روبیہ مریم روبی کا افسانہ، “سورج مکھی،” فطرت کی استعاراتی تصویروں میں لپٹی انسانی حالت زار کی ایک باریک بینی سے تحقیق پر مبنی بہترین کہانی ہے۔ واضح وضاحتوں اور پُرجوش خصوصیات کے ذریعے روبی نے ایک ایسی دلچسپ داستان تیار کی ہے جو جذبات اور سماجی توقعات کی پیچیدگیوں کی گہرائی میں اتر کر لکھی گئی ہے۔ روبیہ مریم روبی کہانی کا آغاز یوں کرتی ہیں کہ ”جنوری کی شام، جاڑے کا زور، پہاڑی علاقوں کے سانولے باشندوں کے جسموں کو گرماتا،جِلد کی ہزار تہوں میں اُترتا ٹھار،سخت جان عورتوں کا اُون سے بنی سویٹروں اور گرم موزوں سے لاپروائی کا غرور توڑتا پَالا!ملازموں اور مستریوں کے اَزحد کڑے تن،سردی کے انوکھے رنگ،سورج کی کرنوں سی تندی لیے قدرت کے شعبدے سے نہ بچ پائے تھے۔بار بار ہاتھ بغلوں میں دبا کر ہائے ہائے کرتے۔دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والی ہُوک پکار بن کر زبان کے راستے حقیقت میں ڈھلتی اور سماعتوں سے ٹکرا کر فضا میں اٹک جاتی۔سحر مادر پدر کی اکلوتی اولاد تھی۔ہر دم سفید آشیانے سے کھیلتی رہتی۔وہ اس چھوٹے سے کھلونے کو ہزار نام دیتی۔کبھی تاج محل کہتی تو کبھی کسی بیوہ کا سا ٹوٹا ہوا دل سمجھتی۔جادوئی آشیانے سے قوسِ قزاح سی ترنگیں پُھوٹتیں۔اور اس کو سراپا اپنے حصار میں دبوچے سردی سے بیگانہ کر دیتیں۔مشتِ خاکی سے اُٹھتے شعلے دہکتے تو زمین ہلنے لگتی۔آسمان لرزتا،طیورِ زمیں اپنی پناہ گاہیں چھوڑ کر اس کے گرد جمع ہو جاتے۔عجیب سی خوشبو فضا میں بکھر جاتی۔یوں لگتا کوئی دیو انسانی بستی چھوڑ کر بھاگا ہو اور اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی خاطر لمبی آہ بھر کر منہ کی بُو چھوڑ گیا ہو۔اس مہک کی زندگی اتنی ہی ہوتی،جتنی گلاب خوشبو کی حیات ہوتی ہے۔پرندوں کی چہچہاہٹ اور سردی کی لپیٹیں اس کے پاگل پَن پر اپنا سحر پھونکتیں۔گویا پَو پھوٹتی۔آشیانہ ہاتھوں میں دبوچے دروازہ پٹخاتی سبزہ زاروں کی اور بھاگتی۔پَا افروز زدہ پاؤں چار سمتوں مشرق سے جنوب کی طرف پابہ رکاب ہوتے۔پگھلتی موم بتی کی لَو اس کے خیالات منجمد کر دیتی۔آشیانے کے آنگن کو اس نے سنوارا تھا”۔
