اس وقت ہمارا ملک جس تنظیم کے ہاتھ میں ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک انتہا پسند تنظیم ہے، جو غیر جمہوری اور فاشزم زدہ ہے، اس تنظیم کے منصوبوں اور اس کے عزائم میں کہیں بھی امن و امان، اخوت و رواداری، کا پہلو نہیں ہے، بلکہ بدکرداری آپسی تفرق و افتراق اس کا خاص شیوہ ہے، علاوہ ازیں اس کی جد و جہد، اس کا نظم و نسق، صبر و تحمل سے انکار نہیں کیا جا سکتا، انہیں محنتوں کا نتیجہ ہے کہ وہ اس وقت پورے ملک پر قابض ہے،
ایک ہندوستانی ہونے کے ناطے ہمیں اس کے بارے میں معلومات ہونی چاہیے تاکہ اس کے عزائم اور منصوبوں کے بارے میں جان سکیں اور اس سے چھٹکارہ کی تدبیر کریں، ذیل میں اس تنظیم کا قیام اور پس منظر پیش کیا جارہا ہے، اگلی قسط میں اس کے عزائم اور منصوبوں کا تذکرہ کیا جائے گا،
ملک کی آزادی سے قبل حکومت برطانیہ اپنی حکومت کی مضبوطی اور استحکام کیلئے مختلف کام کرتی رہی، اسمیں کبھی اس کا جھکاؤ ہندوؤں کی طرف ہوتا اور کبھی مسلمانوں کی طرف، برطانیہ نے 1909 میں دستوری اصلاحات کے ذریعہ چند کونسل ممبر کے الیکشن کی اجازت دی تھی، ان اصلاحات میں مسلمانوں کیلئے الگ نمائندگی کی بات رکھی گئی، اس کی پرزور مخالفت کانگریس پارٹی کی طرف سے کی گئی، بیسویں صدی کے آغاز میں واضح ہندو جھکاؤ رکھنے والے دو اہم لیڈر کانگریس میں شامل تھے۔ مہاراشٹر میں۔بال گنگا دھر تلک۔ اور بنگال میں۔آر بندو گھوش۔ لیکن اس نے کانگریس میں یا اس سے باہر کوئی تنظیم نہیں قائم کی، بلکہ کانگریس میں انتہا پسند، کی حیثیت سے موجود رہے، پھر اس کے بعد صدی کے پہلے دہے کے خاتمے پر ہندو سبھا کے نام سے تنظیم کا قیام عمل میں آیا،
شمالی ہند میں پنجاب کی صورت حال الگ تھی، وہاں سوامی دیانند سرسوتی 83۔1824 کی آریہ سماج کو بڑی مقبولیت ملی، آریہ سماج کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے بہت سے مناظرہ ہوئے، سوامی دیانند سرسوتی کی کتاب۔ستیآرتھ پرکاش، میں ایک باب قرآن اور دوسرا بائبل کا شامل کیا گیا تھا، جس نے دونوں فرقوں میں بڑی غلط فہمی بڑھائ، پنجاب میں مقامی آریہ سماجیوں نے برطانوی انتظامیہ کے نام نہاد مسلم جھکاؤ کے خلاف اور ہندو مفاد کی حفاظت کیلئے پنجاب ہندو سبھا 1970 میں قائم کیا، پنجاب کے آریہ سماجیوں نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ وہ اب آئندہ مردم شُماری 1911 میں خود کو آریہ لکھانے کے بجائے ہندو لکھوائیں گے،
