا
جو دل سے نکلی تو ٹکرا کے آسمانوں سے
جواب آگیا بے بس و بے سہاروں کا
تجھے جگایا ہے غفلت کی نیند سے جس نے
ہوا کا گرم تھپیڑا ہے ریگ زاروں کا
خدا زمین کے دیں گے تجھے دغا آخر
بھروسہ کچھ نہیں ارشاد ان سہاروں کا
ڈاکٹر ارشاد خان
تنقید :
غَزَل کی فضا میں خیال کا طائر باغ و بہار سے ہوتا ہوا زمانے کے اس پڑاؤ تک آ پہنچا جہاں انسانیت سوز رویوں سے انسانیت شرم سار ہے. مضامین صرف قوافی میں قید ہیں، ان میں تنوع نہیں. شعریت عنقاء ہے اور کچھ کچھ مقامات پر مضامین کی پامالی بھی واضح……
ابتدائی چند اشعار میں ابہام ہے اور وہ ابہام جو حسن پیدا کرنے کی بجائے اا میں نقص کا باعث ہو، اداتِ شعریہ کی عَدَم موجودگی شعر کے لیے سمِّ قاتل ہوا کرتی ہے، اس لیے ابلاغ کے لیے پہلی چیزیں ابہام کا لحاظ رکھتے ہوئے اشکال سے بچنا ہے، اگرچہ یہاں اشکال تک طائرِ خیال نے زقند نہیں بھری، لیکن ابہام البتہ موجود ہے. شاعر کے لیے خوب خوب داد
غلام مصطفیٰ دائم اعوان، پاکستان
=========================
غزل
دو دلوں کا رابطہ ہے زندگی
چاہتوں سے آشنا ہے زندگی
زندگی کا بھید ہم پر کب کھلا
جانے کیسا سلسلہ ہے زندگی
ٹوٹ جائے گا فنا کے ہاتھ سے
پانیوں کا بلبلہ ہے زندگی
کیسے گزرے اپنے سارے روز و شب
روزو شب کا آئینہ ہے زندگی
لمحہ لمحہ سوچتی ہوں میں یہاں
خواب ہے یا رت جگا ہے زندگی
یہ حقیقت کاش گل بھی جان لے
موت ہی کا راستہ ہے زندگی
گل نسرین ملتان پاکستان
تنقید :
زیست کی گمنام شاہراؤں پر دوڑتی خیال و خواب کی بے ہنگام سواری نے جو جو دریافت کیا، وہ اس غزل کی جان ٹھہرا، زندگی کیا ہے؟ اس کا جواب اس غزل میں ہے
قوافی کا جمود غزل کو نظم کی ہیئت غطا کر دیتا ہے، لیکن یہاں ہیئت تو غزل ہی کی ہے لیکن قوافی کی انفرادیت کی وجہ سے یہ غزل غزل ہی رہی… جو کہ شاعرہ کی محنت اور کاوش کا نتیجہ ہے
لفظیات سبھی پامال ہیں، کسی ساختیاتی معجزے کا وجود محال نظر آیا، البتہ مضامین کو اشعار کی صورت میں حسنِ بندش کے باعث خوب سے خوب تر کر دیا….
شاعرہ کے لیے ڈھیروں مبارک باد
غلام مصطفیٰ دائم اعوان، پاکستان
=========================
کوئی حد نہ شمار ہے صاحب
غم کی لمبی قطار ہے صاحب
ابر, طوفان اور گھڑ ا کچا
جانا دریا کے پار ہے صاحب
دل کی مرضی ہے جس پہ وہ آئے
دل پہ کب اختیار ہے صاحب
نو نقد اب یہاں نہیں چلتا
اب تو تیرہ ادھار ھے صاحب
اس کی باتوں کے زخم ہیں تازہ
اس کا لہجہ کٹار ہے صاحب
لوگ کہتے ہیں بے وفا اس کو
پر ہمیں اعتبار ہے صاحب
تسنیم کوثر
تنقید :
صاحب، ردیف کے طور پر مخاطَب کے لیے مستعمل ہے، عموماً ایسا ہی ہے… مذکور بالا غزل میں بھی اسی نوعیت کا "صاحب" ہے… مضامین میں تنوع نہیں پایا جا رہا…. محاورات کا استعمال بھی اس فنکاری سے نہیں کیا گیا جن کے وہ متقاضی تھے…
مطلع ہی میں لفظِ "نہ" کو بطورِ سببِ خفیف باندھ کر تمام تر لُطف اکارت کر دیا…. خیال کے سبھی جھونکے محدود فضا میں منڈلا رہے ہیں، طائرِ بے دَم میں مزید اڑان کی تاب نہیں…. قوافی کی مجبوری کہیے یا ذہنی ارتقاء کا جمود….
البتہ بندش کی تازگی نے کچھ مقامات پر اپنا اثر باقی ضرور رکھا ہے