افسانہ “سورج مکھی” سحر کی کہانی پیش کرتا ہے، ایک عورت جو زندگی کے ہنگامہ خیز منظر نامے پر گامزن ہے، جو دیہی زندگی کے پر سکون پس منظر کے خلاف ہے۔ سحر کی جدوجہد کی تصویر کشی قاری کے دل و دماغ پر نقش ہوجاتی ہے، کیونکہ وہ آزادی اور انفرادیت کے احساس کے لیے تڑپتے ہوئے اپنے اردگرد کے تقاضوں سے نمٹتی ہے۔ حسی تفصیلات کا استعمال، جیسے جھلسا دینے والی گرمی اور خوشبودار پھول، داستان میں گہرائی کا اضافہ کرتے ہوئے، قاری کو سحر کی دنیا کی طرف لے جاتے ہیں۔ روبیہ مریم روبی رقمطراز ہیں کہ ”صحن چمن کو سنگِ مر مر کی چھوٹی چھوٹی پیپڑیوں سے سجایا۔دور سے دیکھنے پر پَرچ کا گمان ہوتا۔قریب سے دیکھنے پر بڑا سا برف کی ٹکڑیوں بھرا تھال دکھائی پڑتا۔اس نے شیشے کے محراب کو اپنے ہاتھوں سے ہیروں کا لباس پہنا رکھا تھا۔کمروں کو ریشمی طلائی سنہرے پردوں سے سجایا۔طاق میں ایک طلسماتی آئینہ رکھا۔چھت پر کلاسیکی انداز کا بنگلہ کھڑا کیا۔مٹی کے دو چار پَر تَولے کبوتر میناروں کے وسط میں میں ٹانک دیے۔طاق میں سجے آرسی میں چہرہ دیکھا جا سکتا تھا،جس پر سردی کا خُمار دھند کی صورت موجود تھا۔وہ جہاں جاتی سفید چُونا لگے آشیانے کو پہلوؤں میں لیے جاتی۔صبح و شام اس کو سجدہ کرتی۔خدا کے گھر کی خوبی اس کا دودھیا رنگ تھا۔سحر کے نرم و نازک ہاتھوں کے علاوہ کوئی اس کو چُھوتا تو اس پر دھبہ پڑ جاتا۔خود بے خبر اسی کو ہاتھوں میں لیے مسلتی،الٹتی،پلٹتی دھبے گہرے کرتی جاتی۔جسمانی و خیالی سفرو خضر اسی کے ساتھ گزارتی۔اس کو پِچکارتی،خوب سے خوب تر بناتی رہتی۔اس کی محبّت سے وہ چمکنے لگتی۔اس کی جوانی کائناتی ترنگوں سے مہک کر جوان ہو رہی تھی۔فرصت ہو یا فراغت،محبت اپنے سائے گہرے کرتی،مردوں سے نفرت کی چنگاری سہاگے کے غبار سے منہ نکالتی یا رشک کی آگ جلتی!ہر آن اس کا مشغلہ دودھیا گھر سے محبت اور کھیلنا رہا۔سحر کوئی کام بھی کیا کرو۔سسرال میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔لوگ متحرک خواتین کو پسند کرتے ہیں۔آرام طلب لوگوں کو کوئی پسند نہیں کرتا۔کھانا بنانا سیکھ لو۔مستقبل سنور جائے گا۔صبر کا زمانہ تو آگے ہے۔امّاں کی پیار محبّت میں دُھلی نصیحتیں جانے کب اس کو زہر لگنے لگتیں۔امّاں سے کئی بار بِھڑ گئی۔ابّا حکم کرتے سحر، آج میرے لیے پراٹھا بناؤ۔مگر اس کی آزاد طبعیت ہر وقت کسی منکر سائے کے سرابوں میں اڑتی اور ناگن کی طرح بل کھاتی رہتی۔اس کی گندمی انگلیوں کے پَورے آگ کی تپش سے جھلس کر سانولے پڑ گئے۔بمشکل ایک پراٹھا پکاتی۔اور دودھ پتی چائے میں ڈبو ڈبو کر کھاتی اور تین انچ انگلیاں چاٹتی،ہونٹ بِھینچ کر خدا کا شکر ادا کرتی۔چُھپ کر سگریٹ پیتی۔ہونٹ گہرے اندھیروں سی رنگت میں ڈھل گئے۔اس کے ہونٹوں سے چھوٹتا دھواں بہت سوں کے سر چکرا دیتا”۔