ہندو سبھا کے لیڈر لالہ لاجپت رائے نے جو کہ ایک اہم آریہ سماجی تھے، پنجاب صوبائی ہندو کانفرنس میں اکتوبر 1909م میں کہا ہندو ضروری نہیں کہ سیاسی معنوں میں بلکہ تہذیب و کلچر رکھنے والے معنی میں، قوم، ہیں، ہندو مہاسبھا (قیام 1915) نے ہندو مفاد کی دفاع اور حفاظت کو مطمع نظر بنایا، 1920 کے دہے میں اس کی کوشش تیز ہو گئ، 1916میں کانگریس اور مسلم لیگ نے لکھنؤ میں ہندوؤں اور مسلمانوں کو سیاسی طور پر قریب لانے کیلئے ایک بڑی کوشش کی دونوں تنظیمیں اس کیلئے راضی ہو گئیں، نمبر ایک ( سوراج کی تائید کی جاے) نمبر دو، مسلمانوں کی الگ نمائندگی برقرار رہے، مدن موہن مالویہ اور دوسرے احیا پرستوں نے اس کی مخالفت کی کہ یہ ہندو مسلم اتحاد کو توڑے گا، یہ لیڈر یکم اگست 1920 کی خلافت تحریک کے بھی خلاف تھے، مہاتما گاندھی نے 1919 میں پنجاب میں جلیانہ والا باغ میں جنرل ڈائر کے قتل عام اور قاتل کو سزا نہ دینے کے خلاف اور خلافتِ تحریک کا ساتھ دیتے ہوئے عدم تعاون اور عدم تشدد کی تحریک کا آغاز کیا، عدم تعاون کی تحریک کے بھی بہت سے کانگریسی اور احیا پرست خلاف تھے، اس کے باوجود بہت سے احیا پرستوں نے 26۔1920کی تحریک عدم تشدد اور عدم تعاون کا ساتھ دیا، 1920 کے دہے میں آریہ سماج کی مسلمانوں کو ہندو بنانے کی مہم نے زور پکڑا اس کا نام شدھی رکھا گیا ۔ نشانہ ان مسلمانوں کو بنایا جن کی اسلامی تربیت بالکل نہیں تھی اور جو متعدد ہندو رسوم پر عمل پیرا تھے، چنانچہ اس دور میں مغربی یوپی میں ملکان اور ہریانہ۔ضلع روہتک۔ میں مولا جاٹ کو ہندو بنانے کی رسوم کیلئے عام انجام دی گئی جس نے ہندو مسلمانوں میں سخت کشیدگی پیدا کردی، عدم تعاون کی تحریک کے ناکامی کے بعد ملک میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوگئے، بہت سے ہندوستانیوں کا خیال ہوا کہ اس کی کمزوریوں کا علاج یہ ہے کہ ان کے اندر ایک ہونے کا احساس مضبوط ہو اور اس کے علاوہ چھتری خصوصیات کو پروان چڑھانے پر غور کیا جائے، اگست 1921 میں مالا بار میں فسادات ہوئے کسانوں نے حکومت اور زمینداروں کے خلاف بغاوت کردی، کسان موپلا مسلمان تھے اور زمیندار ہندو۔ زبر دستی تبدیل مذہب کے دوتین واقعات بھی پیش آئے، اس کے بعد شمالی ہند میں فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا 21-1923 کے فسادات کے نتیجہ میں ہندو مہاسبھا جو کمزور تھی۔ دوبارہ زندہ ہوگئی۔ اب تک اس کا کام گاے کی حفاظت، دیوناگری رسم الخط میں ہندی کا استعمال۔ ذات پات میں اصلاحات تھی، اگست 1923 میں بنارس میں ہندو مہاسبھا کا قومی اجلاس ہندو لیڈروں نے بلایا، پنڈت مدن موہن مالویہ اس کے صدر تھے، موصوف نے کہا اگر ہندو اپنے کو مضبوط کرلیں اور مسلمانوں کے غنڈہ عناصر اس پر مطمئن ہو جائیں کہ وہ ہندوؤں کو آسانی سے نقصان نہیں پہنچا سکتے یا بے عزت نہیں کر سکتے تو اتحاد مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جائے گا، انہوں نے اس موقع پر اونچی ذات والوں سے کہا کہ وہ نیچلی ذاتوں کو صحیح معنوں میں ہندو سمجھ لیں ، انہیں مندروں۔ اسکولوں سے الگ نہ کریں، انہوں نے ایسے لوگوں سے جو خوشی یا زبردستی مذہب تبدیل کر چکے تھے واپس لانے کیلئے ایک مہم چلانے کا مشورہ دیا، ہندو مہاسبھا کے آٹھویں سیشن میں 1925 کی صدارتی تقریر میں لالہ لاجپت رائے نے گاندھی جی کے عدم تشدد پر مبنی تعاون کے نظریہ پر تنقید اس وجہ سے کی کہ یہ ہندوؤں کے اتحاد کو کمزور کردیگا، ان حالات میں محسوس کیا گیا کہ ہندو دھرم خطرہ میں ہے ایسے ہی حالات میں۔ آر ایس ایس کا قیام عمل میں آیا،
