یقیناً جامِ جم گول مٹول ضرور رہا ہو گا مگر ہمارے زمانے میں یہ مربع شکل میں واقع ہوا ہے۔جی ہاں شوشل میڈیا کے بطن سے پیدا شُدہ تمام تر موادکو نگاہوں کے دامن پر جو شئ بڑے شرح و بسط کے ساتھ عیاں کرتا ہے اُسے ہم موباٸیل کہتے ہیں۔اسی چوکور آنکھ کے حامل اسٹومینٹ کا وجود سینکڑوں نہیں بلکہ لاکھوں ادبی و غیر ادبی گروپ کے تخلیق کا سبب بنا۔جو آگے بڑھ کر اشخاص کے باہمی تعارف کا بہترین وسیلہ کہلایا اسی چوکور وسیلے نے ایک بار مُجھے ایسی شخصیت کی جانب متوجہ کیا جو جوابی شُکریے اور جوابی تبصرے کے ساتھ اس کے اغراض و مقاصِد کے علاوہ محاسن و مصاٸیب پر بھی تفصیلی روشنی ڈالا کرتی تھی۔ابتداٸ مرحلے میں اوروں کی طرح مُجھے بھی یہ تفصیلی جوابی ترسیلات قدرے شاق گُزریں مگر اس کی افادیت کے پیشِ نظر دل نے بہر حال و بہر طور اسے قبول کیا اس لۓ اس کے جوابات کا قدرے تفصیلی جواب رقم کرنے لگا کُچھ ہی دن گُزرے تھے کہ اُس نے کہا سر میں جموں کشمیر سے روبینہ میر آپ سے مخاطب ہوں آپ نے میری غزل پر جو تنقیدی تبصرہ کیا اُس پر تہہِ دل سے شُکریہ ادا کرتے ہوے بتانا چاہتی ہوں کہ غزل کے حاشیہ وبین السطور کی بناء پر کُچھ باتیں آپ نے ایسی کہی ہیں جس کا فوری جواب نہ دے سکی جس کے لٸے ہزارہا بار معزرت خواہ ہوں ازاں بعد اُنہوں نے جو کُچھ بیان کیا اس سے اُن کی شاٸستگی۔صاف گوٸ۔صاف دِلی کے علاوہ حفظِ مراتب پر عمل پیرا ہونے کی طلب واضح ہوٸی سچائی یہ ہے کہ ان کے مراسلے کا حرف حرف اعلان کر رہا تھا کہ خلوص کیش. خلوص کار . خلوص بیز .خلوص بردار. خلوص بدست. خلوص بکف ان جیسے تمام لغاتی مرکب الفاظ فی زماننا سطور و بین السطور سے نکل کے سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں اور اخیرا منہ چھپا کے اپنی جگہ پاؤں پسار کے بیٹھ جاتے ہیں
کیونکہ ہمارے مردم گزیدہ ماحول نے خواتین میں عدم تحفظ اور رائی کا پہاڑ بن جانے اور بنا دینے جیسے عوامل کے سبب انہیں حصار بدست کے ساتھ خود غرض. حریص. کام نکال کے پھینک دینے والا بنا چکا ہے
اس مردم دریدہ ماحول نے اپنے مسموم ناخن صنف نازک کے ادبی جسمانی ساخت سے ایسے پیوست کیے کہ وہ چاہ کر بھی غزل سے چاہت کا رشتہ نہ نبھا سکیں تو شاعر کس زمرے میں آیگا
دوسری جانب بازار میں خام مال کی سپلائی اور قبل از وقت شہرت کے جِنّ کو مقید کرنے کے للک اور چاہ کچھ ایسے اعمال کے صدور کا سبب بھی بنے جو ازاں بعد چہ میگوئیوں کو ہوا دینے میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے
اس فضا میں اپنائیت الفت محبت احترام . آدمیت و انسانیت کی طرفداری خلوص کاری اخلاص برداری اور مثبت رویّے کی پاسداری کے ساتھ حفظ مراتب جیسے تہذیبی اثاثے کو اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ روبینہ میر میں زندہ پاتا ہوں
روبینہ میر سے چند روزہ تعارف نے میرے دل میں ان کیلیے وہ مقام طے کردیا ہے جو برسہا برس سے میرے حلقے میں موجود بیشتر چہروں کے حق میں نہ آ سکا اسی لیے دل چاہتا ہے کہ بلا کم کاست کہہ دوں کہ روبینہ میر کی ادب دوستی ادب پسندی میں تہذیبی رویّے کی واضح لہر انہیں دوسروں سے ممتاز کرچکی ہے
عبارت کی قرآت سے یہ احساس بھی فزوں تر ہوا کہ اُنہوں نے اپنے مافی الضمیر کی اداٸیگی کے لٸے جو زُبان وبیان ۔جُملہ سازی۔اور دلیل و بُرہان سے پُر محاورات و استعارات کا استعمال کیا وہ روبینہ میر میں ایک اچھی شاعرہ سے کہیں زیادہ اچھی نثرنگار کا پتہ دے رہا تھا۔
اُن کی نثر کے زیرِ اثر میں نے کُچھ غزلوں کے ارسال کی فرماٸیش کی جس کے نتیجے میں سامنے آیا کہ روبینہ میر میں وہ حسّاس نرم ونازک آدمیت پسند دل دھڑکتا ہے جو ہمہ وقت بنی نوع انسان کے لٸے دستِ بدعا رہتا ہے اور کہتا ہے۔
میّسر ہو سب کو سکوں زندگی کا
میں سب کے لٸے یہ دُعا مانگتی ہوں
یہ دُعاٶں کی شہزادی ہمہ وقت تعمیرِ انسانیت کے لٸے خود کو وقف کرتے ہوے اشعار کے چاک لے کر بیٹھی جس سے ہر شعر میں آدمیت کی بقإ اور نسلِ آدم کی صُلح جوٸی کی جانب ترغیب اور معاشرے میں امن و آشتی کےغلغلے کی بات سامنے آٸی۔
سچاٸی یہی ہے کہ جب ھدف ہی شعر گری سے بہت آگے انسانیت کا فروغ ہو تو جُملے کیا جملہ سازی کیا بیانیہ کیا بیانیہ کی تکنیک کیا کیونکہ ھدف کے حصول کے لٸے اہم ترین شئ معاشرے کی تمام تر اِکاٸیاں اور اُن کی عقلی بالیدگی چیخ چیخ کے کہتی ہے کہ انہیں زبان و بیان کے قواعد و ضوابط کےجھمیلے نہیں بلکہ بولی کی مِٹھاس اور ترسیل کی بے ساختگی کی اشد ضرورت ہے شاید اِسی لٸے روبینہ میر نے اپنے اشعار میں پاٸے جانے والے کُھردرے پن کی صیقل گری پہ بہت زیادہ دھیان نہ دیتے ہوے اُن تمام موضوعات پہ قلم چلانے کی کوشش کی ہے جس سے آج انسانیت جُھوجھ رہی ہے۔
میری نگاہ میں شاعرہ کا یہ چناٶ ہی اُسے دوسروں سے ممّیز اور برتر بنانے کے لٸے کافی ہے۔خُدا اُن کی انسان نوازی اور انسانیت کے فروغ کے لٸے چلاٸی جانے والی شعری تحریک کو دوام عطا کرے۔