افسانہ کے سب سے نمایاں پہلوؤں میں سے ایک روبی کا سحر کی اندرونی کشمکش کی تصویر کشی ہے۔ سحر کے خود شناسی لمحات اور لطیف اشاروں کے ذریعے روبی نے مہارت کے ساتھ معاشرتی توقعات اور ذاتی خواہشات کے درمیان فرق کو اپنی گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے۔ خود کی دریافت کی طرف سحر کے سفر کو حساسیت کے ساتھ دکھایا گیا ہے، جس میں بیرونی دباؤ سے اپنی شناخت کو ہم آہنگ کرنے کی عالمگیر جدوجہد کو اجاگر کیا گیا ہے۔ روبیہ مریم روبی لکھتی ہیں کہ ”مگر وہ گھونگھٹ گرائے قریب سے نظر آنے والی اپنی مادی ہستی کی دل آزاری میں مصروفِ عمل رہتی۔میں سحر ہوں!اس دنیا میں آئی نہیں، پھینکی گئی ہوں۔نہیں!اگلا خیال اس کو جھپاکے سے کہتا!تم یہاں بھیجی گئی ہوکسی مقصد کے لیے!!! ہاں میں تمہاری بات ماننے کے لیے تیار ہوں۔مگر تم ہو کون؟کوئی جواب نہ پا کر اس کا غصہ تجسس میں ڈھل جاتا۔اور وہ فکر کی نئی ڈگر پر چل پڑتی۔شہتوتی رنگت مائل ہونٹ کپکپانے لگتے۔دَم سادھے رک جاتی۔پُورب سے اٹھنے والی آندھی اس کی توجہ بِھینچ لیتی۔سبزہ زاروں کی دوسری طرف سفید پانی سے چمکتی بہتی ندی پر سورج کی شعاعیں پڑتیں۔بُلبلے اٹھنے لگتے۔جن کی آوازوں کی موسیقیت وہ محسوس کر پاتی۔اس کی بے پروا نظریں محوِ رقص دور پہاڑوں سے اُٹھتی موروں کی ٹَیں ٹَیں سے دور بھاگتے پرندوں کو ڈھونڈنے لگتیں۔دنیا سے آزاد بے اختیار پکارنے لگتی!اوہ میرے غیبی دوست!،ہونٹ بھینچ کر طائرانہ نظر آشیانے پر ڈالتی اور اندر ہی اندر مُسکا کر روشنی سے ہم کلام ہو جاتی۔ہستی نیستی سے ملتی۔آنًا فانًا طوفان آتے۔تَھر تَھر کانپتی۔مجذوبانہ پکار اٹھتی۔گھنٹوں دھرتی پر قدم جمائے کھڑی رہتی۔لوگ کھیتوں میں گھومتے رہتے۔چرواہے اور گڈریے بکریوں کے ریوڑ ہانپتے زندگی کو متحرک کرتے۔وقت اور خلا کے کھیل کا تماشہ بنتے”۔
مزید برآں “سورج مکھی” روایتی معاشروں میں خواتین کے کردار پر ایک پُرجوش تبصرہ کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ سحر کے تجربات ان لاتعداد خواتین کی عکاسی کرتے ہیں جو خود کو معاشرتی اصولوں اور خاندانی ذمہ داریوں کا پابند پاتی ہیں۔ روبی نے مہارت سے خواتین پر عائد پابندیوں کو بے نقاب کیا ہے اور صنفی عدم مساوات کی وسیع نوعیت پر روشنی ڈالی ہے۔روبیہ مریم روبی لکھتے ہیں کہ ”اس کا نقطوں سے بنا جسم کششِ ثقل کی زَد میں زمین پر پڑا رہتا۔اس کی نگاہیں دور پڑی لکڑیوں کو گھورتیں جو زمین پر پورا وزن اور رعب ڈالے پڑی تھیں۔