سنگھ کی ابتدا مہاراشٹر سے ہوئی، اس کی ممبر شپ اور علامات تقریباً سب برابر تھی، جبکہ ڈسپلن اور نظریاتی فریم ورک زیادہ تر ڈاکٹر گیس بلی رام ہیڈ گیوار کا طے کردہ تھا، سنگھ کی تقسیم اداروں میں کی جاسکتی ہے، شروع کے چار ادوار کی تقسیم اصلا ایک سیوم سیوک دیناتھ مشرا کی ہے، یہاں ہم ادواروں کو مختصر پیش کرتے ہیں آئندہ کی تحریر میں تفصیلا بحث ہوگی۔
پہلا دور۔1925.1940.یہ سنگھ کے بانی ڈاکٹر ہیڈ گیوار کا ہے،
دوسرا دور۔ 1940.1949. یہ دور دوسرے سر سنگھ چالک گول لکر کی ہے،
تیسرا دور۔ 1949.1973. یہ پابندی ہٹنے کے بعد سے گولولکر کے انتقال تک چلتا ہے،
چوتھا دور۔ 1973.1994. یہ دور تیسرے سر سنگھ چالک بالا صاحب دیورس کا دور ہے،
پانچواں دور۔ 1994 .2000. یہ دور چوتھے سر سنگھ چالک راجندر سنگھ کے تقرر سے شروع ہوتا ہے،
چھٹا دور.2000.2009.یہ سدرشن کی سربراہی کا دور ہے۔
ساتواں دور۔2009.تاحال چھٹے سرسنگھ چالک بھاگوت سے اس کا آغاز ہوتا ہے،
شروع کا مرحلہ،
ڈاکٹر ہیڈ گیوار کی پیدائش یکم اپریل 1889بروز اتوار مطابق ہندو نۓ سال ورش برتی کو ہوی تھی، اس کا تعلق دیشاستھ برہمن خاندان کے کشیپ گوتر سے تھا موصوف کے آبا و اجداد تلنگانہ کے رہنے والے تھے، ابتدائی تعلیم ایک سنسکرت پاٹ شالہ میں ہوئی، بعدہ اس کا داخلہ ناگپور میں ہوا، بچپن میں وہ شیواجی سے بہت متاثر تھے، نوجوانی میں انہوں نے مہاراشٹر کے جتپان برہمن بال گنگا دھر تلک کے ہفتہ وار۔ کیسری۔ کا مطالبہ بڑی پابندی سے کیا تھا، 1910…1916 میں وہ کلکتہ میں نیشنل میڈیکل کالج میں ڈاکٹری پڑھتے تھے، اور میڈیکل کورس LMS, مکمل کیا، ہیڈ گیوار نے ناگپور واپسی کے بعد پریکٹس اور شادی نہیں کی، جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد وہ ملک کے ایک سابق معاون ڈاکٹر بال کرشن کی ایماء پر کانگریس میں شامل ہو گئے،
1923 میں ہندو مسلم فسادات کا سلسلہ جاری تھا، ستمبر 23 میں گنیش پوجا کے موقع پر ڈسٹرکٹ نے حالات کو دیکھتے ہوئے سالانہ اجلاس منسوخ کردیا ہندوؤں نے اس کی پابندی کی۔ 20اکتوبر 1923کو کلکٹر ڈنڈی جلوس کی اسی وجہ سے اجازت نہیں دی گئی، ہندوؤں نے اس کی خلاف ورزی کا فیصلہ کیا، بیس ہزار افراد اس کی مخالفت میں سڑکوں پر نکل آئے، اس کے نتیجہ میں ناگپور ہندو مہاسبھا کا قیام عمل میں آیا، اس سبھا کی کامیاب اجتماعی جلسے اور پروگرام کۓ، احیا پرستوں نے تنظیم کی اہمیت کو بطور خاص محسوس کیا، 1922 میں مہاراشٹر کے ہی دامو دار ساورکر نے ایک تحقیقی کتاب۔ ہندتو۔ کون۔ ہے کے نام سے لکھی، ساور کر نے اسمیں ہندو کو۔ راشٹریہ۔ قوم کہا تھا، ساور کر کے مطابق آریہ لوگ اور ان کی تہذیب شمال۔ مغربی ہند میں ظہور پذیر ہوی تھی، جو بالا آخر پورے ملک میں پھیل گئی، ان کے مطابق ہندو وہ ہے جس کے پورج یا آبا و اجداد ہندوستان میں ہوں، اور ہندوستان کو فادر لینڈ اور مقدس زمین مانیں، ساور کر دلائل نے ہیڈ گیوار کے لئے عملی اور نظریاتی بنیاد فراہم کۓ،