پھر ہستی نیستی سے ملتی۔وہ کسی غیبی دوست کو پکارنے لگی۔جیسے پڑی لکڑیوں کو وقت کی دیمک چاٹ کر کھوکھلا کر مارے گی اور ایک دن سرخ آندھی اس خاک کو اڑا کر بکھیرے گی۔ایسے کائنات کو بھی کوئی غیبی دیمک چاٹ رہی ہے۔وہ بھی کھوکھلی ہو رہی ہے۔ایک دن اس کا رُواں رُواں فضا میں بکھرے گا۔تب غیبی دوست منظر بنائے گا۔تب اس کے جسم کا کونہ کونہ مسکانے لگتا۔اَنگ اَنگ کِھل اٹھتا۔مِیلوں دور صوفیا کی یاد ستانے لگتی۔وقت تَھم جاتا۔زندگی بڑھ سی جاتی۔ٹھنڈے پانی کے چِھینٹے اڑاتی بھاگتی برف زدہ برہنہ پرانی کھٹ پر اوندھے منہ گِر کر بِلکنے لگتی۔آشیانے کا ہر رنگ پِھیکا پڑ جاتا۔پورے بدن پر سنسنی پھیل جاتی۔خیال آمادہ بے حجاب ہو جاتا”۔
افسانہ سورج مکھی کی علامت نگاری داستان میں پیچیدگی کی ایک اور تہہ کا اضافہ کرتی ہے۔ جس طرح سورج مکھی گرمی اور روشنی کی تلاش میں اپنا چہرہ سورج کی طرف موڑ لیتی ہے، اسی طرح سحر اپنے حالات کی تاریکی میں مقصد اور تکمیل کے احساس کے لیے تڑپتی ہے۔ سورج مکھی لچک اور امید کا استعارہ بن جاتی ہے، جو کہ سحر کے لیے طاقت کی روشنی کا کام کرتی ہے جب وہ زندگی کے چیلنجوں کا مقابلہ کرتی ہے۔ روبیہ مریم روبی لکھتے ہیں کہ ”ریشمی دوبٹہ سر سے سِرک جاتا۔وہ رونے لگتی۔اس نے زندگی کی تئیس بہاریں تن تنہا گاؤں کے دم گھٹن ماحول کی نظر کی تھیں۔گاؤں کے بالغ اس کو دیکھ کر اپنا راستہ بدل دینے میں خوشی محسوس کرتے۔ان کی نظریں خود بخود جُھک جاتیں۔اور گلی کی دوسری نکڑ پر چلنے لگتے۔اس قبیلے کے کچھ لوگ اس کو دیکھ کر کھلے ہیاؤ سے نظریں بھر بھر بولتی آنکھوں سے تسکین حاصل کرتے۔کوئی اس کو جیون ساتھی بنانا چاہتا کوئی ہوس زدہ نظروں سے دیکھتا۔غیبی دوست کو نہ دیکھ سکنے کا دکھ رَس رَس کر اس کے بدن میں سِمٹ آیا۔جب سراپا لرز جاتی تب اس کی طبعیت کے رنگ سورج مُکھی کے پھول کی مانند اپنا رخ بدلتے”۔
خلاصہ کلا یہ ہے کہ روبیہ مریم روبی کا افسانہ “سورج مکھی” ایک فکر انگیز، دلچسپ اور سبق آموز افسانہ ہے جو شناخت، سماجی اقدار اور سماجی توقعات کے موضوعات کو سامنے لاتی ہے۔ بھرپور منظر کشی اور باریک بینی کے ذریعے روبی نے ایک ایسی داستان تیار کی ہے جو گہری جذباتی سطح پر قارئین کے دلوں پر ہمیشہ کے لیے نقش ہوگی۔ “سورج مکھی” انسانی تجربے کو روشن کرنے اور زندگی کی پیچیدگیوں پر بہترین عکاسی پر مبنی کہانی ہے۔ میں مصنفہ کو اتنی اچھی کہانی تخلیق کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...