ساور کر نے ہندو قوم کا مفہوم واضح کیا ان کا۔ہندتو۔ تین بنیادوں پر تھا، جغرافیائی، نسلی خصوصیات، اور متحدہ یا مشترکہ کلچر، انہوں نے مذہب کو ہندو کی تعریف سے الگ کیا، ہندو ازم صرف ہندوتو کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے، یہ ہندوؤں کی مذہبی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ضروری تھا، جغرافیائی اتحاد سے مراد ملک بھارت ہے، نسلی خصوصیت میں وہ خوں کو خالص نہیں قرار دیتے۔ دیگر نسلیں آئیں اور اسمیں شامل ہو گئیں، ایسا اس لئے کہ نسلی اختلافات کو کم کرنا بھی مقصود تھا، اس سے مسلمان اور عیسائی بھی نسلا ہندو قرار پائے، جنہیں ہندو سماج میں شامل کیا جا سکتا ہے، باقی باہر سے آنے والوں کو ضم کیا جائے، کلچر میں رسوم سماجی ضابطے وزبان شامل ہیں، سنسکرت کو اس کی زبان قرار دیا۔ سنسکرت کے علاوہ مشترکہ قوانین اور رسوم۔ جیسے مذہبی تہوار کو ہندتو کا جز قرار دیا گیا۔ اسمیں ماتھو لوجی، دیوی دیوتا کو بھی شامل بتایا، انہوں نے کہا اس بنیاد پر مسلمان اور عیسائی اس قوم کا حصہ نہیں ہیں، کیوں کہ ان سے کلچر کی سطح پر اختلاف ہے،
ہندو قوم کو کس طرح متحد کیا جائے اس سوال کا جواب ہیڈ گیوار کو ساور کر کی کتاب میں نہیں ملتا تھا، اس کیلئے وہ غور وفکر کرتے رہے اس کے ذہن میں ابتداء ہی سے یہ بات رہی کہ باہری اثرات کو کیسے ضائع کیا جائے، 24.25 میں وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ اصل مسئلہ نفسیاتی ہے، اگر ہندوؤں میں ایک ہونے کا احساس پیدا کردیا جائے اور اس کے اندر قومی شعور پروان چڑھ جاے تو مسئلہ حل ہو جائے گا، اگر ایک بار قومی تعمیر نو کیلئے افراد کا ایک مضبوط گروہ تیار کر دیا جائے تو پھر وہ دوسروں میں زندگی پیدا کردیں، آزادی ان کے مقاصد میں سے ایک مقصد تھا، آزادی کے راستہ میں پہلا کام ایک ڈسپلن کی حامل تنظیم بنانا تھا جو لوگوں کو تیار کرتی رہے،
دوسری قسط میں سنگھ کو سات ادواروں میں تقسیم کیا گیا تھا جن کا اجمالی خاکہ بھی پیش کیا گیا تھا اب اس قسط میں ان اداروں کا تفصیلا ذکر ہدیہ ناظرین ہے ،۔ اس قسط میں ان کے تین ادواروں کا بیان ہے، بقیہ چار کا آئندہ قسط میں بیان کیا جائے گا،
راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ کا قیام 25دسمبر 1925 مطابق وجے دشمی کے موقع پر عمل میں آیا اس دن ڈاکٹر ہیڈ گیوار جی کے مکان پر دس پندرہ لوگ جمع ہوے، ڈاکٹر صاحب نے ان کے سامنے ہندو تنظیم کا کام شروع کرنے کی ضرورت پر اپنا خیال پیش کیا اسی دن اس کام کو کرنا طے پایا، جو افراد موجود تھے ان میں کچھ کے نام ہیں، ۔ شری بھا جی کاروے۔ شری بالا جی۔ شری بابو راؤ بھدے۔ اس کے علاوہ ہندو مہاسبھا کے بی ایس مونجے۔ بابا راؤ ساورکر موجود تھے، شروع میں روزانہ کی شاکھا نہیں لگتی تھی وابستہ نوجوانوں سے صرف یہ توقع کی جاتی کہ وہ روزانہ کسی نہ کسی اکھاڑے میں آجائیں اس لئے سنگھ کے قیام کے بعد اس سے وابستہ لڑکوں اور نوجوانوں کو اپنے اپنے اکھاڑے میں جاتے رہنے کیلئے کہا گیا، صرف اتوار کے روز ایک خاص یونیفارم کے ساتھ ایک جگہ جمع ہوتے، ہر جمعرات کو وہ کسی بزرگ یا سینئر ساتھی سے ملکی حالات کے بارے میں سنتے، اکھاڑہ کے آپسی اختلافات کے نتیجہ میں اگلے سال کسی علحیدہ مقام پر شاکھا لگنے لگی، اور لاٹھی کا استعمال بھی اس کا ایک حصہ قرار پایا، اجتماعی پراتھنا کا بھی نظم کیا گیا، اس نوزائیدہ تنظیم کا ابھی تک کوئی نام نہیں تھا، 17اپریل 1926 میں اس کا نام رکھنے کیلئے سنگھ کے افراد کی ایک میٹنگ بلائی گئی جسمیں 26افراد شامل تھے، تین نام پیش ہوئے، راشٹریہ سیوم سیوک۔ جری پٹکا منڈل۔ بھارتو دواک منڈل۔ لیک اول الذکر کو زیادہ ووٹ ملا 1927 میں رام نوی کے موقع پر اس کے نام کا اعلان کیا گیا اور اسی دن بھگوا جھنڈے کو تنظیم کے جھنڈے کی حیثیت دے دی گئی،
سنگھ کے قیام کے چھ سال بعد تک ہیڈ گیوار نے تنظیم کے کام کو ناگ پور کے قرب و جوار تک ہی اپنی خصوصی توجہ کا مرکز بنایا، لیکن دوسرے علاقوں کو نظر انداز نہیں کیا۔ تین سال میں ناگپور میں 18 شاکھائیں لگتی تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے کارکنوں کو دوسری جگہ بھیج دیا، 50.40 افراد لاہور۔ پیشاور۔ بنگلور۔ کلکتہ۔ کراچی اور دوسرے شہروں میں بھیج دئیے، تاکہ وہاں وہ کارکنوں کی نئی ٹیمیں تشکیل دیں۔ اور پھر انہیں قریبی علاقوں میں بھیجیں، پہلا ایک ماہ کا تربیتی کیمپ اسی وقت لگایا تھا، اس کیمپ میں چنے ہوئے 17 سیوم سیوکوں کو داخلہ دیا گیا، ہفتہ میں تین دن نظریاتی پروگرام ڈاکٹر صاحب کے گھر پر ہوتے تھے دراصل ہیڈ گیوار کو خفیہ تنظیموں کا بھی علم تھا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ سنگھ کے تصورات جرمنی کے اڈولف ہٹلر کی ناری پارٹی برسراقتدار 1933تا 1945 اور موسولینی کی فاشسٹ پارٹی جو اٹلی میں بر سرِ اقتدار تھی اس سے ماخوذ تھی،
اسمیں شک نہیں کہ سنگھ کے تشکیلی دور میں یہ دونوں پارٹیاں عالمی سیاست میں نمایاں تھیں دونوں قومیت کے انتہا پسند تصور پر یقین رکھتی تھی، اور دونوں کمیونزم اور مارکسزم کی سخت مخالفت بھی تھی، بہر حال ان دونوں پارٹیوں کو دوسری جنگ عظیم میں بد ترین شکست کا سامنا کرنا پڑا، ہندو قوم پرستی کی علمبردار سنگھ آج اگر کمیونسٹوں کی مخالف ہے تو اسمیں تعجب کی بات نہیں کیونکہ کمیونسٹ کا نظریہ قوم پرستی کے بجائے حب الوطنی کا ہے،
دوسرا دور،
دوسرے دور کا آغاز گولو الکر سے ہوتا ہے، ان کا تقرر 3جولائ 1940 کو سنگھ سربراہ کی حیثیت سے عمل میں آیا، گولو الکر کی پیدائش 18 فروری 1902کو ناگپور میں ہوئی تھی ان کے والد ڈاک و تار کے محکمہ میں کلرک تھے، میٹرک کرنے کے بعد 1922 میں ناگپور کے ایک کالج میں داخلہ لیا، 1924 میں بنارس ہندو یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور وہاں سے زولوجی میںM.scکیا ۔ 1930میں بنارس ہندو یونیورسٹی میں استاد ہوگۓ، اس کے بعد انہوں نے یونیورسٹی چھوڑ دی اور ناگپور آکر قانون۔ LL B, کی ڈگری لی، کچھ دن وکالت بھی کی 1937 میں ناگپور آئے جہاں ہیڈ گیوار نے فوراً انہیں سنگھ کا جنرل سیکرٹری بنادیا۔ انہوں نے 1939 میں ایک کتابچہ تیار کیا جو قومیت کے مسئلہ پر تھی، اسمیں انہوں نے جہاں مغربی تصور قومیت کے بعض پہلوؤں پر تنقید کی وہیں اس کے صحیح تصور کو اختیار کرنے کا بھی مشورہ دیا، انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے مصیبتوں کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم صحیح قومی شعور سے محروم ہیں چنانچہ یورپی سماج اپنی تمام تر خرابیوں کے باعثِ آزاد۔ مضبوط اور ترقی یافتہ ہے، گولو الکر نے کانگریس کے تصور قومیت۔ جغرافیائی قومیت پر بار بار تنقید کی ہے،
گولو الکر نے دوسرے دور میں سنگھ کو باقاعدہ کل ہند تنظیم بنانے میں اپنی کوشش کا آغاز کر دیا تھا، مگر گاندھی جی کے قتل کے چار دن بعد حکومت ہند کی طرف سے سنگھ پر پابندی لگا دی گئی، جس تنظیم کا پھیلاؤ رک گیا، قاتل ایک برہمن ناتھو رام گوڈسے تھا، جس کا تعلق ہندو مہاسبھا ست تھا، بہر حال حکومت یہ ثابت نہ کرسکی کہ سنگھ بھی اس میں شریک تھی، چھ ماہ کی پابندی کے دوران وہ برابر اس کے خاتمہ کیلئے کوشاں رہی پابندی سے قبل 1947 میں 5ہزار مقامات پر ان کی شاکھائیں لگتی تھی،
تیسرا دور
حکومتی پابندی کے خاتمہ سے سنگھ کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے حکومت کے دباؤ کے تحت سنگھ کو پہلی بار اپنا ایک دستور بنانا پڑا بلکہ اس دستور کی تکمیل کے بعد ہی پابندی ختم ہوی، اس دور میں سنگھ کی چہار طرفہ ترقی و فروغ ہوا، مختلف میدانوں میں الگ الگ کاموں کیلئے الگ الگ تنظیموں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا، تقریباً ایک درجن تنظیمیں قائم ہو گئیں، جسے سیاسی میدان میں کام کرنے کیلئے سنگھ کے آشرواد سے 23اکتوبر 1951 کو جن سنگھا کا قیام عمل میں آیا اس کے ساتھ ساتھ تقریباً 100 چھوٹی چھوٹی تنظیمیں قائم کی گئیں، سنگھ کے لوگ وکلا، ڈاکٹر۔ اور صحافیوں میں متحرک ہو کۓ، بعض نے وہاں اچھی پوزیشن حاصل کی بہت سی تنظیمیں زیادہ دن نہ چل سکیں لیکن دوسری بے شمار تنظیمیں ان میں ابھی بھی متحرک ہیں، 1973 میں گولو الکر کے انتقال کے ساتھ سنگھ کا تیسرا دور ختم ہوگیا،